انڈین تفتیشی ادارے، سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) نے رشوت لینے کے الزام پر ایک لیفٹیننٹ کرنل اور عام شہری ونود کمار کو گرفتار کیا ہے۔
سی بی آئی کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہلیفٹیننٹ کرنل دیپک کمار شرما، دفاعی پیداوار کے محکمے میں ڈپٹی پلاننگ آفیسر، انٹرنیشنل کوآپریشن اینڈ ایکسپورٹ کے عہدے پر فائز تھے۔
اعلامیے کے مطابق 19 دسمبر کو دیپک کمار شرما، اُن کی اہلیہ کرنل کاجل بالی اور دبئی کی ایک کمپنی کے خلاف ’رشوت ستانی اور مجرمانہ سازش‘ کا مقدمہ درج کیا گیا۔ کرنل کاجل بالی بھی انڈین فوج کے 16 انفنٹری ڈویژن آرڈیننس یونٹ میں تعینات ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ لیفٹیننٹ کرنل دیپک کمار شرما، دفاعی پیداوار سے منسلک نجی کمپنیوں اور ایکسپورٹرز کو نوازنے کے عوض اُن سے رشوت لیتے رہے ہیں۔
سی بی آئی کے مطابق دبئی کی کمپنی کے انڈیا میں معاملات دیکھنے والے راجیو یادیو اور راوجیت سنگھ مسلسل لیفٹیننٹ کرنل دیپک کمار کے ساتھ رابطے میں تھے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ رشوت کے عوض لیفٹیننٹ کرنل دیپک کمار دبئی کی اس کمپنی کو سرکاری ٹینڈرز لینے اور دیگر فوائد کے لیے مدد فراہم کرتے تھے۔
سی بی آئی کے مطابق 18 دسمبر کو بھی لیفٹیننٹ کرنل دیپک کمار نے راجیو یادیو اور راوجیت سنگھ سے تین لاکھ روپے رشوت وصول کی۔
لیفٹیننٹ کرنل دیپک کمار کے گھر پر چھاپہ اور نقدی کی برآمدگی
سی بی آئی کے مطابق نئی دہلی، جموں اور سری گنگا نگر راجستھانمیں لیفٹیننٹ کرنل دیپک کمار کے گھروں پر جب چھاپہ مارا گیا تو 18 دسمبر کو اُن کی جانب سے لی جانے والی رشوت کے تین لاکھ روپے برآمد کیے گئے۔
بیان کے مطابق اُن کی رہائش گاہ سے دو کروڑ 23 لاکھ روپے الگ سے برآمد کیے گئے ہیں۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سری گنگا نگر میں اُن کی رہائش گاہ سے ایک کروڑ روپے نقدی برآمد کی گئی ہے۔
سی بی آئی کا کہنا ہے کہ نئی دہلی میں لیفٹیننٹ کرنل دیپک کمار کے دفتر کی بھی تلاشی لی جا رہی ہے۔
عدالت نے دونوں ملزمان کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا ہے۔
گوتم اڈانی پر امریکہ میں ’رشوت‘ کا الزام جو انڈیا کے لیے بھی ایک کڑا امتحان ہے’کارپوریٹ تاریخ کے سب سے بڑے دھوکے‘ کا الزام: انڈین ارب پتی کی دولت سے دو دن میں 20 ارب ڈالر کا صفایاجب گھر مسمار ہونے پر سابق انڈین فوجی نے اپنی زمین کشمیری شخص کو دے دیانڈین پارلیمنٹ سے متنازع ایٹمی توانائی بل منظور، نجی شعبے کو جوہری توانائی میں سرمایہ کاری کرنے کی اجازتسوشل میڈیا پر ردِعمل
انڈین فوجی افسر کی رشوت لینے کے الزامات کے تحت گرفتاری کا معاملہ سوشل میڈیا پر بھی زیر بحث ہے۔
بعض صارفین، کرپشن الزامات پر فوجی افسر کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات ہونی چاہییں۔
اویشک گوئل نامی صارف لکھتے ہیں کہ یہاں تین، تین لاکھ روپوں میں وطن سے محبت کا سودا کیا جا رہا ہے۔
پرینکا لکھتی ہیں کہ ان لوگوں نے ایک بار وردی میں ’قوم کی خدمت‘ کا عہد لیا تھا۔
انکش لکھتے ہیں کہ ’ایک دیانت دار سمجھے جانے والے ادارے فوج میں بھی کرپشن پھیل رہی ہے۔ لیکن اس حکومت کو کچھ نظر نہیں آ رہا۔‘
ہرن بورا لکھتے ہیں کہ ایک انفرادی مقدمے میں پوری فوج اور حکومت کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔
ڈاکٹر سمت شاہ لکھتے ہیں کہ جب بھی کوئی کہتا ہے کہ ’مسلح افواج میں کرپشن نہیں ہے تو مجھے ان کی معصومیت پر حیرت ہوتی ہے۔‘
نارائن کمار لکھتے ہیں کہ ’عبرت ناک سزا لازمی ہے۔ فوج میں کرپشن قابلِ قبول نہیں ہونی چاہیے۔‘
ایک صارف نے لکھا کہ دفاعی شعبے میں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کرپشن کے ماہر ہیں کیونکہ وہاں میڈیا کی رسائی نہیں ہے۔ اگر کوئی انھیں اندرونی طور پر بے نقاب کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ لوگ انھیں ہراساں کرتے ہیں۔ یہ ایک سلسلہ ہے جو اوپر کی سطح سے نچلی سطح تک پھیلا ہوا ہے۔
EPAانڈیا میں کرپشن اور دفاعی سودوں میں خردبرد کے الزامات
انڈیا میں سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ حالیہ عرصے میں فوجی افسران پر بھی بدعنوانی کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی سنہ 2024 کی رپورٹ کے مطابق انڈیا، بدعنوانی کے لحاظ سے دُنیا کے 180 ممالک میں 96 ویں نمبر پر ہے۔
رپورٹ کے مطابق سنہ 2024 میں اربوں ڈالر کے شمسی توانائی کے معاہدوں کے حصول کے لیے امریکی فرمز نے انڈیا میں سرکاری اہلکاروں کو 25 کروڑ ڈالرز سے زائد کی رشوت دی۔
چند سال قبل انڈیا میں بدعنوانی سے متعلق جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بدعنوانی اور کرپشن کے خلاف تمام تر اقدامات کے باوجود رشوت لینے اور دینے کا عمل جاری ہے۔
انڈیا کرپشن سروے 2019 میں حصہ لینے والے آدھے سے زیادہ لوگوں کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے کام کروانے کے لیے رشوت دی ہیں جبکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔
سروے کے مطابق 35 فیصد لوگوں نے کہا کہ انھوں نے اپنا کام کروانے کے لیے نقدی کی شکل میں رشوت دی جبکہ 16 فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے ہمیشہ بغیر رشوت دیے اپنا کام کروایا ہے۔
فرانس کے ایک خبر رساں ادارے ’میڈیا پارٹ‘ کی سنہ 2021 کی ایک خصوصی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ رفال بنانے والی کمپنی ڈاسو اور انڈین حکومت کے درمیان سودا کرانے والے ایک شخص کو دس لاکھ یورو دیے گئے تھے جو کہ سودے کے لیے دی گئی رقم سے علیحدہ رقم تھی۔
اس فرانسیسی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی رپورٹ کا مضمون تھا کہ ’رفال جنگجو جیٹ کی انڈیا میں فروخت: ایک ریاستی سطح کے سکینڈل کو کس طرح دفن کر دیا گیا‘۔
ویب سائٹ نے دعویٰ کیا تھا کہ ’اس متنازع معاہدے کے ساتھ ڈاسو نے سودہ کرانے والے اس شخص کو دس لاکھ یورو کی رقم ادا کی جس کے بارے میں ایک دوسرے سکیورٹی سودے (آگسٹا ہیلی کاپٹر ڈیل) سے متعلق انڈیا میں تفتیش جاری ہے۔‘
رپورٹ کے مطابق ڈیل کرانے والے اس شخص کو دی گئی رقم کی ادائیگی سے متعلق اس وقت پتا چلا جب فرانسیسی اینٹی کرپشن ایجنسی ’اے ایف اے‘ ڈاسو کا ایک معمول کا آڈٹ کر رہی تھی۔ رپورٹ میں اس بارے میں بھی حیرانی کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس انکشاف کے باوجود اے ایف اے نے اہلکاروں کو متنبہ نہیں کیا۔
انڈیا کے رفال طیاروں کے معاہدے میں مبینہ کرپشن کے نئے دعوے، اب تک ہم کیا جانتے ہیں؟ایسٹ انڈیا کمپنی: دنیا کی ’طاقتور ترین کارپوریشن‘ جس کے افسران کی کرپشن، بدانتظامی اور لالچ اس کے زوال کا باعث بنیانڈیا میں 51 فیصد لوگوں کا رشوت دینے کا اعترافرفال طیاروں کے معاہدے میں ’وعدہ خلافی‘، انڈیا کا دفاعی سامان سے متعلق نئی پالیسی کا اعلانانڈیا کے لیے دفاعی ساز و سامان کے شعبے میں ’خود انحصاری‘ کا حصول کتنا مشکل