معاشقوں اور سیاسی رہنماؤں پر نظر رکھنے والی خواتین جاسوس: ’ہمارا کام دلچسپ ہے اور خطرناک بھی‘

بی بی سی اردو  |  Dec 21, 2025

Getty Images

ندھی جین کی نظریں فون پر ٹکی تھیں، جیسے وہ کسی کا بے صبری سے انتظار کررہی ہوں، کسی کے ایک میسیج کا یا فون کا۔ ان کے چہرے پر انتظار کے ساتھ ساتھ کسی ممکنہ ضرر کا اندیشہ بھی عیاں ہو رہا تھا۔ ان کا معاون خاص کمرے میں داخل ہوتا ہے اور کان میں کچھ سرگوشی کرتا ہے۔ اب ندھی مطمئن تھیں۔

سوال پوچھنے پر ندھی بتاتی ہیں کہ ایک حساس مسئلے کی جاسوسی کے لیے ان کی ٹیم باہر تھی، اس مشن کا ایک خاص آپریشن مکمل ہوگیا۔

ندھی جین پیشہ سے ایک پرائیویٹ جاسوس ہیں اور ان کا کارپوریٹ طرز کا دفتر دہلی کے شمال میں واقع ہے۔ کئی طویل کمروں پر محیط دیواروں پر ندھی جین کی تصویریں چسپاں ہیں۔ یہ تصویریں ان کی جاسوسی کے میدان میں کامیابی کی کہانیاں سناتی ہیں۔

ندھی جاسوسی کی شوقین تو نہیں تھیں وہ تو ایک انویسٹمنٹ بینکر تھیں اور ایک نجی بینک میں ملازمت کرتی تھیں۔ جہاں ان کی ملاقات ایک جاسوس نمن جین سے ہوئی۔

ملاقات کا مقصد تھا نمن جین کو انویسٹمنٹ کے طریقے بتانا اور سمجھانا مگر وہ کچھ ہی دنوں میں نمن جین کے عشق کے احساسات میں خود ہی انویسٹ ہوگئیں۔ نمن جین کا جاسوسوں والا لب و لہجہ اور انداز اتنا بھایا کہ ندھی نے صرف نمن کو نہیں اپنایا بلکہ نمن کے پیشے کو بھی اپنا لیا۔

ندھی بتاتی ہیں کہ جب جب وہ کسی جاسوسی کے مشن پر کوئی ٹیم یا فرد کو بھیجتی ہیں تو ان کی سیفٹی کی نگرانی خود کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں پتا ہے کہ جاسوسی ایک مشکل ترین عمل ہے کہ پکڑے جانے پر جان کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔

انھیں وہ وقت بھی یاد ہے کہ جب انھوں نے بالی ووڈ کی ایک نامی گرامی شخصیت کے غیر ازدواجی تعلقات کی جاسوسی کی اور ثبوت و شواہد جمع کرنے کے لیے ایک ٹیم کو لندن بھیجا۔ اس مشن میں ایک غیر ملکی زمین پر انھیں کوئی سپورٹ حاصل نہیں تھی۔ ’ہمیں اندازہ تھا کہ جس کی جاسوسی ہم کر رہے ہیں انھیں ہماری موجودگی کا اندازہ نہیں اس کے باوجود ہم احتیاط برتتے ہیں جیسے وہ شخصیت ہمیں جانتی ہو۔‘

ندھی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ وہ اپنے شوہر نمن جین کے ساتھ جاسوسوں پر مشتمل ایک فرم چلاتی ہیں جو بالی ووڈ، سیاسی شخصیات اور معاملات، شادی، عشق و معاشقہ، بے وفائی، کارپوریٹ افیرز، جائیداد، خاندانی جھگڑوں، اور بچوں کی نگرانی جیسے معاملات کی جاسوسی کرتی ہیں۔ اس سب نازک معاملات کے لیے انھوں نے ایک کمپنی بنائی جس کا نام ’سلوتھز انڈیا‘ ہے۔

اس نام میں سیلوتھز کا مطلب جاسوس یا جاسوسی کرنے کے ہیں۔ ندھی کے مطابق اُن کے پاس تقریباً 200 جاسوس ہیں اور ان میں سے نصف خواتین ہیں جو پوری طرح کام کرتی ہیں۔

BBC

ندھی کا کہنا ہے کہ اُن کا بچپن بھی ناول پڑھتے گزرا ہے۔ وہ اگاتھا کرسٹی (انگریزی زبان کے صف اول کے جاسوسی ناول نگار) کے جاسوسی ناول پڑھتی رہی ہیں اور یہ بھی جانتی تھیں کہ کس طرح مہاتما گاندھی سابرمتی آشرم میں ہر کیس کو حل کرتے تھے۔

نِدھی، جو سنہ 2004 میں جاسوس بنیں اور سنہ 2017 میں ’انویسٹی گیشن لیڈرشپ ایوارڈ‘ جیت چکی ہیں نے بتایا کہ ’ہر کیس الگ ہوتا ہے۔ ہر دن ایک نیا دن ہوتا ہے۔ میرا پسندیدہ موضوع دھوکا دہی اور مالیاتی جرائم ہیں۔‘

ندھی نے اپنے پیشہ کے بارے میں تفصیل سے بتایا اور پیشہ میں پولیس کی مداخلت کے خطرات، قانونی دشواریوں کے اندیشوں کے بارے میں ذکر کیا۔ ان کے مطابق ’انڈیا میں جاسوسی ایک مجرمانہ عمل ہے لیکن اگر قانون کے دائرہ میں رہ کر کیا جائے تو یہ نہ صرف قابل قبول ہے بلکہ حکومت بھی اسے سراہتی ہے۔‘

ندھی کے مطابق ان کے پیشے میں سب کچھ دلچسپ ہے لیکن بالی ووڈ ان کا دلچسپ محاذ ہے۔ وہ نہ صرف بالی ووڈ کی کئی نامی گرامی شخصیات کی جاسوسی کرچکی ہیں بلکہ اب وہ فلموں میں جاسوس کے کردار کے لیے رہنمائی بھی فراہم کرتی ہیں۔ جیسے اجے دیوگن کی فلم ریڈ میں انھوں نے فیلڈ انپٹس دیے۔

ندھی نے بتایا کہ پرائیویٹ جاسوسی کی اصل زندگی فلموں کے جاسوسوں کے برعکس ہوتی ہے۔

’ہم اس طرح کسی کا پیچھا نہیں کرتے جیسے فلموں میں ہوتا ہے یا کہانیوں میں۔ کوئی خاص لباس نہیں۔ ہم بس آنکھیںکھلی رکھتے ہیں۔ عام لوگوں میں گھُل مل جاتے ہیں۔ کئی بار ہمیں خطرہ محسوس ہوتا ہے تو ہم کیس چھوڑ دیتے ہیں۔‘

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ ’ہمارے کام میں خاتون ہونا پلس پوائنٹ ہے۔ بہت سے معاملات میں خواتین پرائیویٹ انویسٹی گیٹر کی موجودگی مردوں کے مقابلے زیادہ کارگر ثابت ہوتی ہے، کیونکہ خواتین زیادہ آسانی سے لوگوں میں گھل مل جاتی ہیں۔‘

اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’اسی لیے کمپنیوں میں خواتین جاسوسوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ کئی بار خواتین با آسانی معلومات اکٹھی کر لیتی ہیں جہاں مرد تفتیش کار ناکام رہتے ہیں۔‘

نمن جین نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’ندھی کے ساتھ مل کر ہماری ایجنسی نے اب تک 10 ہزار سے زائد کیس کامیابی کے ساتھ حل کیے ہیں۔ جس کی بدولت ہمارے کلائنٹس میں بین الاقوامی کمپنیاں، فلمی شخصیات، سیاست دان اور اعلیٰ سرکاری افسران شامل ہیں۔‘

ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی کمپنی جاسوسوں کی ان کمپنیوں میں سرفہرست ہے جو برانڈ پروموشن کے لیے بالی وڈ کے سٹارز جیسے کنگنا رناوت، تاپسی پنو اور راج کمار راؤ کی خدمات حاصل کرتی ہے۔

نمن جین نے کہا کہ ’اس کے علاوہ ہماری مینجمنٹ ٹیم میں انٹیلیجنس بیورو کے افسران، پولیس افسران، فوجی افسران اور را کے سابق ارکان شامل ہیں۔ ان کے مطابق ’ہمارے کام کو حکومتی سطح پر بھی سراہا جاتا ہے۔ جیسے سنہ 2012 میں انڈیا کےصدرِ کی جانب سے ینگ انٹرپرینیور ایوارڈ، سنہ 2014 میں وزیر داخلہ کی جانب سے انویسٹی گیشن انٹرپرینیور آف دی ایئر ایوارڈ، سنہ 2017 میں انویسٹی گیشن لیڈرشپ ایوارڈ، سنہ 2023 میں آل انڈیا ویمن انٹرپرینیور ایوارڈ ملنا ہمارے لیے حوصلہ افزا ہے۔‘

ندھی کی طرح دہلی میں اور بھی کئی ایسے پرائیویٹ جاسوس ہیں جو پسِ پردہ کام کرتے ہیں۔ شوہر کی بے وفائی سے لے کر سیاسی جماعتوں کے لیے معلومات اکٹھی کرنے تک۔ یہ کام نہایت خطرناک ہوتا ہے، جہاں تفتیش کاروں کو روزانہ پیچیدہ چیلنجز کا سامنا رہتا ہے۔

چاہے گھریلو جھگڑے ہوں، زمین کے تنازعات، سیاسی سازشیں، یہ لوگ مشاہدہ کرتے ہیں، شواہد اکٹھے کرتے ہیں اور اکثر چونکا دینے والی حقیقتیں سامنے لاتے ہیں۔ لیکن ان کا کام صرف ذاتی رشتوں تک محدود نہیں۔ انھوں نے طاقت کے غلط استعمال کے کیسز بھی بے نقاب کیے ہیں اور ایسی بے وفائیاں سامنے لائی ہیں جنھوں نے پوری پوری کمیونٹیز کو متاثر کیا۔

کچھ لوگ ان کے کام کو انصاف کے حصول کے لیے ضروری سمجھتے ہیں، جب کہ بعض اسے خطرات اور دباؤ سے بھرپور عمل قرار دیتے ہیں۔

دہلی کے یہ خاتون نجی تفتیش کار چھپے ہوئے بھید کھولتے ہیں، بند دروازوں کی کنجیاں بن جاتے ہیں اور ایک ایسے معاشرے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں جہاں غداری، جھوٹ اور راز عام ہیں۔

BBC

آکریتی کتھری انھیں میں سے ایک ہیں، یہ اپنی ٹیم میں اکثریت خواتین کی رکھتی ہیں اور فیلڈ میں اپنے جارحانہ رویہ اور جاسوسی کے لیے مشہور ہیں۔ کئی بار ان کی پولیس سے بھی جھڑپ ہوچکی ہے۔

بی بی سی اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ان کے کلائنٹس میں بیوروکریٹس، سیاست دان، تاجر اور امیر گھرانے شامل ہیں، جو اپنے اہلِ خانہ کی نگرانی کرانا چاہتے ہیں۔

انھوں نے مزید بتایا کہ ’کورونا وبا کی پہلی لہر کے دوران ان کی ایجنسی کی مانگ میں نمایاں اضافہ ہوا، کیونکہ میاں بیوی ایک ہی گھر میں طویل وقت گزارنے پر مجبور تھے اور شکوک و شبہات بڑھ گئے تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’مجھے بہت سے ایسے کیسز ملے جہاں شوہر یا بیوی نے اپنے شریکِ حیات کی واٹس ایپ چیٹس تک رسائی کی درخواست کی۔'

آکریتی کا کہنا ہے کہ جاسوسی کا شوق انھیں بچپن سے تھا، جب وہ سکول اور یونیورسٹی میں اپنے ساتھی طلبہ کو خفیہ طور پر مشاہدہ کرتی تھیں۔ ان میں باریک بینی اور مختلف سراغوں کو جوڑ کر نتیجے تک پہنچنے کی صلاحیت موجود تھی۔

انھوں نے بتایا کہ سنہ 2007 میں انھوں نے اخبار میں ایک تفتیشی ایجنسی کا اشتہار دیکھا۔ تجسس کے تحت رابطہ کیا اور بغیر کسی تجربے کے انھیں ملازمت مل گئی۔ اُس وقت تفتیش کاروں کے لیے باقاعدہ تربیتی ادارے موجود نہیں تھے، اس لیے انھوں نے فیلڈ میں رہ کر تمام ضروری ہنر سیکھے، تحقیقات، پس منظر کی جانچ پڑتال، اور سب سے بڑھ کر صبر کرنا۔

روس کے لیے جاسوسی کرنے والی دو خواتین جن کا سراغ بی بی سی نے لگایاآڈرے ہیپ برن: آسکر ایوارڈ یافتہ اداکارہ جنھوں نے نازیوں کے خلاف جاسوسی کی’مردِ آہن‘ سمجھا جانے والا روسی ’جیمز بونڈ‘: افریقی ملک میں گرفتار ہونے والا یہ ایجنٹ کون ہے؟سابق برطانوی فوجی پر جاسوسی کا الزام: ’میں برطانیہ میں ایرانی انٹیلیجنس کو بے نقاب کرنا چاہتا تھا‘

آکریتی کتھری بھی ایک عالیشان دفتر چلاتی ہیں۔ ذمہ داریاں بٹی ہوئی ہیں۔ کوئی جاسوسی کے کیس کا میمو بنا رہا ہے، کوئی برنر فون استعمال کر رہا ہے۔

آکریتی نے اپنی کمپنی کا نام ’وینس جاسوس‘ رکھا ہے جس کی شاخیں دہلی، ممبئی، بنگلورو، پونے اور کولکتہ میں موجود ہیں۔ آکریتی کھتری نے بتایا کہ ان کی ایجنسی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتی ہے، جیسے الیکٹرانک نگرانی، جی پی ایس ٹریکنگ ڈیوائسز، بھیس بدلنے کی تکنیکیں اور روزمرہ معمولات کی نگرانی۔

آکریتی ذاتی اور کاروباری دونوں طرح کے کیس نمٹاتی ہیں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ’کاروباری معاملات میں ڈبل ایمپلائمنٹ، ڈیٹا لیک اور جعل سازی شامل ہیں۔‘

’ذاتی کیسز میں ازدواجی مسائل، شادی سے پہلے کی پس منظر جانچ، بچوں کی حوالگی اور بچوں کے رویے کی نگرانی شامل ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ایک جاسوس کو صبر کرنا آنا چاہیے۔ اکثر گھنٹوں تک کسی ہدف کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اسے ذہین اور حاضر جواب بھی ہونا چاہیے تاکہ پوچھ گچھ میں مضبوط کہانیاں تشکیل دے سکے۔ رازداری سب سے اہم ہے، جاسوس کبھی نمایاں لباس یا زیورات نہیں پہنتا۔‘

دہلی میں ندھی اور آکریتی جیسے بہت سے افراد نجی تفتیش کے شعبے میں کام کرتے ہیں، جو انڈیا میں تیزی سے بڑھتی ہوئی صنعت ہے۔ لوگ اور کمپنیاں ایسے کاموں کے لیے تفتیش کاروں کی خدمات لیتے ہیں جنھیں وہ خود انجام نہیں دے سکتے۔

BBC

سینیئر جاسوس نمن جین بتاتے ہیں کہ ’اس پیشے کو ریگولیٹ کرنے کی کوششیں کی گئی تھیں۔ سنہ 2007 میں پرائیویٹ انویسٹیگیشن ایجنسیز بل پارلیمنٹ میں پیش ہوا تھا تاکہ تفتیش کاروں کے لائسنس اور اہلیت کے معیار طے کیے جا سکیں۔ لیکن یہ بل کبھی منظور نہیں ہوا۔ اس وجہ سے یہ شعبہ قانونی تحفظ کے بغیر ایک مبہم قانونی فضا میں چل رہا ہے۔‘

نمن نے مزید کہا کہ ’نجی تفتیش کار اچھی کمائی کرتے ہیں لیکن خطرات بھی بڑے ہوتے ہیں۔ پولیس ہمیں جانتی ہے، اس لیے عام طور پر ہمارے کام میں مداخلت نہیں کرتی۔ لیکن اگر ہم کسی کیس کے وقت موقع پر موجود ہوں تو صورتحال خطرناک ہو سکتی ہے اور ہمیں پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔‘

کنور وکرم سنگھ جو ایسوسی ایشن آف پروفشنل ڈیٹکٹو اینڈ انویسٹی گیٹرز کے سربراہ ہیں نے بتایا کہ ’فلیڈ میں جو جانے مانے جاسوس ہیں وہ اپنا فیلڈ ورک خود نہیں کرتے کیونکہ پولیس انھیں پہچانتی ہے اس لیے وہ فری لانس تفتیش کار رکھتے ہیں۔ میں بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جنھیں ضرورت پڑنے پر بلا سکتا ہوں۔ صرف دہلی میں ہی 700 سے 800 فری لانس تفتیش کار ہیں۔‘

Getty Images

وکرم سنگھ نے بتایا کہ ’نئے جاسوس اپنی صلاحیتوں کے مطابق کمائی کرتے ہیں، کم سے کم ماہانہ تقریباً 300 ڈالر کماتے ہیں، اس کے علاوہ کیس کے اخراجات۔ تجربہ کار جاسوس لگ بھگ 2500 ڈالر یا اس کہیں زیادہ ماہانہ کماتے ہیں، جبکہ خصوصی نوعیت کی تفتیش کرنے والوں کی اوسط آمدنی ایک ہزار ڈالر کے قریب ہوتی ہے۔‘

ان کے مطابق پرائیویٹ جاسوسوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، لیکن صرف ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ ڈیٹیکٹیوز اینڈ انویسٹی گیٹرز کی تقریباً 600 ممبران ہیں۔ غیر تصدیق شدہ اندازوں کے مطابق صرف دہلی میں تقریباً 3,500 ڈیٹیکٹیو ایجنسیاں ہو سکتی ہیں۔

جبکہ پورے انڈیا میں 5000 سے زائد جاسوسی ایجنسیاں متحرک ہیں۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ پرائیویٹ جاسوسی مارکیٹ سالانہ تقریباً 30 فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔

سیاست دانوں کے ساتھ کام کرنے والے تفتیش کاروں کے کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے نمن نے بتایا کہ ’ہم سیاست دانوں کے ساتھ کام تو کرتے ہیں، لیکن کام کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ اپنی طاقت اور پولیس سے روابط کے باعث سیاست دانوں کو عام تحقیقات کے لیے ہماری خدمات کی ضرورت نہیں پڑتی۔ خاص طور پر انتخابات کے دوران ہمیں اکثر یہ جانچنے کے لیے رکھا جاتا ہے، لیکن یہ ایک پیچیدہ کام ہوتا ہے، ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کوئی سیاسی شخص ہم سے ناراض نہ ہو۔‘

نمن کے مطابق ’ہمارے سب سے بڑے کلائنٹ ہیڈ کارپوریٹ کمپنیاں ہوتی ہیں، ان کے کیسز میں ہمارا بنیادی کام جعلی کمپنیوں یا جعلی مصنوعات کا سراغ لگانا ہوتا ہے، جو کسی بھی کمپنی کی شہرت اور برانڈ ویلیو کو شدید نقصان پہنچاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بیک گراونڈ چیک وغیرہ۔ ہمارا کام بہت بڑا ہے، اور پُرخطر ہے۔‘

’بدکردار بیوی یا خفیہ جاسوس‘؟ اس عورت کی کہانی جسے تاریخ نے سب سے زیادہ نفرت کی نگاہ سے دیکھاسابق برطانوی فوجی پر جاسوسی کا الزام: ’میں برطانیہ میں ایرانی انٹیلیجنس کو بے نقاب کرنا چاہتا تھا‘’مردِ آہن‘ سمجھا جانے والا روسی ’جیمز بونڈ‘: افریقی ملک میں گرفتار ہونے والا یہ ایجنٹ کون ہے؟روس کے لیے جاسوسی کرنے والی دو خواتین جن کا سراغ بی بی سی نے لگایاآڈرے ہیپ برن: آسکر ایوارڈ یافتہ اداکارہ جنھوں نے نازیوں کے خلاف جاسوسی کی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More