’جناح انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی‘ کا نام مریم نواز کے نام پر رکھنے کا اعلان واپس لے لیا گیا؟

اردو نیوز  |  Jul 01, 2025

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سرکاری اداروں، منصوبوں اور مقامات کے نام سیاست دانوں سے منسوب کرنے کی روایت کافی پرانی ہے۔

حال ہی میں پنجاب حکومت نے لاہور کے جناح انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا نام تبدیل کر کے ’مریم نواز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو ویسکیولر ڈیزیزز‘ رکھ دیا ہے، جس پر سیاسی حلقوں اور سوشل میڈیا پر حکومت کو تنقید کا سامنا ہے۔ اس کے بعد پنجاب کی سینیئر وزیر مریم اورنگزیب نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم (ایکس) پر اس بات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ حکومت یہ نام تبدیل نہیں کر رہی۔

تاہم، 24 گھنٹے تک میڈیا پر جاری رہنے والے اس معاملے نے ایک بار پھر اس بحث کو جنم دیا ہے کہ پاکستان میں سیاست دانوں کے نام پر سرکاری اداروں کے نام رکھنے کی روایت کب سے شروع ہوئی، اس کے کیا مقاصد ہیں، اور اس سے سیاسی منظرنامے پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

اس سیاسی روایت کا آغازپاکستان میں سرکاری اداروں اور منصوبوں کے نام سیاست دانوں سے منسوب کرنے کی روایت ستر کی دہائی سے شروع ہوئی، جب پاکستان پیپلز پارٹی  کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دورِ اقتدار (1971-1977) میں کئی منصوبوں کو قومی شخصیات کے ناموں سے جوڑا۔

تاہم، یہ روایت 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں عروج پر پہنچی جب پی پی پی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنے رہنماؤں کے ناموں کو سرکاری منصوبوں سے منسوب کرنا شروع کیا۔

ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلز پارٹی کا کردار

پیپلز پارٹی نے سندھ میں کئی اداروں کے نام اپنے رہنماؤں کے نام پر رکھے، جیسے کہ ’شہید محترمہ بینظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی‘ (1973 میں قائم سابقہ چانڈکا میڈیکل کالج)۔

چانڈکا میڈیکل کالج سندھ کا پہلا میڈیکل کالج تھا جس کی بنیاد خود ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی تھی۔

2008  میں اس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے سندھ اسمبلی سے ایک بل کے ذریعے نہ صرف اسے یونیورسٹی میں تبدیل کیا بلکہ اس کا نام بھی تبدیل کر دیا۔ یونیورسٹی کے پراسپیکٹس کے مطابق اس کے اندر کئی کالجز شامل ہیں، جن میں سے ایک ’بی بی آصفہ ڈینٹل کالج‘ بھی ہے۔

سندھ میں دیگر ادارے بھی پیپلز پارٹی نے سابق وزیر اعظم کے نام سے منسوب کیے، جیسے کہ ’بینظیر بھٹو میڈیکل کالج لیاری‘ اور ’بینظیر بھٹو یونیورسٹی نوابشاہ۔‘

بینظیر بھٹو کے نام سے منصوبےسال 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے ’بینظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ متعارف کرایا، جو پاکستان کا سب سے بڑا سماجی تحفظ کا پروگرام ہے۔ اس پروگرام کا نام بینظیر بھٹو کی 2007 میں شہادت کے بعد ان کی یاد میں رکھا گیا۔

یہ پروگرام غریب خاندانوں کو مالی امداد فراہم کرتا ہے اور پی پی پی کی بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کا نام بینظیر سے منسوب کرنا سیاسی فائدے کی کوشش تھی، کیونکہ اس سے پارٹی کی وفاداری کو مضبوط کرنے میں مدد ملی۔

اسی لیے عمران خان نے اپنے دورِ اقتدار میں اس نام کو تبدیل کرکے احساس کفالت پروگرام رکھا گیا اور اس کا سکوپ بڑھایا گیا۔ تاہم پی ٹی آئی کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو دوبارہ بحال کیا۔

اسلام آباد کا پرانا ایئرپورٹ، جو چکلالہ راولپنڈی میں واقع تھا، 21 جون 2008 کو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بینظیر بھٹو کے نام سے منسوب کیا۔

اسی طرح راولپنڈی جنرل ہسپتال کو بھی بینظیر بھٹو کے نام پر رکھا گیا۔ پیپلز پارٹی نے 2008 کے دورِ حکومت میں ملک بھر میں کئی سرکاری عمارتوں اور منصوبوں کو بینظیر بھٹو سے منسوب کیا۔

ن لیگ اور پنجاب میں نام کی سیاستپنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنے رہنماؤں کے نام پر ادارے اور منصوبے منسوب کرنے کی روایت کو فروغ دیا، جیسے کہ پیپلز پارٹی نے وفاق اور سندھ میں کیا تھا۔

نواز شریف کے تینوں ادوارِ اقتدار میں پنجاب میں کئی منصوبے ان کے خاندان سے منسوب کیے گئے، جیسے

نواز شریف ہسپتال (لاہور)،  شہباز شریف ڈی ایچ کیو ہسپتال (ملتان)، نواز شریف ایگریکلچرل یونیورسٹی (ملتان)، شہباز شریف مدر اینڈ چائلڈ کمپلیکس (شیخوپورہ) اور متعدد سڑکیں اور بائی پاس منصوبے بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔

مریم نواز کا عروجمریم نواز کے 2024 میں وزیراعلیٰ پنجاب بننے کے بعد، یہ سلسلہ نئی بلندیوں کو چھونے لگا۔ انہوں نے پنجاب کے سب سے بڑے آئی ٹی منصوبے کا نام اپنے والد کے نام پر ’نواز شریف آئی ٹی سٹی‘ رکھ دیا، جو تیزی سے تکمیل کے مراحل میں ہے۔

اب یہ خبر سامنے آئی کہ ’جناح انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی‘ کا نام تبدیل کر کے ’مریم نواز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو ویسکیولر ڈیزیزز‘ رکھ دیا گیا ہے، تاہم اس کی بعد ازاں تردید کر دی گئی۔

یاد رہے کہ جناح ہسپتال پنجاب کے بڑے ہسپتالوں میں شمار ہوتا ہے۔ 2023 میں اس وقت کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی نے اسی ہسپتال کے اندر ایک الگ ادارے کی بنیاد رکھی، جس کا نام ’جناح انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی‘ رکھا گیا۔

تردید اور وضاحتتردید سے قبل پنجاب کے وزیرِ صحت خواجہ سلمان رفیق نے بیان دیا کہ ’بلاوجہ بات کا بتنگڑ بنایا جا رہا ہے۔‘

’یہ ادارہ جناح اسپتال کے تحت آتا ہی نہیں ہے، اس کی ہر چیز الگ ہے۔ یہ ایک خودمختار ادارہ ہے، اس لیے اس کی پہچان الگ کرنے کے لیے اس کا نام تبدیل کیا گیا ہے۔‘

عمران خان اور پی ٹی آئی کا دورِ حکومتپاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے 2018 سے 2022 کے دورِ اقتدار میں کوئی بڑا سرکاری ادارہ یا منصوبہ عمران خان یا ان کے خاندان کے نام سے منسوب نہیں کیا گیا۔

پی ٹی آئی نے اپنی پالیسیوں میں سرکاری منصوبوں کو قومی شخصیات یا غیر سیاسی ناموں سے منسوب کرنے کو ترجیح دی۔

راولپنڈی جنرل ہسپتال کو بھی بینظیر بھٹو کے نام پر رکھا گیا۔ (فوٹو: ایکس)مثال کے طور پر ’احساس پروگرام‘، جو پی ٹی آئی کی اہم کامیابی سمجھا جاتا ہے، کو غیر سیاسی نام دیا گیا۔

خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت نے ہسپتالوں اور منصوبوں کے نام تاریخی و مقامی شخصیات سے منسوب کیے، جیسے ’لالہ رحمت اللہ اسپتال‘۔

یہ پالیسی پی ٹی آئی کے ’غیر روایتی سیاست‘ کے بیانیے سے مطابقت رکھتی تھی۔

تاہم، حال ہی میں خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ’ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم‘ کا نام تبدیل کر کے ’عمران خان کرکٹ سٹیڈیم‘ رکھ دیا، جس پر انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

اسی طرح، چوہدری پرویز الٰہی نے بھی اپنے دورِ اقتدار میں کئی منصوبے اور عمارتیں اپنے نام سے منسوب کیں۔

عدالتی مؤقفسیاست دانوں کے نام پر سرکاری اداروں کا نام رکھنا ہمیشہ سے متنازع رہا ہے۔ 2017 میں سندھ ہائی کورٹ نے ایک فیصلے میں کہا کہ سرکاری اداروں کے نام صرف قائداعظم، تحریکِ پاکستان کے رہنماؤں، شہداء، یا تاریخی مسلم شخصیات کے نام پر رکھے جا سکتے ہیں۔

عدالت نے واضح کیا کہ موجودہ سیاست دانوں یا ان کے خاندان کے ناموں کا استعمال غیر مناسب ہے، کیونکہ یہ عوامی وسائل سے بننے والے اداروں کو ذاتی تشہیر کے لیے استعمال کرنے کے مترادف ہے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More