رشوت، بدعنوانی اور بھتہ وصولی کے الزامات: سائبر کرائم سے نمٹنے کا پاکستانی ادارہ کن مشکلات کا شکار ہے؟

بی بی سی اردو  |  Nov 13, 2025

Getty Images

پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے رواں ہفتے صوبہ پنجاب میں نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کے 13 افسران کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔

اس مقدمے میں کہا گیا ہے کہ اِن افسران پر راولپنڈی میں چینی شہریوں کی جانب سے چلائے جانے والے 15 غیر قانونی کال سینٹرز سے کروڑوں روپے کی رشوت وصول کرنے کا الزام ہے۔

اس حوالے سے درج ہونے والی ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ملزمان غیر قانونی کال سینٹرز پر چھاپوں کے بعد مختلف مقامات پر جا کر ڈیلز کرتے اور بھاری رقوم وصول کرتے تھے۔

صرف ڈیرھ سال قبل قائم ہونے والے ادارے ’این سی سی آئی اے‘ کے کئی افسران اور اہلکاروں پر گذشتہ چند ہفتوں کے دوران کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام لگا ہے، جس کے بعد اس ادارے کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

دوسری جانب ترجمان این سی سی آئی اے نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ادارے میں کسی قسم کی کرپشن برداشت نہیں کی جائے گی اور جو لوگ ایسے غیر قانونی عمل میں ملوث پائے جائیں گے، اُن کے خلاف کاروائی بھی ہو گی۔‘

اس سلسلے کا آغاز اُس وقت ہوا جب چند ماہ قبل وی لاگر سعد الرحمان عرف ڈکی بھائی کو این سی سی آئی اے کے لاہور آفس کی جانب سے جوئے کی ایپس کی مبینہ تشہیر کے الزام پر گرفتار کیا گیا۔

اس معاملے پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاہور چوہدری سرفراز نے بتایا تھا کہ ’سعد سمیت جوئے کی ایپس کی تشہیر میں ملوث تمام وی لاگرز کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے اور اس دائرے کو مزید بڑھایا جائے گا۔‘

مگر کچھ ہی عرصے بعد ڈکی بھائی کی اہلیہ عروب جتوئی نے این سی سی آئی کے افسران پر 90 لاکھ روپے رشوت وصول کرنے کا الزام لگایا، جس کے بعد اس ادارے کے چھ افسران کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔

جن ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا اُن میں این سی سی آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز چوہدری سمیتڈپٹی ڈائریکٹرز، اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور انسپیکٹرز شامل تھے۔

ڈکی بھائی کے اہلخانہ سے مبینہ رشوت وصول کرنے سے متعلق درج مقدمے میں یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ ملزمان ایک نیٹ ورک کے طور پر کام کرتے ہوئے مختلف کال سینٹرز اور آن لائن فراڈ کے مقدمات میں ملوث افراد سے رقم وصول کر کے نہ صرف پیسے آپس میں تقسیم کرتے تھے بلکہ اس کا کچھ حصہ اپنے افسران بالا کو بھی بھیجتے تھے۔

اسلام آباد اور پنجاب میں گرفتاریاں

اس کے بعد شروع ہونے والے سلسلے میں دارالحکومت اسلام آباد اور پنجاب کے مختلف شہروں میں این سی سی آئی اے کے افسران اور اہلکاروں کے خلاف مقدمے درج ہوئے ہیں جو کہ سائبر کرائم سے متعلق کئی اہم کیسز کی تحقیقات میں شامل تھے۔

رواں ہفتے راولپنڈی میں درج ہونے والے مقدمے کے متن میں تفصیلات دیتے ہوئے این سی سی آئی اے نے کہا تھا کہ راولپنڈی میں اس کے افسران اور اہلکار مبینہ طور پر غیر قانونی کام کر رہے تھے اور فراڈ کے ذریعے عوام سے دھوکہ دہی سے بھاری رقم بٹور رہے تھے۔

یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ چینی شہریوں کے زیرِ انتظام چلنے والے 15 کال سینٹرز سے بھی رقوم حاصل کی گئیں جہاں پاکستانی ملازمین کام کرتے تھے۔

این سی سی آئی اے کے افسران و اہلکاروں کے خلاف مقدمات کے اندراج کے بعد ملتان اور لودھراں کے شہریوں نے بھی چند افسران کے خلاف ایف آئی اے کو درخواستیں دیتے ہوئے الزامات عائد کیے کہ اُن سے ’نقد رقم، سونا، زیورات، گاڑی اور گھریلو سامان وغیرہ رشوت کے طور پر وصول کیا گیا۔‘

ڈکی بھائی کے اہلخانہ اور آن لائن فراڈ میں ملوث افراد سے رشوت لینے کے الزامات: این سی سی آئی اے کے زیرِ حراست اہلکاروں سے کروڑوں روپے برآمد کرنے کا دعویٰفیصل آباد میں 48 چینی شہریوں سمیت 149 افراد گرفتار: مبینہ جعلسازی جس میں فری لانسنگ کی جعلی کمپنی قائم کی گئی’ہارٹ سینڈر‘: پاکستانی ادارے امریکی شہریوں کو لوٹنے والے ہیکنگ نیٹ ورک کے ملتان میں موجود اراکین تک کیسے پہنچے؟توہینِ مذہب کے مقدمات اور ایف آئی اے پر عدالت کا اعتراض: ’ادارے خود ہی قانون میں درج ضابطہ کار کا احترام نہیں کرتے‘

راولپنڈی میں درج ہونے والے مقدمے میں افسران اور اہلکاروں کی جانب سے وصول کی جانے والی مبینہ رقوم کی تفصیلات بھی درج کی گئی ہیں اور بتایا گیا ہے کہ یہ لوگ ’ماہانہ کروڑوں روپے رشوتاور بھتہ لیتے تھے۔‘ اور یہ رقم ’آپس میں تقسیم کی جاتی تھی۔‘

مقدمے کے متن میں دعویٰ کیا گیا کہ ایک سب انسپیکٹر نے ’نئے کال سینٹر کے لیے آٹھ لاکھ روپے ماہانہ طے کیے‘ جبکہ اسلام آباد کے سیکٹر ایف الیون میں ایک کال سینٹر پر چھاپے کے بعد ’4 کروڑ روپے کی ڈیل فائنل کی گئی۔‘

اس کال سینٹر پر چھاپے سے متعلق بتایا گیا تھا کہ اس میں 14چینی شہریوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔

مقدمے میں دعویٰ کیا گیا کہ گرفتار کیے گئے ایک شخص کی بیوی سے بازیابی کے لیے 80 لاکھ روپے وصول کیے

ایک ایڈیشنل ڈائریکٹر کے خلاف درج مقدمے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی ٹیم نے ستمبر 2024 سے اپریل 2025 تک ’12 کروڑ روپے وصول کیے۔‘

'این سی سی آئی اے میں افسران ایف آئی اے ہی سے لائے گئے تھے‘

این سی سی آئی اے نامی ادارہ گذشتہ سال پارلیمان کے ایک ایکٹ کے ذریعے قائم ہوا تھا اور سائبر کرائم سے متعلق ایف آئی اے کے اختیارات اس ادارے کو منتقل کیے گئے تھے۔

اس ادارے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایف آئی اے کے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل عمار جعفری نے کہا کہ این سی سی اے میں وہ لوگ بھی ٹرانسفر کیے گئے جو ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ میں کام کرتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس ادارے میں شامل کیے گئے افسران و اہلکار ٹیکنالوجی کے ماہر ہیں۔ ’پچھلے کچھ دنوں میں ان لوگوں کے کرپشن کے سکینڈل سامنے آئے ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں: ایک یہ کہ ادارہ سیاست کا شکار ہوا ہے اور دوسرا یہاں واقعی ہی کرپشن بھی موجود ہے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ جن افسران اور اہلکاروں پر الزامات لگے ہیں وہ ابھی ثابت ہونا باقی ہیں۔

لیکن ان کے لیے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ’ان لوگوں نے میرے ساتھ کام کیا۔ میں نے ان (میں سے کئی) کو بھرتی کیا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ لوگ کوئی نئے بھرتی ہوئے ہیں۔ یہ تمام لوگ کئی سالوں سے ایف آئی اے میں کام کرتے رہے ہیں۔‘

’آپ نے دیکھا ہو گا کہ پچھلے ڈیڑھ سال میں تو ایسا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا اور نہ ہی ایسا کوئی معاملہ اس ادارے سے متعلق سامنے آیا ہے۔ لیکن ایک دم سے ہی مختلف شہروں میں کیسز سامنے آنے لگے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس کے پیچھے 'کوئی تو وجہ ہو گی۔ یہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ اور ادارہ اندرونی سیاست کا بھی شکار ہوا ہو اور جو چیزیں کم پیمانے پر ہیں انھیں بڑے پیمانے پر دیکھا جا رہا ہو۔‘

این سی سی آئی اے کا موقف

ترجمان این سی سی آئی اے نے اپنے افسران کے خلاف کرپشن کیسز اور گرفتاریوں کے بارے میں بتایا کہ ’ہمارے نئے ڈی جی کی جانب سے ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ ادارے میں کسی قسم کی کرپشن برداشت نہیں کی جائے گی اور جو لوگ ایسے غیر قانونی عمل میں ملوث پائے جائیں گے تو ان کے خلاف کارروائی بھی ہو گی۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ آنے والے دنوں میں ان کاروائیوں میں ’مزید تیزی آئے گی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جہاں تک بات مقدمات کے اندراج کی ہے تو وہ ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل کی صوابدیدہے۔‘

اتنے کم عرصے میں بڑے پیمانے پر کرپشن سکنڈل سامنے آنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’این سی سی آئی اے یا کوئی بھی دوسرا ادارہ کرپٹ نہیں ہوتا ہے۔ وہاں کام کرنے والے چند لوگ کرپٹ ہوتے ہیں اور ایسے ہی لوگوں کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے، جنھوں نے ادارے کی ساکھ کو خراب کیا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ این سی سی آئی اے ’مکمل طور پر خود مختار ادارہ اپریل 2025 میں ہوا ہے اور ہمارا احتساب سیل دو ماہ قبل ہی ترتیب دیا گیا ہے۔‘

ملتان اور لودھراں میں شہریوں کے کیسز میں شنوائی نہ ہونے والی درخواست پر بات کرتے ہوئے انھوں نے تسلیم کیا کہ ’یہ سچ ہے کہ پہلے چیزیں سست روی کا شکار ہوئی تھیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ان درخواستوں کا نوٹس لیتے ہوئے اب 10 دن کے اندر اندر رپورٹ طلب کی گئی ہے۔‘

اُن کا موقف ہے کہ ’نہ تو ادارہ کسی کرپٹ افسر کا دفاع کرے گا اور نہ ہی معاملات میں سستی برداشت کی جائے گی۔‘

ڈکی بھائی کے اہلخانہ اور آن لائن فراڈ میں ملوث افراد سے رشوت لینے کے الزامات: این سی سی آئی اے کے زیرِ حراست اہلکاروں سے کروڑوں روپے برآمد کرنے کا دعویٰیوٹیوبر رجب بٹ کے خلاف مقدمہ، 295 نامی پرفیوم اور سدھو موسے والا کا بھی ذکرفیصل آباد میں 48 چینی شہریوں سمیت 149 افراد گرفتار: مبینہ جعلسازی جس میں فری لانسنگ کی جعلی کمپنی قائم کی گئی’ہارٹ سینڈر‘: پاکستانی ادارے امریکی شہریوں کو لوٹنے والے ہیکنگ نیٹ ورک کے ملتان میں موجود اراکین تک کیسے پہنچے؟توہینِ مذہب کے مقدمات اور ایف آئی اے پر عدالت کا اعتراض: ’ادارے خود ہی قانون میں درج ضابطہ کار کا احترام نہیں کرتے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More