ایک بیٹے کے کندھے پر جب والد کا ہاتھ ہوتا ہے تو وہ سوچتا ہے کہ وہ آسانی سے کے ٹو پہاڑ پر بھی چڑھ سکتا ہوں ۔کیو نکہ والد خود تو تکلیف برداشت کر لیتا ہے پر بیٹے کی آنکھ میں آنسو برداشت نہیں کر سکتا۔ ایسا ہی کچھ پی ایس ایل سے مشہور ہونے والے غریب کھلاڑی احسان اللہ کی کہانی بھی ہے۔
جنہیں آج پورے پی ایس ایل کا پلئیر آف ٹورنامنٹ کا اعزا دیا گیا ہے۔ اس موقعے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مجھے کپتان رضوان اور کوچز جیسے سمجھاتے ہیں بالکل ویسے ہی کرتا ہوں ، اور آج جس مقام پر کھڑا ہوں اللہ پاک کا کرم ہے۔ اس کے بعد یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اپنی یہ کامیابی والد صاحب کے نام کرتا ہوں۔
کیونکہ انہوں نے میرے لیے بہت محنت کی ہے۔یہاں آپکو بتاتے چلیں کہ احسان اللہ ایک پٹھان فیملی سے تعلق رکھتا ہے اور بہت غریب ہے لیکن ایک دن قسمت نے اس کے گھر پر خود دستک دی۔ ہوا کچھ یوں کہ احسان کے ماموں کو آ کر بتایا گاؤں کے لوگوں نے کہ آپکا لڑکا بہت اچھا کھلاڑی ہے، اسے اکیڈمی میں داخل کراؤ آپ۔
یہ بات ان کے ماموں نے ان کے والد سے کہی مگر اس وقت پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ان کے ماموں نے مردا کرکٹ اکیڈمی میں انہیں اپنے خرچے پر داخل کروایا ، جسکے بعد انہیں کچھ وقت بعد لاہور بھیج دیا گیا جہاں ان کے ٹیلنٹ کو مزید نکھارا گیا ۔