Reuters34 سالہ ممدانی پولز میں آگے ہیں اور منگل کو جب نیویارک شہر کے لوگ ووٹ ڈالیں گے تو جیت کی صورت میں وہ صدی کے سب سے کم عمر میئر بن سکتے ہیں
جب ظہران ممدانی نیو یارک شہر کے مین ہیٹن ضلع کے ایک معروف اور مہنگے علاقے اپر ایسٹ سائیڈ کی گلیوں میں ووٹروں سے ملنے کے لیے انتخابی مہم میں گئے تو وہاں ان کے مداحوں کی اتنی بھیڑ جمع تھی کہ انھیں ہر چند قدم لینے کے بعد رکنا پڑتا۔
دو نوجوان خواتین مسکرا کر ان سے ملیں اور بتایا کہ وہ انھیں انسٹاگرام پر فالو کرتی ہیں۔ ممدانی نے ان کا شکریہ ادا کیا اور پھر ایک نوجوان کے ساتھ تصویر کھنچوائی۔
میڈیا کے لوگ ممدانی کے اردگرد جمع ہو گئے اور ہر لمحے کی تصویر کھینچتے رہے۔ انھوں نے سڑک پر ایک ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ ہاتھ بھی ملایا جو کہہ رہا تھا: ’ہم آپ کے ساتھ ہیں۔‘
34 سالہ ممدانی پولز میں آگے ہیں اور منگل کو جب نیویارک شہر کے لوگ ووٹ ڈالیں گے تو جیت کی صورت میں وہ صدی کے سب سے کم عمر میئر بن سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ شہر کے پہلے مسلم اور جنوبی ایشیائی میئر بھی ہوں گے۔
چند ماہ پہلے تک ممدانی زیادہ مشہور نہیں تھے۔ ان کا ایک ہپ ہاپ آرٹسٹ اور ہاؤسنگ کونسلرسے نیو یارک سٹیٹ اسمبلی کے رکن اور پھر سب سے بڑے امریکی شہر کے میئر کے اہم امیدوار تک کا سفر یقیناً متاثر کن ہے۔
ایک ایسا شہر جس کا بجٹ (116 بلین ڈالر) تک ہے۔
ممدانی، ٹرمپ انتظامیہ کی مخالفت کا سامنا کیسے کریں گے؟
ممدانی وائرل ویڈیوز اور پوڈکاسٹ و سوشل میڈیا کے ذریعے ان ووٹروں تک پہنچے ہیں جو پارٹی سے مایوس ہیں، اور انھوں نے یہ سب ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب ڈیموکریٹک پارٹی کے اپنے ارکان کا اعتماد کم ترین سطح پر ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اپنے بڑے وعدے پورے کر پائیں گے اور بغیر کسی انتظامی تجربے کے وہ ٹرمپ انتظامیہ کی مخالفت کا سامنا کیسے کریں گے۔
ان کا پارٹی کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ تعلق بھی پیچیدہ ہے کیونکہ وہ بائیں بازو کے ڈیموکریٹس کے لیے قومی سطح پر نمایاں شخصیت بن چکے ہیں۔
ممدانی خود کو ’جمہوری سوشلسٹ‘ کہتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ بڑی کمپنیوں کے بجائے کارکنوں کی آواز سنائی جائے۔ یہ ویسا ہی سیاسی طرزِ عمل ہے جو برنی سینڈرز اور الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز نے اپنا رکھا ہے اور ممدانی ان کے ساتھ اکثر سٹیج شیئر کر چکے ہیں۔
ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر نیویارک کے شہری ’کمیونسٹ‘ کو منتخب کرتے ہیں تو وفاقی فنڈز روک دیے جائیں گے۔
ممدانی کا جواب ہے کہ وہ سکینڈینیویائی سیاستدان کی طرح ہیں، بس رنگ تھوڑا سانوالا ہے۔
Reutersکووومو کا الزام ہے کہ ممدانی کا ایجنڈا کاروبار مخالف ہے اور نیویارک کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
نیویارک کے شہری جو بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشان ہیں، اگر ممدانی کو ووٹ دیتے ہیں تو اسے عام سیاست کے خلاف ووٹ کے طور پر دیکھا جائے گا کیونکہ یہی ان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
منگل کے انتخاب میں ممدانی کے سب سے بڑے حریف سابق ڈیموکریٹک گورنر اینڈریو کووومو ہیں، جو پرائمری میں ممدانی سے ہارنے کے بعد آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں ہیں۔
کووومو کا الزام ہے کہ ممدانی کا ایجنڈا کاروبار مخالف ہے اور نیویارک کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ کووومو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ٹرمپ کے سامنے کھڑے ہو سکتے ہیں لیکن ممدانی انھیں صدر کی ’کٹھ پتلی‘ قرار دیتے ہیں۔
ریپبلکن امیدوار کرٹس سلیوا نے دونوں کا مذاق اُڑایا ہے۔
پچھلے مباحثے میں انھوں نے کہا: ’ظہران، تمہاری تعلیمی اور پیشہ ورانہ قابلیت ایک رومال پر پوری آ سکتی ہے۔ اور اینڈریو، تمہاری ناکامیاں نیویارک کے ایک پبلک سکول کی لائبریری بھر سکتی ہیں۔‘
کرایہ بڑھانے پر پابندی اور مفت بسوں کی سہولت
ظہران ممدانی نے اپنی مہم میں رہائش اور زندگی کے معیار کے مسائل پر زور دیا ہے۔
انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ ہر بچے کے لیے چائلڈ کیئر دستیاب ہوگی، سبسڈی والے کرایہ والے یونٹس میں کرایہ بڑھانے پر پابندی ہو گی، پبلک بسیں مفت ہوں گی اور شہر کے زیر انتظام گروسری سٹورز چلائے جائیں گے۔
یہ پیغام نیویارک کے ان شہریوں کے لیے بہت اہم ہے جو بڑھتی مہنگائی سے پریشان ہیں۔
ایسے ہی ایک شہری مائلز ایشتن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں ان کی حمایت کرتا ہوں کیونکہ ایک ہاؤسنگ اٹارنی کے طور پر میں دیکھ رہا ہوں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں اور ہم سب ایک سستا اور قابل برداشت شہر چاہتے ہیں۔‘
ممدانی کے پروگرام کے اخراجات بڑی کارپوریشنز اور کروڑ پتیوں پر لگنے والے نئے ٹیکس سے پورے کیے جائیں گے، جن کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ اس سے نو بلین ڈالر حاصل ہوں گے۔
البتہ کیٹو انسٹی ٹیوٹ جیسے کچھ اداروں کا کہنا ہے کہ یہ حساب کتاب درست نہیں ہیں۔ نئے ٹیکس نافذ کرنے کے لیے انھیں ریاستی اسمبلی اور گورنر کیتھی ہوچل کی حمایت بھی چاہیے۔
’روٹی، کپڑا اور مکان‘: نیو یارک کے پہلے مسلم میئر بننے کے خواہشمند ظہران ممدانی ڈیموکریٹک امیدوار منتخبامریکہ میں پہلی مسلم خاتون میئر جن کی ’کراچی سے خاص دلی وابستگی‘امریکی کانگریس کی تاریخ میں پہلی مسلمان خواتینگولڈا میئر: ’مشرق وسطیٰ کی صنف آہن‘ جن کی اسرائیل میں سیاسی میراث ایک جنگ نے ختم کر دی
کیتھی نے ان کی حمایت کی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ بڑھتے ہوئے انکم ٹیکس کے خلاف ہیں۔ تاہم وہ چاہتی ہیں کہ وہ ممدانی کے ساتھ کام کریں تاکہ ہر شہری کے لیے صحت کی سہولیات دستیاب ہوں جو ممدانی کے ایجنڈے کا سب سے بڑا اور مہنگا منصوبہ ہے۔ اس پر پانچ بلین ڈالر خرچہ آئے گا۔
جب ممدانیاپنے مفت بسوں کے منصوبے کو اجاگر کرنے کے لیے ایم 57 بس کے ذریعے مین ہیٹن میں سفر کر رہے تھے، اس وقت انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹرمپ کے دور میں مہنگائی کے مسائل پر ان کی توجہ کیوں درست فیصلہ ہے۔
انھوں نے کہا: ’اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سمجھیں کہ جمہوریت کی حفاظت کے لیے صرف ایک سخت انتظامیہ کے خلاف کھڑا ہونا کافی نہیں ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ جمہوریت مزدور طبقے کی بنیادی ضروریات پورا کر سکے۔ یہ وہ کام ہے جو ہم نیویارک شہر میں کرنے میں ناکام رہے ہیں۔‘
بی بی سی سے بات کرنے والے بعض نیویارکرز نے کہا کہ وہ ممدانی کو اس لیے ووٹ نہیں دیں گے کیونکہ انھیں یقین نہیں ہے کہ وہ اپنے منصوبوں کے اخراجات پورے کر پائیں گے یا نہیں اور ان کا انتظامی بھی تجربہ کم ہے۔
نیو یارک کے کاروباری حلقے کیا سوچ رہے ہیں؟
جون میں ممدانی کے ڈیموکریٹک پرائمری جیتنے کے بعد وال سٹریٹ کے رہنما زیادہ خوش نہیں تھے اور کچھ نے شہر چھوڑنے کی دھمکی بھی دی تھی۔
لیکن تب سے ایک واضح تبدیلی آئی ہے۔ اب ماحول میں خوف کم اور تعاون زیادہ نظر آ رہا ہے۔ جے پی مورگن چیس کے سی ای او جیمی ڈیمون نے کہا کہ اگر ممدانی منتخب ہو جائیں تو وہ انھیں اپنی مدد کی پیشکش کریں گے۔
ریئل سٹیٹ کے ڈویلپر جیفری گورال جو ممدانی سے مل چکے ہیں، کہتے ہیں کہ وہ ملک کے سب سے بڑے شہر کی قیادت کے لیے زیادہ تجربہ کار نہیں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ کرایہ فریز کا منصوبہ کرایہ داروں کے لیے نقصان دہ ہوگا اور امیر افراد پر لگنے والے ٹیکس زیادہ آمدنی والے لوگوں کو شہر چھوڑنے پر مجبور کریں گے۔
تاہم وہ ممدانی کی ہر بچے کے لیے چائلڈ کیئر کے منصوبے کی حمایت کرتے ہیں، جو وہ خود بھی اپنے اپ سٹیٹ کیسینو کے عملے کے لیے فراہم کرتے ہیں۔
Getty Imagesجون میں ممدانی کے ڈیموکریٹک پرائمری جیتنے کے بعد وال سٹریٹ کے رہنما زیادہ خوش نہیں تھے اور کچھ نے شہر چھوڑنے کی دھمکی بھی دی تھی۔
پرائمری کے بعد ماحول میں تبدیلی کی ایک وجہ ممدانی کی جانب سے اپنے ناقدین سے ملاقات کرنے کی کوششیں بھی ہیں۔
الیکسس بٹار ایک خود ساختہ جیولری ڈیزائنر ہیں جنھوں نے اپنا کاروبار عالمی کمپنی میں تبدیل کیا ہے۔
14 اکتوبر کو الیکسس نے ممدانی اور 40 کاروباری رہنماؤں کو اپنے 1850 کی دہائی کے بروکلن ٹاؤن ہاؤس میں مدعو کیا۔
یہ گروپ مالیات، فیشن اور آرٹ کے شعبوں کے سی ای اوز اور کاروباری مالکان پر مشتمل تھا۔ ان میں سے نصف سے زیادہ یہودی تھے اور سبھی یا تو ممدانی کے حق میں فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے یا ان کے خلاف تھے۔
اس ملاقات میں ممدانی سے کاروبار، انتظامی تجربے اور ان کے ایجنڈے کے مالی وسائل کے بارے میں سوالات کیے گئے۔
الیکسسبٹار نے بی بی سی کو بتایا: ’میرے خیال میں وہ سب کو بہت اچھے لگے۔ سب سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ بہترین انداز میں سوالات کے جواب دینے کے قابل ہیں اور بڑی محنت سے یہ جواب دیتے ہیں۔‘
پولیس سے معافی
ممدانی نے اپنے ناقدین سے تعلقات میں اس بات کا اظہار بھی کیا ہے کہ وہ اپنی پوزیشن بدلنے کے لیے تیار ہیں۔
2020 میں جب منیسوٹا میں ایک پولیس افسر نے جارج فلائیڈ نامی سیاہ فام شخص کو قتل کیا، تو ممدانی نے شہر کی پولیس کی فنڈنگ کم کرنے کا مطالبہ کیا اور نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ کو ’نسلی تعصب رکھنے والی‘ فورس قرار دیا۔ لیکن بعد میں انھوں نے معافی مانگی اور کہا کہ وہ اب ویسے نظریات نہیں رکھتے۔
جرائم و تشدد ہاورڈ وولفسن کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے، جو سابق میئر مائیکل بلومبرگ کے لیے کام کر چکے ہیں اور اب ڈیموکریٹک سٹریٹیجسٹ ہیں۔
وولفسن گذشتہ ماہ ایک ملاقات کے دوران موجود تھے جس میں میئر کے امیدوار اور بلومبرگ نے حصہ لیا، جنہوں نے پرائمری میں انہیں ہرانے کے لیے 8 ملین ڈالر خرچ کیے۔
وولفسن نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ممدانی کا فیصلہ اس بات کی بنیاد پر کریں گے کہ شہر میں پولیس کیسے کام کر رہی ہے۔
سابق میئر مائیکل بلومبرگ کے مشیر اور موجودہ ڈیموکریٹک سٹریٹیجسٹ ہاورڈ وولفسن کے لیے سب سے بڑا مسئلہ شہر میں جرائم ہیں۔ وولفسن گذشتہ ماہ ممدانی اور بلومبرگ کی ملاقات میں موجود تھے۔
بلومبرگ نے پرائمری میں مدمقابل کو ہرانے کے لیے آٹھ ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔
وولفسن نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ممدانی کو اس بات کی بنیاد پر پرکھیں گے کہ شہر میں پولیس کیسے کام کر رہی ہے۔
Reutersکچھ لوگوں کے مطابق ممدانی کا وعدہ کہ پولیس کمشنر جسیکا ٹش اپنی جگہ برقرار رہیں، اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ جرائم کے معاملے میں نرم رویہ اختیار نہیں کریں گے۔
انھوں نے کہا ’میرے خیال میں یہ اچھا ہے کہ وہ اپنے ناقدین سے رابطہ کرتے ہیں اور مصروف ہیں، لیکن میں زیادہ دلچسپی اس بات میں رکھتا ہوں کہ وہ حکومت کیسے چلائیں گے۔ شہریوں کی حفاظت دراصل کامیابی یا ناکامی کی بنیاد ہے۔‘
کچھ لوگوں کے مطابق ممدانی کا وعدہ کہ پولیس کمشنر جسیکا ٹش اپنی جگہ برقرار رہیں، اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ جرائم کے معاملے میں نرم رویہ اختیار نہیں کریں گے۔
ممدانی کہتے ہیں کہ وہ نیویارک پولیس کے موجودہ عملے کی تعداد برقرار رکھیں گے اور ایک نیا محکمہ بنائیں گے جس کا مقصد کمیونٹی سیفٹی ہو گا۔ اس میں غیر خطرناک نفسیاتی کالز پر مسلح افسروں کے بجائے ذہنی صحت کی ٹیمیں بھیجی جائیں گی۔
ایک ایسے شہر کا میئر جو غزہ کے معاملے پر منقسم ہے
ایک معاملے پر ممدانی نے اپنا مؤقف نہیں بدلا: اسرائیل کے ناقد ہیں اور ہمیشہ سے فلسطینیوں کے حقوق کے حامی رہے ہیں۔
یہ مؤقف ڈیموکریٹک پارٹی کے روایتی مؤقف سے مختلف ہے اور ایسے شہر میں جہاں اسرائیل کے باہر سب سے زیادہ یہودی آبادی رہتی ہے، یہ بات ووٹروں کے فیصلے پر اثر ڈال سکتی ہے۔
پرائمری کے دوران ممدانی نے اس وقت تنازع کھڑا کر دیا جب انھوں نے ’گلوبلائز دی انتفادہ‘ کے نعرے کی مذمت سے انکار کیا۔ تاہم جب کچھ یہودی نیویارکروں نے ان سے کہا کہ اس نعرے سے انھیں عدم تحفظ محسوس ہوتا ہے تو ممدانی نے کہا کہ وہ دوسروں کو یہ نعرہ استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
ایک خط جس پر 1100 سے زائد یہودی مذہبی رہنماؤں (ربی) نے دستخط کیے، میں ممدانی کا ذکر کرتے ہوئے ’اینٹی زایونزم‘ (یہود مخالف سیاسی رویے) کو سیاست کا حصہ بنانے کی مذمت کی گئی۔ سروے کے مطابق یہودی ووٹروں کی بڑی تعداد ممدانی اور کووومو کے درمیان تقسیم ہے۔
شہر کے مالیاتی سربراہ بریڈ لینڈر جو ممدانی کے قریبی ساتھی ہیں، نے کہا کہ ان کی طرح بہت سے یہودی نیویارکر ممدانی کے حامی ہیں۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرے ہوئے کہا ’ممدانی ایک ایسے امیدوار ہیں جو مذہب سے بالاتر ہو کر سب کے تحفظ کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔‘
BBCنیویارک میں گھروں کے کرائے ایک بہت بڑا مسئلہ ہیں۔
’مسلمز فار پراگریس‘ نامی تنظیم کی سامیہ چوہدری اور فرحانہ اسلام میئر کے امیدوار ممدانی کی انتخابی مہم میں حصہ لے رہی ہیں۔
فرحانہاسلام کا کہنا ہے کہ اگرچہ سب کو اس بات کی خوشی ہے کہ ممدانی نیویارک کے پہلے مسلمان میئر بن سکتے ہیں، لیکن ان کی کامیابی صرف ان کی شناخت پر منحصر نہیں۔
انھوں نے کہا: ’ان کی پالیسیاں خود بولتی ہیں اور یہی ان کی مقبولیت کے لیے کافی ہیں۔‘
مگر پرائمری جیتنے کے بعد ممدانی کو اسلاموفوبیا (اسلام دشمن رویے) کا زیادہ سامنا کرنا پڑا۔ اب ان کے ساتھ پولیس سکیورٹی موجود ہے اور پچھلے مہینے ٹیکساس کے ایک شخص کو دہشت گردی کی دھمکیاں دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اس شخص نے اپنے ایک پیغام میں کہا تھا کہ ’مسلمانوں کی یہاں کوئی جگہ نہیں ہے‘۔
بعد ازاں جب ایک ریڈیو شو میں اینڈریو کووومو میزبان کی اس بات پر مسکراتے نظر آئے کہ شاید ممدانی ’نو ستمبر جیسے ایک اور حملے‘ پر خوش ہوں گے، تو اس کے بعد ممدانی نے اسلاموفوبیا پر ایک خطاب کرنے کا فیصلہ کیا۔
اپنی جذباتی تقریر میں انھوں نے کہا:
"میں نے سوچا تھا کہ اگر میں نسلی نفرت پر مبنی حملوں کو نظر انداز کر دوں اور صرف اپنے پیغام پر توجہ رکھوں تو لوگ مجھے میرے مذہب سے بڑھ کر دیکھیں گے۔‘
’میں غلط تھا۔ چاہے جتنی بھی کوشش کر لوں، نفرت کرنے والے باز نہیں آتے۔‘
پارٹی کا مستقبل
جو چیز ممدانی کو لبرل نیویارک میں کامیابی دلا سکتی ہے وہ شاید قومی سطح پر کامیابی کا فارمولا نہ بن سکے۔
کانگریس میں موجود ڈیموکریٹس اس بات پر فکرمند ہیں کہ ان کی مقبولیت پارٹی کے اندر موجود اعتدال پسند اور ترقی پسند دھڑوں کے درمیان کشیدگی کو مزید بڑھا سکتی ہے۔
سینیٹ کے اقلیتی رہنما چک شومر نے ابھی تک ممدانی کی حمایت نہیں کی جبکہ ہاؤس کے اقلیتی رہنما اور خود نیویارک سے تعلق رکھنے والے حاکم جیفریز نے بھی اُنھیں صرف ابتدائی ووٹنگ شروع ہونے سے چند گھنٹے پہلے حمایت دی۔
ڈیموکریٹک ماہرین کا کہنا ہے کہ ممدانی پارٹی کے لیے ایک مسئلہ اس لیے بن سکتے ہیں کیونکہ ٹرمپ اور ریپبلکن پہلے ہی ڈیموکریٹس کو، چاہے وہ کتنے ہی معتدل کیوں نہ ہوں، ’سوشلسٹ‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں اور یہ حربہ 2024 کے انتخابات میں کیوبا اور وینیزویلا سے تعلق رکھنے والے ووٹروں پر کسی حد تک اثرانداز بھی ہوا تھا۔
Reutersممدانی، برنی سینڈرز اور الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز کے ساتھ اکثر سٹیج شیئر کر چکے ہیں۔
نیوجرسی کے معتدل ڈیموکریٹ رکن جوش گوٹہائمر نے واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں ممدانی کے خیالات ’انتہا پسندانہ‘ ہیں جو ڈیموکریٹک پارٹی کے نظریات سے میل نہیں کھاتے اور انھیں خدشہ ہے کہ ریپبلکن پارٹی انھیں ایک ’خوف کی علامت‘ کے طور پر استعمال کرے گی۔
اپر ایسٹ سائیڈ میں ایک انتخابی مہم کے دوران ممدانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ مخالفت سے نہیں گھبراتے۔
انھوں نے کہا ’مجھے معلوم ہے کہ مخالفت ضرور ہو گی، لیکن میرے پیچھے جو عوامی تحریک ہے، وہ اس سب پر قابو پا لے گی۔‘
’روٹی، کپڑا اور مکان‘: نیو یارک کے پہلے مسلم میئر بننے کے خواہشمند ظہران ممدانی ڈیموکریٹک امیدوار منتخبامریکہ میں پہلی مسلم خاتون میئر جن کی ’کراچی سے خاص دلی وابستگی‘امریکی کانگریس کی تاریخ میں پہلی مسلمان خواتینگولڈا میئر: ’مشرق وسطیٰ کی صنف آہن‘ جن کی اسرائیل میں سیاسی میراث ایک جنگ نے ختم کر دیاقرا خالد کا بہاولپور سے کینیڈین پارلیمان تک کا سفرٹرمپ کا تارکین وطن کو گوانتانامو بھیجنے کا اعلان اور امریکہ کے وہ شہر جو ’تارکین وطن کی پناہ گاہیں‘ ہیں