نومولود بچوں کا مفت علاج ۔۔ بچوں کی بیماری کا وہ مہنگا ترین علاج، جو اب مفت کیا جائے گا

ہماری ویب  |  Jul 27, 2022

سوشل میڈیا پر ایسی کئی معلومات ہوتی ہیں جو کہ سب کی توجہ حاصل کر لیتے ہیں، لیکن کچھ ایسی ہوتی ہیں جس کے بارے میں والدین خاص توجہ دیتے ہیں۔

ہماری ویب ڈاٹ کام کی اس خبر میں آپ کو نومولود بچوں کے بارے میں بتائیں گے۔

دنیا میں ایسے کئی بیماریاں ہیں، جن میں نومولود بچے مبتلا ہو جاتے ہیں، کچھ تو ہلکی بیماریاں ہوتی ہیں، جن کا علاج بھی ہر انسان کی پہنچ تک ہوتا ہے، لیکن کچھ جو انتہائی خطرناک بیماریاں ہیں، ان کا علاج کرانا بھی آسان نہیں۔

ایسی ہی ایک بیماری ہے پروگریسو ڈس آرڈر جس کا شکار نومولود بچوں کا جسم کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، یا یہ کہا جائے کہ بچے اپنے جسم پر سے اختیار کھتے جاتے ہیں۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ہر سال تقریبا 40 بچے اس خطرناک بیماری کا شکار ہوتے ہیں، جسے اسپائنل میسکولر ایٹروفی کا نام دیا گیا ہے، ایسے نومولود بچوں کا اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو 2 سے 3 سال ہی زندہ رہ پاتے ہیں۔

لیکن ایک برطانوی طبی اداراہ ایسا بھی ہے کہ اس خطرناک بیماری کا مفت علاج کرتا ہے، حالانکہ اس بیماری کے علاج میں 18 لاکھ پاؤنڈ یعنی 50 کروڑ سے زائد پاکستانی روپے بنتے ہیں۔

اس بیماری کا شکار ایک ایسا ہی نومولود بچہ آرتھر ہے، جسے بازوؤں اور پیروں کو حرکت دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ حتیٰ کہ آرتھر اپنا سر بھی خود نہیں ہلا سکتا ہے۔ اگرچہ پہلے ہی اسے نقصان ہو چکا ہے، مگر اب اس علاج کے بعد اسے مزید نقصان سے بچایا جا سکتا ہے۔

مہنگا ترین علاج لندن کے نیشنل ہیلتھ سروس کی جانب سے شروع کیا گیا ہے، جس میں زولجینسما کے ذریعے بچوں کی بیماری کو کم کرنے میں مدد دی جا سکے گی۔ اس بیماری کے علاج میں کروڑوں کا خرچہ آتا ہے۔

زولجینسما ایک ڈوز ہے جس میں اس گمشدہ یا ناقص جین کی صحت مند کاپی موجود ہوتی ہے جسے ایس ایم این 1 کہتے ہیں، اسے ایک بے ضرر وائرس میں ڈالا جاتا ہے، اور پھر جسم میں داخل ہو کر وائرس متبادل جین کو موٹر نیورون خلیوں کے نیوکلیئس میں پہنچا دیتا ہے۔ خلیوں کو آہستہ آہستہ تباہ ہونے سے بچانے کے لیے یہ ضروری ہے۔

اب صحت مند موٹر نیورون خلیے اس ایس ایم این پروٹین کو تیار کرنا شروع کر دیتے ہیں جو پہلے موجود نہیں تھی اور جو پٹھوں کے کام کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ رپورٹ بی بی سی کی جانب سے پبلش کی گئی تھی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More