Poetry in Urdu Shayari, Ghazals, Nazms

UrduWire.com presents thousands of best roman & Urdu poetries, ghazals, Urdu sher & nazms. Read the best shayari by Pakistani & Indian famous Urdu poets.

جو بے نماز کبھي پڑھتے ہيں نماز اقبال
جو بے نماز کبھي پڑھتے ہيں نماز اقبال
بلا کے دير سے مجھ کو امام کرتے ہيں
پوچھو مجھ سے میرے ملک میں کیا ہے
پوچھو مجھ سے میرے ملک میں کیا ہے
وسائل تو بہت ہیں مگر مہیا ہمیں کیا ہے
Saans Lene Se Saans Dene Tak
Saans Lene Se Saans Dene Tak,
Jitne Lamhe Hain Sab Tumhare Hain
Jawab e shikwa
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

قدسی الاصل ہے رفعت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اٹھتی ہے گردوں پہ گزر رکھتی ہے

عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا
آسماں چیر گیا نالۂ بیباک مرا

پیر گردوں نے کہا سن کے کہیں ہے کوئی
بولے سیارے سر عرش بریں ہے کوئی

چاند کہتا تھا نہیں اہل زمیں ہے کوئی
کہکشاں کہتی تھی پوشیدہ یہیں ہے کوئی

کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
مجھ کو جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا

تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا
عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا

تا سر عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا
آ گئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا

غافل آداب سے سکان زمیں کیسے ہیں
شوخ و گستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں

اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے
تھا جو مسجود ملائک یہ وہی آدم ہے

عالم کیف ہے دانائے رموز کم ہے
ہاں مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے

ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو

آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ ترا
اشک بیتاب سے لبریز ہے پیمانہ ترا

آسماں گیر ہوا نعرۂ مستانہ ترا
کس قدر شوخ زباں ہے دل دیوانہ ترا

شکر شکوے کو کیا حسن ادا سے تو نے
ہم سخن کر دیا بندوں کو خدا سے تو نے

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے رہرو منزل ہی نہیں

تربیت عام تو ہے جوہر قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں

بت شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا براہیم پدر اور پسر آزر ہیں

بادہ آشام نئے بادہ نیا خم بھی نئے
حرم کعبہ نیا بت بھی نئے تم بھی نئے

وہ بھی دن تھے کہ یہی مایۂ رعنائی تھا
نازش موسم گل لالۂ صحرائی تھا

جو مسلمان تھا اللہ کا سودائی تھا
کبھی محبوب تمہارا یہی ہرجائی تھا

کسی یکجائی سے اب عہد غلامی کر لو
ملت احمد مرسل کو مقامی کر لو

کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے
ہم سے کب پیار ہے ہاں نیند تمہیں پیاری ہے

طبع آزاد پہ قید رمضاں بھاری ہے
تمہیں کہہ دو یہی آئین وفاداری ہے

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں

جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن تم ہو

بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن تم ہو

ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے
کیا نہ بیچوگے جو مل جائیں صنم پتھر کے

صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے
نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے

میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے
میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے

تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

کیا کہا بہر مسلماں ہے فقط وعدۂ حور
شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور

عدل ہے فاطر ہستی کا ازل سے دستور
مسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حور و قصور

تم میں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں
جلوۂ طور تو موجود ہے موسیٰ ہی نہیں

منفعت ایک ہے اس قوم کا نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

کون ہے تارک آئین رسول مختار
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار

کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعار اغیار
ہو گئی کس کی نگہ طرز سلف سے بے زار

قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغام محمد کا تمہیں پاس نہیں

جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آرا تو غریب
زحمت روزہ جو کرتے ہیں گوارا تو غریب

نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا تو غریب
پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمہارا تو غریب

امرا نشۂ دولت میں ہیں غافل ہم سے
زندہ ہے ملت بیضا غربا کے دم سے

واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
برق طبعی نہ رہی شعلہ مقالی نہ رہی

رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی

مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے

شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو

دم تقریر تھی مسلم کی صداقت بیباک
عدل اس کا تھا قوی لوث مراعات سے پاک

شجر فطرت مسلم تھا حیا سے نمناک
تھا شجاعت میں وہ اک ہستی فوق الادراک

خود گدازی نم کیفیت صہبایش بود
خالی از خویش شدن صورت مینا یش بود

ہر مسلماں رگ باطل کے لیے نشتر تھا
اس کے آئینۂ ہستی میں عمل جوہر تھا

جو بھروسا تھا اسے قوت بازو پر تھا
ہے تمہیں موت کا ڈر اس کو خدا کا ڈر تھا

باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر قابل میراث پدر کیونکر ہو

ہر کوئی مست مئے ذوق تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو یہ انداز مسلمانی ہے

حیدری فقر ہے نے دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

تم ہو آپس میں غضب ناک وہ آپس میں رحیم
تم خطا کار و خطا بیں وہ خطا پوش و کریم

چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم
پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم

تخت فغفور بھی ان کا تھا سریر کے بھی
یوں ہی باتیں ہیں کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی

خودکشی شیوہ تمہارا وہ غیور و خوددار
تم اخوت سے گریزاں وہ اخوت پہ نثار

تم ہو گفتار سراپا وہ سراپا کردار
تم ترستے ہو کلی کو وہ گلستاں بکنار

اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت ان کی
نقش ہے صفحۂ ہستی پہ صداقت ان کی

مثل انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے
بت ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوئے

شوق پرواز میں مہجور نشیمن بھی ہوئے
بے عمل تھے ہی جواں دین سے بدظن بھی ہوئے

ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا
لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا

قیس زحمت کش تنہائی صحرا نہ رہے
شہر کی کھائے ہوا بادیہ پیما نہ رہے

وہ تو دیوانہ ہے بستی میں رہے یا نہ رہے
یہ ضروری ہے حجاب رخ لیلا نہ رہے

گلۂ جور نہ ہو شکوۂ بیداد نہ ہو
عشق آزاد ہے کیوں حسن بھی آزاد نہ ہو

عہد نو برق ہے آتش زن ہر خرمن ہے
ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے

اس نئی آگ کا اقوام کہن ایندھن ہے
ملت ختم رسل شعلہ بہ پیراہن ہے

آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا

دیکھ کر رنگ چمن ہو نہ پریشاں مالی
کوکب غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی

خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی
گل بر انداز ہے خون شہدا کی لالی

رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے
یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے

امتیں گلشن ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں
اور محروم ثمر بھی ہیں خزاں دیدہ بھی ہیں

سیکڑوں نخل ہیں کاہیدہ بھی بالیدہ بھی ہیں
سیکڑوں بطن چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں

نخل اسلام نمونہ ہے برومندی کا
پھل ہے یہ سیکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا

پاک ہے گرد وطن سے سر داماں تیرا
تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا

قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا
غیر یک بانگ درا کچھ نہیں ساماں تیرا

نخل شمع استی و در شعلہ دو ریشۂ تو
عاقبت سوز بود سایۂ اندیشۂ تو

تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشۂ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے

ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

کشتئ حق کا زمانے میں سہارا تو ہے
عصر نو رات ہے دھندلا سا ستارا تو ہے

ہے جو ہنگامہ بپا یورش بلغاری کا
غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا

تو سمجھتا ہے یہ ساماں ہے دل آزاری کا
امتحاں ہے ترے ایثار کا خودداری کا

کیوں ہراساں ہے صہیل فرس اعدا سے
نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے

چشم اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری
ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تیری

زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری
کوکب قسمت امکاں ہے خلافت تیری

وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

مثل بو قید ہے غنچے میں پریشاں ہو جا
رخت بر دوش ہوائے چمنستاں ہو جا

ہے تنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہو جا
نغمۂ موج ہے ہنگامۂ طوفاں ہو جا

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے

ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو

یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو
بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو

خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

دشت میں دامن کہسار میں میدان میں ہے
بحر میں موج کی آغوش میں طوفان میں ہے

چین کے شہر مراقش کے بیابان میں ہے
اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے

چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعت شان رفعنا لک ذکرک دیکھے

مردم چشم زمیں یعنی وہ کالی دنیا
وہ تمہارے شہدا پالنے والی دنیا

گرمی مہر کی پروردہ ہلالی دنیا
عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا

تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح
غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح

عقل ہے تیری سپر عشق ہے شمشیر تری
مرے درویش خلافت ہے جہانگیر تری

ما سوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
یہ آرزو تھی تجھے گل کے رو بہ رو کرتے
یہ آرزو تھی تجھے گل کے رو بہ رو کرتے
ہم اور بلبل بیتاب گفتگو کرتے

پیامبر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے

مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے

ہمیشہ رنگ زمانہ بدلتا رہتا ہے
سفید رنگ ہیں آخر سیاہ مو کرتے

لٹاتے دولت دنیا کو میکدے میں ہم
طلائی ساغر مے نقرئی سبو کرتے

ہمیشہ میں نے گریباں کو چاک چاک کیا
تمام عمر رفوگر رہے رفو کرتے

جو دیکھتے تری زنجیر زلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے

بیاض گردن جاناں کو صبح کہتے جو ہم
ستارۂ سحری تکمۂ گلو کرتے

یہ کعبے سے نہیں بے وجہ نسبت رخ یار
یہ بے سبب نہیں مردے کو قبلہ رو کرتے

سکھاتے نالۂ شبگیر کو در اندازی
غم فراق کا اس چرخ کو عدو کرتے

وہ جان جاں نہیں آتا تو موت ہی آتی
دل و جگر کو کہاں تک بھلا لہو کرتے

نہ پوچھ عالم برگشتہ طالعی آتشؔ
برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے
Aap ne Kya shayarana....

Aap ne Kya shayarana....
Lagta Hay Ghalib......

آج کا دن ہے کیا کمال
آج کا دن ہے کیا کمال بس مجھے اس لڑکی کا ہے خیال
سالگرہ ہے اُس کی معلوم ہے یار اس ماہ جنوری کا عجب ہے کمال
کر دیا ہے خاک سے پہلے ہی خاک موجودہ نظام نے
کر دیا ہے خاک سے پہلے ہی خاک موجودہ نظام نے
شیطان بھی ٹوٹ گیا ہے ہماری حالت دیکھ کر
Africa Main Ek Kaly Shohar Nay
Africa Main Ek Kaly Shohar Nay Apni Kali Biwi Ko Kali Rat Main
Kaly Samandar Kay Pas Bary Pyar Say Pocha Darling Bethi Ho Ya Chali Gai
Khulen Gey Jald He Be Wafai K Kai Kisay
Khulen Gey Jald He Be Wafai K Kai Kisay
Laut Arha H Phr Sy Wo Be Beraham December
تجھ کو بھولا نہیں وہ شخص کہ جو
تجھ کو بھولا نہیں وہ شخص کہ جو
تیری بانہوں میں بھی اکیلا تھا
اور اب یہ کہتا ہوں یہ جرم تو روا رکھتا
اور اب یہ کہتا ہوں یہ جرم تو روا رکھتا
میں عمر اپنے لیے بھی تو کچھ بچا رکھتا

خیال صبحوں کرن ساحلوں کی اوٹ سدا
میں موتیوں جڑی بنسی کی لے جگا رکھتا

جب آسماں پہ خداؤں کے لفظ ٹکراتے
میں اپنی سوچ کی بے حرف لو جلا رکھتا

ہوا کے سایوں میں ہجر اور ہجرتوں کے وہ خواب
میں اپنے دل میں وہ سب منزلیں سجا رکھتا

انہیں حدوں تک ابھرتی یہ لہر جس میں ہوں میں
اگر میں سب یہ سمندر بھی وقت کا رکھتا

پلٹ پڑا ہوں شعاعوں کے چیتھڑے اوڑھے
نشیب زینۂ ایام پر عصا رکھتا

یہ کون ہے جو مری زندگی میں آ آ کر
ہے مجھ میں کھوئے مرے جی کو ڈھونڈتا رکھتا

غموں کے سبز تبسم سے کنج مہکے ہیں
سمے کے سم کے ثمر ہیں میں اور کیا رکھتا

کسی خیال میں ہوں یا کسی خلا میں ہوں
کہاں ہوں کوئی جہاں تو مرا پتا رکھتا

جو شکوہ اب ہے یہی ابتدا میں تھا امجدؔ
کریم تھا مری کوشش میں انتہا رکھتا
Jab Ishq Ke Arman Jal Jata Han
Jab Ishq Ke Arman Jal Jata Han
Na Jane Kiun Log Badal Jaten Han
پھولوں کی طرح لب کھول کبھی
پھولوں کی طرح لب کھول کبھی
خوشبو کی زباں میں بول کبھی

الفاظ پرکھتا رہتا ہے
آواز ہماری تول کبھی

انمول نہیں لیکن پھر بھی
پوچھ تو مفت کا مول کبھی

کھڑکی میں کٹی ہیں سب راتیں
کچھ چورس تھیں کچھ گول کبھی

یہ دل بھی دوست زمیں کی طرح
ہو جاتا ہے ڈانوا ڈول کبھی
جہاں دیکھو عشق کے بیمار بیٹھے ہیں
جہاں دیکھو عشق کے بیمار بیٹھے ہیں
ہزاروں مر کر بھی لاکھوں تیار بیٹھے ہیں
Yaad Mehboob Ki Aur Sardi Urooj Ki,
Yaad Mehboob Ki Aur Sardi Urooj Ki,
Dekhte Hain Aaj Humein Kaun Bimar Karta Hai
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا

کیا کیا الجھتا ہے تری زلفوں کے تار سے
بخیہ طلب ہے سینۂ صد چاک شانہ کیا

زیر زمیں سے آتا ہے جو گل سو زر بکف
قاروں نے راستے میں لٹایا خزانہ کیا

اڑتا ہے شوق راحت منزل سے اسپ عمر
مہمیز کہتے ہیں گے کسے تازیانہ کیا

زینہ صبا کا ڈھونڈتی ہے اپنی مشت خاک
بام بلند یار کا ہے آستانہ کیا

چاروں طرف سے صورت جاناں ہو جلوہ گر
دل صاف ہو ترا تو ہے آئینہ خانہ کیا

صیاد اسیر دام رگ گل ہے عندلیب
دکھلا رہا ہے چھپ کے اسے دام و دانہ کیا

طبل و علم ہی پاس ہے اپنے نہ ملک و مال
ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا

آتی ہے کس طرح سے مرے قبض روح کو
دیکھوں تو موت ڈھونڈ رہی ہے بہانہ کیا

ہوتا ہے زرد سن کے جو نامرد مدعی
رستم کی داستاں ہے ہمارا فسانہ کیا

ترچھی نگہ سے طائر دل ہو چکا شکار
جب تیر کج پڑے تو اڑے گا نشانہ کیا

صیاد گل عذار دکھاتا ہے سیر باغ
بلبل قفس میں یاد کرے آشیانہ کیا

بیتاب ہے کمال ہمارا دل حزیں
مہماں سرائے جسم کا ہوگا روانہ کیا

یوں مدعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دے
آتشؔ غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا
دیکھ ہماری دید کے کارن کیسا قابلِ دید ہوا
دیکھ ہماری دید کے کارن کیسا قابلِ دید ہوا
ایک ستارہ بیٹھے بیٹھے تابش میں خورشید ہوا

آج تو جانی رستہ تکتے، شام کا چاند پدید ہوا
تو نے تو انکار کیا تھا، دل کب ناامید ہوا

آن کے اس بیمار کو دیکھے، تجھ کو بھی توفیق ہوئی
لب پر اس کے نام تھا ترا، جب بھی درد شدید ہوا

ہاں اس نے جھلکی دکھلائی، ایک ہی پل کودریچےمیں
جانو اک بجلی لہرائی، عالم ایک شہید ہوا

تو نےہم سےکلام بھی چھوڑا، عرضِ وفا کے سنتے ہی
پہلے کون قریب تھا ہم سے، اب تو اور بعید ہوا

دنیا کے سب کاج چھوڑے، نام پہ ترے انشا نے
اور اسے کیا تھوڑے غم تھا؟ تیرا عشق مزید ہوا
ابھی ہماری محبت کسی کو کیا معلوم
ابھی ہماری محبت کسی کو کیا معلوم
کسی کے دل کی حقیقت کسی کو کیا معلوم

یقیں تو یہ ہے وہ خط کا جواب لکھیں گے
مگر نوشتۂ قسمت کسی کو کیا معلوم

بظاہر ان کو حیا دار لوگ سمجھے ہیں
حیا میں جو ہے شرارت کسی کو کیا معلوم

قدم قدم پہ تمہارے ہمارے دل کی طرح
بسی ہوئی ہے قیامت کسی کو کیا معلوم

یہ رنج و عیش ہوئے ہجر و وصل میں ہم کو
کہاں ہے دوزخ و جنت کسی کو کیا معلوم

جو سخت بات سنے دل تو ٹوٹ جاتا ہے
اس آئینے کی نزاکت کسی کو کیا معلوم

کیا کریں وہ سنانے کو پیار کی باتیں
انہیں ہے مجھ سے عداوت کسی کو کیا معلوم

خدا کرے نہ پھنسے دام عشق میں کوئی
اٹھائی ہے جو مصیبت کسی کو کیا معلوم

ابھی تو فتنے ہی برپا کئے ہیں عالم میں
اٹھائیں گے وہ قیامت کسی کو کیا معلوم

جناب داغؔ کے مشرب کو ہم سے تو پوچھو
چھپے ہوئے ہیں یہ حضرت کسی کو کیا معلوم
Ibtida Se Hum Zaif o Natawan Paida Hue
Ibtida Se Hum Zaif-O-Natawaan Paida Hue
Ud Gaya Jab Rang Rukh Se Ustukhwaan Paida Hue

Khaaksaari Ne Dikhaayi Rifaton Par Rifaten
Iss Zameen Se Waah Kya Kya Aasmaan Paida Hue

Ilm Khaaliq Ka Khazaana Hai Miyaan-E-Kaaf-O-Nun
Ek Kun Kahne Se Ye Kaun-O-Makaan Paida Hue

Zabt Dekho Sab Ki Sun Li Aur Kuchh Apni Kahi
Iss Zabaan-Daani Par Aise Bezabaan Paida Hue

Shor-Bakhti Aayi Hisse Mein Unhin Ke Wa Naseeb
Talkh-Kaami Ke Liye Sheerin-Zabaan Paida Hue

Ehtiyaat-E-Jism Kya Anjaam Ko Socho ‘Anees
Khaak Hone Ko Ye Musht-E-Ustukhwaan Paida Hue

Urdu Poetry, Shayari & Ghazal

Urdu Shayari is a cherished tradition that has been passed down through generations, celebrated for its elegance and emotional depth. Urdu, with its lyrical quality and vocabulary drawn from Persian, Arabic, and Turkish, is considered one of the most expressive languages in the world.