دبئی ایئر شو میں انڈین لڑاکا طیارے کی تباہی: ’550 کروڑ کے تیجس‘ کی خصوصیات کیا ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Nov 21, 2025

AFP via Getty Imagesتیجس طیارے دبئی میں جاری ایئر شو میں شریک ہیں

دبئی میں جاری ایئر شو کے دوران انڈین فضائیہ کا ایک تیجس لڑاکا طیارہ کرتب دکھاتے ہوئے گر کر تباہ ہو گیا ہے۔

انڈین ایئر فورس نے تصدیق کی ہے کہ اس حادثے میں طیارے کا پائلٹ بھی ہلاک ہو گیا ہے۔

یہ حادثہ دبئی ایئر شو کے آخری روز جمعے کو مقامی وقت کے مطابق دوپہر دو بج کر 10 منٹ پر پیش آیا، جب تیجس طیارہ ایک فضائی مظاہرے میں شریک تھا۔

انڈین ایئر فورس نے اس حادثے کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔

فضائیہ کی جانب سے ایکس پر جاری کیے گئے بیان میں حادثے میں ہلاک ہونے والے پائلٹ کے اہلخانہ سےہمدردی کا اظہار کیا گیا ہے۔

انڈین ایئر فورس نے 17 سے 21 نومبر تک دبئی میں ہونے والے ایئر شو کے دوران لڑاکا طیارے تیجس نمائش کے لیے رکھے تھے۔

چند روز سے سوشل میڈیا پر یہ قیاس آرائیاں بھی تھیں کہ ایئر شو میں رکھے گئے اس لڑاکا طیارے کے فیول ٹینکسے تیل کا اخراج ہوتا رہا لیکن انڈین حکومت کی جانب سے فیک نیوز کے تدارک کے لیے بنائے گئے اکاونٹ پی آئی بی فیکٹ چیک نے ان کی تردید کی تھی۔

پی آئی بی فیکٹ چیک نے ایکس پر لکھا تھا کہ یہ معمول کا عمل تھا جس میں طیارے کے انوائرمینٹل کنٹرول سسٹم اور آن بورڈ آکسیجن جنریٹنگ سسٹم سے آلودہ پانی کا نکالا گیا۔

انڈین ایئر فورس کے حوالے کیے جانے کے بعد تیجس کو پیش آنے والا یہ دوسرا حادثہ ہے۔ اس سے قبل مارچ 2024 میں انڈیا کی مغربی ریاست راجستھان میں بھی ایک تیجس طیارہ گر کر تباہ ہوا تھا۔

انڈیا کے لڑاکا تیجس طیاروں کی خصوصیات کیا ہیں؟

تیجس سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنی 'شعلہ' یا 'چمک' ہیں۔ اس طیارے کو سنہ 2016 میں انڈیا کے فضائی بیڑے میں طویل انتظار کے بعد شامل کیا گیا تھا جس کا مقصد فضائیہ کو جدید خطوط پر استوار کرنا تھا۔

'تیجس' انڈیا کا پہلا مکمل طور پر دیسی ساختہ لڑاکا طیارہ ہے جو سنگل انجن ہے اور جس میں لگائے گئے پچاس فیصد سے زیادہ حصے انڈیا میں تیار کیے جاتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق اس طیارے میں مقامی سطح پر تیار کیا گیا ریڈار نصب ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ یہ طیارہ وزن میں ہلکا ہے اور اس کی انجن پاور بھی اچھی ہے۔ نیز یہ کہ یہ ایک کثیر المقاصد لڑاکا طیارہ ہے جو آٹھ سے نو ٹن وزن لے جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ 52 ہزار فٹ کی بلندی پر بھی یہ طیارہ آواز کی رفتار سے 1.6 سے 1.8 گنا تیزی سے سفر کرتا ہے۔

اس سال ستمبر میں انڈین وزارتِ دفاع نے انڈین ایروناٹکس لمیٹڈ کے ساتھ 97تیجس طیاروں کی خریداری کا معاہدہ کیا تھا، جن کی 2027 میں ترسیل شروع ہونے کی اُمید ہے۔

مگ 21 لڑاکا طیاروں کے حادثات اور ’اُڑتے تابوت‘ کا خطاب

واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب انڈین فضائیہ کے کسی لڑاکا طیارے کو حادثہ پیش آیا ہو۔ اس سے قبل انڈین ایئر فورس کے مگ 21 طیاروں کو پیش آنے والے حادثات کی وجہ سے ’اُڑتے تابوت‘ کا بھی خطاب دیا جاتا تھا۔

مگ 21 انڈین فضائیہ میں پہلی بار 1963 میں شامل کیے گئے تھے۔ اس وقت سے مختلف مرحلوں میں انڈیا نے الگ الگ طرح کے 700 سے زیادہ مگ 21 جنگی جہاز خریدے۔

ان جہازوں کو 2022 میں ریٹائر کرنے کا منصوبہ تھا لیکن ملک میں تیار کیے گئے تیجس جہاز کی وقت پر ڈیلیوری نہ ہونے کے سبب اسے فضائیہ سے ہٹانے کے منصوبے کو التوا میں رکھا گیا اور آخر کار انھیں رواں برس ستمبر میں ریٹائر کر دیا گیا۔

جب فروری 2019 ونگ کمانڈر ابھینندن کے طیارے کو پاکستان میں گرایا گیا تھا تو وہ مگ 21 ہی اڑا رہے تھے۔ انڈیا کا دعویٰ کیا تھا کہ ابھینندن نے 'پاکستانی فضائیہ کے ایف 16 طیارے کو مار گرایا تھا' جس پر بعد میں انھیں ملک کا تیسرا سب سے بڑا فوجی اعزاز 'ویر چکرا' دیا گیا تھا۔

انڈین میڈیا رپورٹس کے مطابق 1972 سے اب تک مگ 21 تقریباً 400 حادثات میں ملوث رہا ہے۔

2012 میں انڈیا کے اس وقت کے وزیر دفاع اے کے انتونی نے پارلیمنٹ میں بیان دیا تھا کہ روس سے خریدے گئے 872 مگ 21 طیاروں میں سے نصف گر کر تباہ ہو چکے ہیں۔

لیکن بعض انڈین دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ'مگ 21 نے انڈیا کے لیے ڈھال کا کام کیا۔ یہ ایک شاندار مشین تھی جس نے ہر بار اپنی صلاحیتوں کو ثابت کیا۔ میں نے اس طیارے کو ہر مرحلے میں دیکھا - ایک ہتھیار کے نظام کے طور پر تیار ہوتا ہوا مگ 21 دنیا کے بہترین پائلٹوں کے ہاتھوں میں اور بھی زیادہ خطرناک ہوتا گیا۔'

’بالاکوٹ جیسی سرجیکل سٹرائیکس کی صلاحیت‘ رکھنے والا ’تیجس‘ طیارہ گِر کر تباہ: انڈین ایئرفورس کا انکوائری کا حکمانڈیا کو پاکستانی فضائیہ کے بارے میں کیا جاننا ضروری ہے؟انڈیا کے نئے دیسی ساختہ لڑاکا طیارے ’تیجس‘ میں خاص کیا ہے؟پاکستانی جے ایف 17 یا انڈین تیجس، کون سا طیارہ زیادہ خطرناک

انڈیا کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر 83 ہلکے جنگی طیاروں کا آرڈر دیا گیا تھا اور اس پوری کھیپ کی مالیت 45،696 کروڑ روپے ہے۔

دفاعی امور کے ماہر اجے شکلا کا کہنا ہے کہ پوری کھیپ کی تیاری تک اس میں دیسی حصوں کی شرح 60 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔

تیجس میں جو نئی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے وہ 'ایکٹیو الیکٹرانک سکین ریڈار' یعنی برقی طور پر سکیننگ کرنے والا ریڈار ہے اور یہ 'کریٹیکل آپریشن کی اہلیت' رکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ یہ طیارہ 'ویژوئل رینج' سے دور بھی میزائل کو سکین کر سکتا ہے۔

Reutersدشمن کے ریڈار کو دھوکہ دینے کی صلاحیت

تیجس میں الیکٹرانک وار فیئر 'سویٹ' اور 'ایئر ٹو ایئر ری فیولنگ' کا بھی انتظام ہے۔

یہ طیارہ دور دراز سے دشمن کے طیارے کو نشانہ بنا سکتا ہے اور اس میں دشمن کے ریڈار کو دھوکہ دینے کی بھی صلاحیت موجود ہے۔ یہ طیارہ زیادہ وزن کے ساتھ سخوئی طیارے جتنے ہتھیار اور میزائل لے کر پرواز کر سکتا ہے۔

شکلا کے مطابق تیجس مارک 1 اے لڑاکا طیارے کی لاگت قریب 550 کروڑ روپے ہے، جو سخوئی 30 ایم کے آئی لڑاکا طیارے سے 120 کروڑ روپے زیادہ ہے۔

انڈین فضائیہ کے ریٹائرڈ ونگ کمانڈر کیٹی سبسٹین کہتے ہیں کہ تیجس مارک 1 اے سخوئی 30 ایم کے آئی لڑاکا طیارے سے زیادہ مہنگا ہے کیونکہ اسرائیل میں تیار کردہ ریڈار جیسے بہت سارے جدید آلات اس میں شامل کیے گئے ہیں۔

'اس طیارے میں مقامی سطح پر تیار کیا گیا ریڈار نصب کیا گیا ہے۔ یہ طیارہ ہلکا ہے اور اس کی انجن پاور بہتر ہے۔ یہ ایک کثیر المقاصد لڑاکا طیارہ ہے۔'

ایئر مارشل باربورا کا خیال ہے کہ انڈیا میں بنایا گیا تیجس ایک اچھا طیارہ ہے لیکن رینج، قوت برداشت اور ہتھیار لے جانے کی صلاحیت کے لحاظ سے یہ سخوئی یا رفال طیاروں سے کم صلاحیت رکھتا ہے۔

خیال رہے کہ تیجس طیاروں کا منصوبہ اپنے ڈیزائن اور دیگر چیلنجز کی وجہ سے انڈیا میں کافی تاخیر کا شکار رہا تھا اور ماضی میں تیجس طیاروں کو اپنے ڈیزائن اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے مشکلات کا بھی سامنا رہا ہے اور ایک مرتبہ انڈین بحریہ نے ان طیاروں کو اپنے بیڑے میں شامل کرنے کی درخواست کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ یہ بہت زیادہ بھاری ہیں۔

تاہم بعدازاں اس کے ڈیزائن اور ٹیکنالوجی میں تبدیلیاں کی گئیں اور انھیں ہلکا بنایا گیا۔

کیا جے ایف 17 تھنڈر رفال طیاروں کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟’میک اِن انڈیا‘ پروگرام: فوجی ساز و سامان کی درآمد پر پابندی کا انڈین فوج پر کیا اثر پڑے گا؟انڈیا کے نئے دیسی ساختہ لڑاکا طیارے ’تیجس‘ میں خاص کیا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More