Getty Imagesسیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ ’مائنس عمران خان‘ مذاکرات کا کوئی بھی نتیجہ دیرپا نہیں ہو گا
پاکستان کے وزیرِ اعظمشہباز شریف نے ایک بار پھر پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کو مذاکرات کی دعوت دی ہے جسے متحدہ اپوزیشن کے پلیٹ فارم ’تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان‘ نے قبول کر لیا ہے۔
’تحریکِِ تحفظِ آئینِ پاکستان‘ کا کہنا ہے کہ انھوں نے حکومتی پیشکش کو سنجیدگی سے لیا اور اس پر اپوزیشن سمیت تمام جماعتوں سے تفصیلی مشاورت کی۔
’تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان‘ کے نائب صدر مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا ہے کہ اپوزیشن پارلیمان اور آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے نئے میثاق پر حکومت سے بات کرنے کو تیار ہے۔
جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے مصطفیٰ نواز کھوکھر نے واضح کیا کہ یہ مذاکرات عمران خان کی رہائی، جیل میں ملاقاتوں یا پھر کیسز ختم کرنے کے لیے نہیں بلکہ ملک میں سیاسی عمل کے ’بے معنی‘ ہونے اور اس پر کم ہوتے عوامی اعتماد سے متعلق ہوں گے۔
حکومت کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کے بعد تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان کے صدر محمود خان اچکزئی نے عمران خان کی بہن علیمہ خان سے ملاقات کی اور اس کے بعد ہی اپنے اعلامیے میں مذاکرات کی پیشکش کو قبول کرنے کا اعلان کیا گیا۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ وہ افراد جو اس وقت جماعت کی فیصلہ سازی میں بہت فعال نہیں لیکن ماضی میں عمران خان کے قریبی سمجھے جاتے ہیں، انھوں نے بھی سیاسی کشیدگی ختم کرنے کے لیے حکومت کے ساتھ مذاکرات کی پیشکش کا خیر مقدم کیا۔
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کے ریاستی ادارے تحریک انصاف اور اُس کے بانی عمران خان کے خلاف سخت رویہ اپنائے ہوئے ہیں، ان مذاکرات کا مقصد کیا ہے اور تحریکِ انصاف یا عمران خان کی مزاحمت یا احتجاج پر مبنی سیاست کے دوران ان مذاکرات کی کوئی اہمیت ہے بھی یا نہیں؟ بی بی سی نے یہ جاننے کے لیے سیاسی مبصرین سے بات کی۔
سیاسی تجزیہ کار اور مبصرین کا ماننا ہے کہ ملک میں اس وقت واضح سیاسی تقسیم ہے اور ان حالات میں عدم استحکام کا خدشہ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔
Getty Imagesعمران خان نے خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلی سہیل آفریدی کو احتجاجی سیاست شروع کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے’تحریک انصاف تاحال کنفیوژن کا شکار ہے‘
سینیئر صحافی و تجزیہ کار نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست ناکام ہو چکی اور یہ اچھا موقع ہے کہ تحریک انصاف سے رابطہ کیا جائے۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے نصرت جاوید کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کو مذاکرات کی دعوت دینا، اس بات کا اشارہ ہے کہ حکومت بھی سیاسی ماحول کو بہتر بنانا چاہتی ہے۔
واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے مذاکرات کی یہ پیشکش ایسے وقت میں کی گئی جب حالیہ عرصے میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے اور امریکی کانگریس کے ارکان کی جانب سے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال اور ’سیاسی قیدیوں‘ کے معاملے پر تحفظات سامنے آئے تھے۔
تحریک انصاف ان مذاکرات کے لیے کس حد تک سنجیدہ ہے؟ اس بارے میں بات کرتے ہوئے نصرت جاوید کا کہنا تھا کہ عمران خان نے حکومت سے بات چیت کے لیے محمود اچکزئی کو نامزد کر رکھا ہے اور محمود اچکزئی نے علیمہ خان سے بات کر کے ہی مذاکرات کی دعوت قبول کی۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ حکومت کو بھی اندازہ ہے کہ ان مذاکرات کا کوئی مثبت نیجہ برآمد نہیں ہو گا۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ حکومت اس سے یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ ہم تو مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن تحریک انصاف اور عمران خان ان میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔
’میرا خیال ہے کہ وزیر اعظم کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش حکومت کی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی کوشش ہے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ قبل، پی ٹی آئِی کے سابق رہنما جو اب بھی پارٹی کے ساتھ اپنی وابستگی ظاہر کر رہے ہیں، اُنھوں نے بھی بات چیت شروع کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن اُس معاملے میں بھی کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی تھی۔
’قومی سلامتی کے لیے خطرہ‘ اور ’نئی سُرخ لکیر‘: ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس فوج اور پی ٹی آئی کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟27ویں آئینی ترمیم: ’طاقت کا پلڑا ایک بار پھر فوج کے حق میں‘ اور اس کے سربراہ تاحیات فیلڈ مارشلامریکی قانون سازوں کا فیلڈ مارشل عاصم منیر کو جوابدہ بنانے سے متعلق خط کیا امریکی انتظامیہ پر اثرانداز ہو سکتا ہے؟امریکہ میں عمران خان کی رہائی اور پاکستان کے آرمی چیف پر پابندی سے متعلق بل پیش: ’پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ‘ میں کیا ہے؟
واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے سابق رہنما فواد چوہدری، عمران اسماعیل اور محمود مولوی نے اکتوبر میں اعلان کیا تھا کہ وہ سیاسی تلخی کم کرنے کے لیے فریقین کے مابین بات چیت شروع کرنے کی کوششیں شروع کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں ان رہنماؤں نے لاہور میں شاہ محمود قریشی سمیت پی ٹی آئی کے اسیر رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کی تھی۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف تاحال بہت کنفیوژن کا شکار ہے۔ ’ایک طرف مذاکرات کی حامی بھری ہے اور دوسری جانب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا احتجاجی ریلیوں پر مشاورت کرنے کے لیے لاہور کے دورے پر ہیں۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ مذاکرات کا یہ عمل بہت پیچیدہ ہے اور انھیں نتیجہ خیز بنانے کے لیے تحریکِ انصاف کو واضح ایجنڈے کے ساتھ اس میں شامل ہونا پڑے گا۔
Getty Imagesماہرین کہتے ہیں کہ عمران خان اس وقت مذاکرات کے موڈ میں نہیں’عمران خان، اس وقت صرف مزاحمتی سیاست کے موڈ میں ہیں‘
عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ اس مذاکراتی عمل کی کامیابی کے زیادہ امکانات نہیں اور یہ صرف حکومت اور پی ٹی آئی کے سابق رہنماؤں کی جانب سے شروع کی گئی ایک مشق ہے۔
اُن کے بقول اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کے اندر ایک گروپ ہے، جو حکومت کے ساتھ مذاکرات چاہتا ہے۔
’اس سلسلے میں پہلے بھی کوٹ لکھپت میں قید رہنماؤں نے ایک خط لکھا تھا اور چند روز قبل بھی اُن کی جانب سےایک خط لکھا گیا۔‘
واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما میاں محمود الرشید، اعجاز چوہدری اور سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کو نو مئی کے مختلف مقدمات میں سزائیں ہو چکی ہیں لیکن ان مقدمات میں شاہ محمود قریشی کو بری کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ پی ٹی آئی میں ایک گروپ مذاکرات کا حامی ہے اور حکومت اسی کا فائدہ اُٹھا کر جارحانہ سیاست کی حامی پی ٹی آئی کی قیادت کو تنہا کرنا چاہتی ہے۔
’لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان، اس وقت کسی بھی بات چیت کے موڈ میں نہیں اور بدستور مزاحمت کی سیاست پر زور دے رہے ہیں۔ لہذا اگر پی ٹی آئی مذاکرات آگے بڑھانا چاہتی ہے تو پہلے اسے اپنی ایک میٹنگ کرنی چاہیے، جس میں عمران خان کی بہنیں بھی شامل ہوں۔‘
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی تو اس حکومت کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتی لیکن اسمبلی میں موجود ہے۔
’ساتھ ہی پارٹی میں یہ خواہش بھی پائی جاتی ہے کہ بات چیت کے ذریعے عمران خان کے لیے کوئی راستہ ہموار ہو۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ایک طرف تحریک انصاف مذاکرات کی بات کرتی ہے، تو دُوسری طرف پی ٹی آئی کا جارحانہ گروپ سٹریٹ موومنٹ کے لیے پر تول رہا ہے۔
تحریکِ تحفظ آئینِ پاکستانکے نائب صدر مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا ہے کہ متحدہ اپوزیشن میں اور بھی جماعتیں شامل ہیں اورحکومت سے بات چیت کا اختیار پی ٹی آئی نے محمود خان اچکزئی کو دیا۔
انھوں نے کہا کہ اگر کوئی معاہدہ ہو جاتا ہے تو عمران خان سے دستخط کروانے کی ذمہ داری محمود خان اچکزئی کی ہو گی۔
Getty Images’حکومت بھرپور فائدہ اٹھائے گی‘
عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ عمران خان کی جانب سے تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان کو واضح ہدایات نہیں دی گئیں۔ ’اگر یہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کرتی ہے اور کسی معاملے پر اتفاق رائے ہو جاتا ہے تو اگر پھر عمران خان اسے ویٹو کر دیں تو حکومت اس کا بھرپور فائدہ اُٹھائے گی۔‘
اُن کے بقول پھر حکومت یہ کہے گی کہ عمران خان، مفاہمت پر یقین ہی نہیں رکھتے اور انتشار کی سیاست ہی اُن کا شیوا ہے۔
عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ اگر مذاکرات کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو پہلے مرحلے میں تو عمران خان کی رہائی ایجنڈے میں شامل ہی نہیں۔ ’لہذا میثاق جمہوریت، شفاف انتخابات، قانون کی حکمرانی جیسے مطالبات جو ایک وسیع ایجنڈا ہیں، اس پر حکومت کے لیے رضا مند ہونا بھی گھاٹے کا سودا نہیں ہو گا۔‘
عاصمہ شیرازی کے بقول پی ٹی آئی کے اندر پائی جانے والی تقسیم کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ جس روز قومی کانفرنس کا اعلامیہ جاری ہوا اور مذاکرات کی بات کی گئی تو اُسی روز علیمہ خان کا بیان آیا کہ جو مذاکرات میں جائے گا کہ وہ ہم میں سے نہیں ہو گا۔
اُن کے بقول مشترکہ اعلامیے کے بعد پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم کا سخت بیان اور پھر خود عمران خان کا اپنی ٹویٹ میں سہیل آفریدی کو ’سٹریٹ موومنٹ‘ شروع کرنے کی ہدایت کرنا ظاہر کرتا ہے کہ اس معاملے میں کتنا ابہام ہے۔
توشہ خانہ ٹو کیس: عمران خان کو اہلیہ سمیت 17 برس قید کی سزا، فیصلے میں سابق وزیراعظم کی عمر کا بھی حوالہپی ٹی آئی کا ممکنہ احتجاج اور مذاکرات کی گونج: ’یہ مل بیٹھ کر بات کیوں نہیں کرتے، ہماری جان کیوں نہیں چھوڑتے‘عمران خان جیلر ہے یا قیدی؟عمران خان بمقابلہ فوج: یہ تنازع کیا رخ اختیار کر سکتا ہے؟ڈی جی آئی ایس پی آر کی ’جارحانہ‘ پریس کانفرنس میں عمران خان کا نام لیے بغیر تنقید: ’ادارے کے لیے مناسب نہیں کہ ایسے لب و لہجے میں بات کی جائے‘