پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) نے دو روز قبل اچانک ’لاپتہ‘ہونے والے دو عہدے داروں کی بازیابی کے لیے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے امن جرگے میں شرکت کرکے واپس جانے والے پی ٹی ایم کے رہنما بدھ سے ’لاپتہ‘ ہیں۔ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ اس بارے میں رابطے کیے جا رہے ہیں۔
’لاپتہ‘ عہدیدار حنیف پشتین کے بھائی ہدایت اللہ نے بتایا کہ ’گھر میں سب پریشان ہیں اور اب تک کچھ معلوم نہیں ہے کہ انھیں کون لے گیا ہے اور کہاں لے جایا گیا ہے، بس اندازے ہی لگا سکتے ہیں۔‘
اُنھوں نے بتایا کہ تنظیم کی جانب سے جمعے کو پشاور ہائی کورٹ میں درخواست جمع کرا دی گئی ہے۔ ہدایت اللہ کے مطابق گزشتہ روز وزیرِ اعلی خیبر پختونخوا کے بیان کے بعد انھیں یہ توقع تھی کہ ان کے بھائی سمیت تنظیم کے دیگر ارکان کو جلد منظر عامپر لایا جائے گا لیکن اب تک کچھ معلوم نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں منعقد ہونے والے جرگے میں صوبے کیتمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور قائدین نے شرکت کی تھی۔ لیکن اس جرگے میں شریک پی ٹی ایم کے نمائندوں کی گمشدگی پر صوبائی حکومت پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
اس بارے میں پی ٹی ایم کے سربراہمنظور پشتین نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے جرگے میں شریک ہمارے وفد کے ارکان تاحال واپس نہیں آئے ہیں اور ان سے رابطہ بھی نہیں ہو رہا ہے۔
’ہماری پشتون روایات توڑی گئی ہیں‘
وزیر اعلی خیبر پختونخوا سہیل آفریدی نے پی ٹی ایم وفد کے اغوا کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا ہے کہ ’جو بندے اغوا ہوئے ہیں وہجرگے کے مہمان تھےاور یہکامہمارے قبائلی اور پشتون روایات کے خلاف کیا گیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جس نے بھی یہ کیا ہے اس نے ہماری پشتون روایات توڑی ہیں اورجس نے بھی یہ کیا ہے وہ ہماری پشتون قوم کے امن کا دشمن ہے جس نے بھی کیا ہے وہ نہیں چاہتا کہ خیبر پختونخوا میں امن آئے۔‘
وزیر اعلی نے کہا ہے کہ جرگہ ہماری روایت ہے جرگے میں لوگ آنے سے لے کر بیٹھنے اور واپس گھر پہنچنے تک جرگے کے مہمان ہوتے ہیں۔
انھوں نے کہا ہے کہ ’وہ کور کمانڈر سے بھی کہتے ہیں وہ دیکھیں جس نے بھی یہ کیا ہے اس کا ردِعمل سخت آئے گا۔ اس میں صوبائی اسمبلیکے سپیکراور خیبر پختونخوا حکومت کے مہمان تھے تو اس میں وہ مدعی بنیں گے۔‘
پی ٹی ایم کے رہنما فدا وزیر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بدھ کو ان کی تنظیم کے ارکان پی ٹی آئی کے جرگے میں شرکت کے لیے گئے تھے جن میں نور اللہ اور حنیف پشتون شامل تھے۔ اس کے علاوہ ان کے ساتھ پانچ اور کارکن بھی تھے اور یہ لوگ جرگے میں شرکت کے بعد واپس آ رہے تھے تو پشاور میں گورا قبرستان کے قریب سے نامعلوم افراد انھیں ساتھ لے گئے ہیں۔‘
اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ’ سوشل میڈیا پر ایک آڈیو بھی سامنے آئی ہے جس میں ایک شخص بتا رہا ہے کہ ان لوگوں کو دیگر گاڑیوں میں سوار لوگ اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔‘
نور اللہ اور حنیف پشتین کے ساتھ ان کے ڈارئیور اور تنظیم کے دیگر اراکین بھی اب تک لاپتہ ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’جب یہ لوگ اسمبلی سے روانہ ہو رہے تھے تو انھیں اطلاع دی گئی تھی کہ لیکن آدھا گھنٹہ گزرنے کے بعد بھی وہ نہیں پہنچے تو ان کے موبائل فون پر رابطے کیے لیکن ان میں سے کسی کا نمبر بھی نہیں لگ رہا تھا۔‘
صوبائی حکومت کے ترجمان شفیع جان نے اس بارے میں بی بی سی کو مختصر پیغام میں بتایا ہے کہ انھوں نے پولیس سے رابطہ کیا ہے لیکن پولیس نے اس بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا ہے اور اس وقت حکومت ان کی بازیابی کے لیے کوششیں کر رہی ہے۔
اس بارے میں پی ٹی آئی کے رہنما عرفان سلیم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’صوبائی حکومت پی ٹی ایم کی وفد کی بازیابی کے لیے کوششیں کر رہی ہے۔‘
انھوں نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ پی ٹی ایم کے اراکین کو تقریر کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ ان کے ایک رہنما گل پسند نے تقریر کی ہے اور ان کی تجویز سفارشات میں شامل کی گئی ہیں۔
قومی ترانے کے احترام پر کھڑے نہ ہونے اور تقریر کی اجازت نہ ملنے پر اعتراض
بدھ کو ہونے والے جرگے میں قومی ترانے کے وقت جب سب شریک لوگ اپنی نشستوں سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے تھے تو اس وقت پی ٹی ایم سے تعلق رکھنے والے دونوں رہنما بیٹھے ہوئے تھے جس پر سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی۔
پی ٹی ایم کے اراکین نے احتجاجاً اس جرگے سے واک آؤٹ کیا تھا۔
احتجاج کے بعد اسمبلی کے احاطے میں موجود صحافیوں نے ان سے بات کی اور پوچھا کہ انھوں نے کیوں احتجاج کیا ہے تو نوراللہ نے بتایا تھا کہ انھیں باقاعدہ شرکت کی دعوت دی گئی تھی لیکن انھیں تقریر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی جو مناسب نہیں تھا۔
نوراللہ نے صحافیوں کو بتایا کہ اس بارے میں انھوں نے منتظمین سے کہا لیکن اجازت نہیں دی گئی۔
ان سے جب پوچھا کہ ترانے کے دوران کھڑے نہ ہونے پر کیا کہیں گے تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے علاقوں میں ظلم ہو رہا ہے لوگ مر رہے ہیں اور ’ہم احتجاج کر رہے تھے، ہم نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔‘
اس بارے میں پی ٹی ایم کے رہنما خیر الامین سے رابطہ کیا تو ان کا کہناتھا کہ ’ترانے کے دوران انھیں تعظیم کے طور پر کھڑے ہونا چاہیے تھا کیونکہ یہ ہمارا ماننا ہے کہ غیر مسلموں کے پاس بھی جاتے ہیں یا کسی غیر ملک میں جاتے ہیں تو ان کی روایات کو بھی ان کی تعظیم سمجھتے ہیں۔‘
خیر الامین کو کہنا تھا کہ وہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں سے رابطے میں ہیں اور انھیں یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ پی ٹی ایم کے لاپتہ وفد کو جلد سامنے لایا جائے گا۔
پشتون قومی جرگہ یا ’ریاست مخالف سرگرمیاں‘: پی ٹی ایم پر حکومتی پابندی کی وجوہات کیا ہیں؟پشتون قومی جرگہ: ’مفت بجلی اور فوج کی بیدخلی‘ سمیت دیگر مطالبات کس حد تک قابلِ عمل ہیں؟پشتون تحفط موومنٹ: حکومت نے کالعدم تنظیم کو کیوں اور کیسے جرگہ منعقد کرنے کی اجازت دی؟منظور پشتین کون ہیں؟سوشل میڈیا پر ردِعمل
پشتون تحفظ موومنٹ کے حامی افراد کی جانب سے سوشل میڈیا پوسٹس میں نمائندوں کی بحفاظت واپسی سے متعلق پوسٹس کی جا رہی ہیں۔
بیشتر میں امید کی گئی ہے کہ پی ٹی ایم کے نمائندے بحفاظت لوٹ آئیں گے۔
سکندر پشتین نامی صارف نے لکھا کہ ’پی ٹی آئی جرگہ میں پی ٹی ایم کے مندوبین کا تاحال پتہ نہیں چل سکا۔ اُنھیں 16 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی کسی عدالت میں پیش نہیں کیا ہے۔ صوبائی حکومت کی خاموشی شرمناک ہے۔‘
زبیر وزیر نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی ایم کے ارکان حنیف پشتین اور نور اللہ ترین کو پشاور امن جرگہ میں تقریر کرنے کا وقت نہیں دیا گیا اور انھوں نے احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔ بعد میں دونوں مبینہ طور پر لاپتہ ہوگئے۔ اس طرح کی گرفتاریاں امن کی کوششوں کو کمزور کرتی ہیں۔‘
زاکم خان وزیر نامی صارف نے وزیر اعلی خیبر پختونخوا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'آپ کی رہنمائی میں کیے گئے اس طرح کی کارروائیاں نہ تو پشتون ولی کے مطابق تھیں اور نہ ہی ہماری روایات کے مطابق تھیں۔ کسی مہمان کی تذلیل کرنا اور پھر اسے ریاستی اختیار میں رکھنا پشتون ثقافت اور رسم و رواج کے خلاف ہے۔‘
Getty Imagesامن جرگہ کتنا کامیاب یا ناکام؟
خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ان تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو دعوت دی گئی ہے جن سے جماعت کی سطح پر سخت اختلاف رہے ہیں یا ایسے رہنما بھی شامل ہیں جو پی ٹی آئی چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں پاکستان مسلم لیگ ن، عوامی نینشل پارٹی اور دیگر جماعتیں شامل تھیں۔
نمایاں رہنماؤں میں گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی، پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر عباد اللہ خان، پشتونخوا قومی پارٹی کے آفتاب احمد خان شیرپاؤ، عوامی نینشل پارٹی کے میاں افتخار حسین، جمعیت علماء اسلام کےمولانا عطاءالرحمان، جماعت اسلامی کے سابق امیر سراج الحق، نیشنل ڈیمو کریٹک موومنٹ کے محسن داوڑ اور دیگر متعدد رہنماؤں نے شرکت کی۔
ماضی میں اگر حکومت یا اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنسز بلائی گئی ہیں تو اس میں یا تو اپوزیشن کی تمام جماعتیں شریک نہیں ہوئیں اور یا خود پی ٹی آئی نے ایسے جرگوں یا کانفرنسز میں شرکت نہیں کی۔
اس مرتبہ پی ٹی آئی کے اہم قائدین ہر جماعت کے قائدین سے خود ملے ہیں اور انھیں دعوت دی۔ اس کے علاوہ وکلا کو بھی دعوت دی گئی ہے۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار لحاظ علی نے بی بی سی کو بتایا کہ پی ٹی آئینے یہ جرگہ منعقد کرکے ایک نیا باب رقم کیا ہے کیونکہ اب تک پی ٹی آئی کی سیاست دیگر سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے والی نہیں تھی بلکہ پی ٹی آئی سولو فلائٹ ہی کرتی رہی ہے۔
اس امن جرگے کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس کے پندرہ نکات ہیں جس پر 21جرگہ اراکین کے دستخط موجود ہیں۔
صوبائی حکومت، اسمبلی صوبائی ایکشن پلان مرتب کرے۔ پاکستان اور افغان کے تمام تاریخی تجارتی راستوں کو فی الفور کھول دیا جائے۔ پاک افغان خارجہ پالیسی بنانے میں وفاق صوبائی حکومت سے مشاورت کرے،سفارتی کاری کو ترجیح دی جائے۔ امن جرگے کی تجویز ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کے مابین تناؤ کو کم کیا جائے۔ مشترکہ مفاد کونسل کا اجلاس آئینی مدت کے مطابق بلایا جائے۔ دہشت گردی کے خاتمے کےلیے صوبائی اسمبلی کو اعتماد میں لیا جائے۔ امن وامان سے متعلق صوبائی اسمبلی کی قرار دادوں پر فوری عملدآمد کیا جائے۔ پولیس اور سی ٹی ڈی داخلی سلامتی کی قیادت کری گے۔ صوبے میں امن و امان کے قیام کے لیے اقدامات کیے جائیں،پولیس اور سی ٹی ڈی کو مضبوط کیا جائے۔ غیر قانونی محصولات، بھتہ خوری کے خاتمے کےلیے مربوط پالیسی بنائی جائے۔ خیبر پختونخوا بالخصوص شورش زدہ علاقوں میں معدنیات کی غیر قانونی نکاسی کا خاتمہ کیا جائے۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کو سکیورٹی اداروں کی کارروائیاں اور قانونی بنیادوں کی ان کیمرہ بریفننگ دی جائے۔ صوبائی سطح پر امن کے لیے فورمز قائم کیے جائیں جن میں غیر سرکاری ارکان شامل ہوں۔ شہری سطح پر پولیس، کنٹونمٹ اور بلدیاتی اداروں کے مابین ہم آہنگی کےلیے سیلز قائم کیے جائیں، مذکورہ سیلز چیک پوسٹوں کے خاتمے کے لیے مقررہ وقت پر منصوبے قائم کیے جائیں۔ مقامی حکومتوں کے استحکام اور مالی تحفظ کےلیے ترامیم کی جائیں۔ نیشنل فنانس کمیشن کو صوبائی فنانس کے ساتھ منسلک کیا جائے، وفاق کے ذمے صوبے کی آئینی مالی حقوق کی مد میں رقم دی جائے۔ آرٹیکل 151 بین الصوبائی تجارت پر عملداری کی جائے تاکہ کے پی کو گندم کی ترسیل ہوسکے۔
یہ ایسی سفارشات تھیں جو متفقہ طور پر منظور کی گئیں اور ان پر عمل درآمد کے لیے کوششیں کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
Getty Imagesامن جرگے کا مطالبہ ہے کہ پاکستان افغان کے تمام تاریخی تجارتی راستوں کو فی الفور کھول دیا جائے
اس بارے میں نینشل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ سابق رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’صوبے کے مسائل سب کو معلوم ہیں اور ان پر بات چیت کی جاتی ہے اور جس اجلاس میں مختلف خیالات اور نظریے کے لوگ موجود ہوں تو پھر ان کی منشا سے بات چیت کی جاتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس میں کوئی مذاکرات کی بات کر رہا تھا تو کسی کی رائے مختلف تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بات مختلف ہے کہ یہ پہلی مرتبہ صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلی موجود تھی اور اس کے علاوہ خیبر پختونخوا کی تمام سیاسی قیادت موجود تھی اور سب نے اپنی رائے دی ہے۔‘
سینیئر صحافی لحاظ علی نے اس بارے میں کہا ہے کہ اگرچے ان بیشتر سفارشات ایسی ہیں جو اس سے پہلے بھی مختلف فورمز پر پیش کی گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس میں پی ٹی آئی کی بڑی کامیابی تو یہ ہے کہ امن و امان کی صورتحال پر تمام جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لائی ہے۔‘
لحاظ علی کے مطابق ’ایک قرار داد یہ ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے جو قرار دادیں پاس کی گئی ہیں ان پر عمل درآمد ہوگا اور اس میں اشارہ ایکشن ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشن کی طرف ہے صوبائی حکومت چونکہ اس وقت فوج کے پاس اختیارات ہیں اس لیے پی ٹی آئی چونکہاس قانون کے خلاف ہے تو اس میں تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔‘
’اس کے علاوہ صوبے کے اندرونی سیکیورٹی کے مسائل میں پولیس اور سی ٹی ڈی کو بھی ساتھ شامل کیا جائے گا چونکہ اس وقت سکیورٹی کی کارروائیوں میں پولیس اور سی ٹی ڈی کا کردار برائے نام ہوتا ہے جس وجہ سے بڑی کارروائیوں میں صوبائی حکومت کو علم میں بھی نہیں ہوتا اور ذمہ داری صوبائی حکومت پر آجاتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کی مثال تیراہ میں کارروائی تھی جس پر صوبائی حکومت نے پھر ایک ایک کروڑ روپے ادا کیے تھے۔‘
یہاں افغانستان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بھی قرار دادیں پاس کی گئی ہیں جس میں مذاکراتکا زکر ہے اور کہا گیا ہے کہ کہ ان مذاکرات میں صوبائی حکومت کو بھی شامل کیا جائے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ ان سفارشات میں دیگر نکات ایسے ہیں جو پہلے بھی کیے گئے ہیں لیکن ایک اہم نقطہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ وفاق اور صوبے کے درمیان پائی جانے والی تناؤ کی کیفیت کو کم کیا جائے۔
منظور پشتین کون ہیں؟پشتون قومی جرگہ: ’مفت بجلی اور فوج کی بیدخلی‘ سمیت دیگر مطالبات کس حد تک قابلِ عمل ہیں؟پشتون تحفط موومنٹ: حکومت نے کالعدم تنظیم کو کیوں اور کیسے جرگہ منعقد کرنے کی اجازت دی؟پشتون قومی جرگہ یا ’ریاست مخالف سرگرمیاں‘: پی ٹی ایم پر حکومتی پابندی کی وجوہات کیا ہیں؟پی ٹی ایم: ’آزادی اظہارِ رائے لامحدود نہیں ہے‘