انسٹاگرام اور ٹک ٹاک بینکنگ نظام کے لیے کیسے خطرہ بن رہے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Mar 30, 2023

Getty Images

فلم ’میری پوپنز‘ میں نو سالہ مائیکل بینکس اس وقت حادثاتی طور پر بینک چلانا شروع کرتے ہیں جب وہ دو پینس کے سکے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

سنہ 2007 میں ایسی ہی صورتحال پیدا ہوئی، جب بینک ناردرن راک کی شاخوں کے باہر ہجوم دیکھا گیا اور یوں 08-2007 کے مالیاتی بحران کا آغاز ہوا۔

اس کے ایک برس بعد بینک بریڈفورڈ اینڈ بنگلے پر بھی برا وقت آیا اور بینک آف انگلینڈ کے اہلکاروں کو اس کی شاخوں کے باہر نگرانی کرتے دیکھا گیا لیکن تاہم وہاں لوگوں نے قطاریں نہیں لگائیں۔

تاہم اب بینکوں کی صورتحال میں تبدیلی آ رہی ہے اور اس قسم کی گھبراہٹ طاری ہونے پر صورتحال کو قابو کرنا مشکل ہو رہی ہے۔

میں نے اس بارے میں اکثر سوچا ہے کہ اگر 08-2007کا بحران ٹوئٹر، فیس بک، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک کے زمانے میں آیا ہوتا تو کیا صورتحال ہوتی۔

رواں ماہ میں بینکوں کو پیش آنے والے بحران کے باعث اس سوال کا بالواسطہ جواب جاننے میں مدد مل رہی ہے۔

امریکہ کے مرکزی بینک جیروم پاول کے مطابق سلیکون ویلی بینک امریکی کی تاریخ کا تیز ترین بینک ہے۔ ان کے وائس چیئرمین مائیکل بار نے امریکی سینیٹ کو گذشتہ روز بتایا تھا کہ ’سوشل میڈیا پر یہ افواہ اڑی کہ اس بینک کو بھی بحران کا سامنا ہو سکتا ہے اور ایسے افراد جنھوں نے بینک میں انشورنس کے بغیر رقم رکھوائی تھی، انھوں نے فوری طور پر رقم نکلوانے میں ہی عافیت جانی اور ایک دن میں 40 ارب ڈالر بینک سے نکلوا لیا گیا۔‘

اگلے روز بینک ایس وی بی کو ’اس سے بھی زیادہ رقم کے انخلا کا ڈر تھا‘ اور یوں جن افراد نے رقم رکھوائی ہوئی تھی ’ان میں واضح گھبراہٹ پائی گئی۔‘

یہ رقوم ہوش اڑا دینے والی ہیں اور یہ ایک براعظم سے دوسرے تک بھی پہنچی۔ بینک آف انگلینڈ نے پیر کو اپنے اراکینِ پارلیمان کو بتایا کہ ایس وی بی برطانیہ سے لوگوں نے ایک ہی دن میں تین ارب پاؤنڈ یا یہاں موجود 30 فیصد رقم نکلوا لی ہے۔

بینک آف انگلینڈ کے گورنر اینڈریو بیلے نے اس ہفتے کے شروع میں کہا تھا کہ ’سلیکون ویلی بینک سے جو سبق ہم سیکھ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے زمانے میں کتنی تیزی سے لوگ رقوم بینکوں سے نکلوا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیجیٹل بینکنگ کے دور میں سوشل میڈیا کو کس طرح خسارے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ 15 سال قبل ناردرن راک کے باہر لگی قطار سے بہت مختلف ہے۔‘

Getty Images100 میٹر سپرنٹ

اینڈریو بیلے نے بینکوں کے تحفظ سے متعلق قوانین تبدیل کرنے کے بارے میں بھی بات کی تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ آیا وہ ’اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں یا نہیں۔‘

یہ صورتحال دراصل انٹرنیٹ بینکنگ اور سوشل میڈیا کے ملاپ کے باعث پیدا ہوتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے نظام جو بھروسے، اعتماد اور یقین پر بنائے گئے تھے اب انہی کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔

میسجنگ ایپس واٹس ایپ اور سلیک پر ٹیکنالوجی کے شعبے کے بڑے نام بھی کمپنیوں کو اپنی رقم نکلوانے کے مشورے دیتے دکھائی دیتے ہیں۔

ایس وی بی کے ساتھ جو ہوا وہ دراصل 100 میٹر ورلڈ ریکارڈ اولمپک بینک سپرنٹ تھی۔ جہاں ایس وی بی کی اپنی مخصوص صورتحال تھی اور اس میں رقم رکھنے والے ایک ہی صنعت سے تعلق رکھتے تھے اور ان میں سے اکثر کی رقوم انشورنس شدہ نہیں تھیں اس لیے اس حوالے سے خدشات وسیع پیمانے پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔

اہم سوشل میڈیا ویب سائٹس پر ’بینک رن‘ کے نام سے کی جانے والی سرچ میں گذشتہ دو ہفتوں کے دوران مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مشہور افراد نے صارفین کو بینکوں سے رقوم نکلوانے کی تجویز دی تھی۔

اس کی ایک وجہ عام ماہرِین پر اعتماد کی کمی اور کرپٹو کرنسی کے حوالے سے مہارت رکھنے والوں پر یقین ہے۔ بٹ کوائن اور کرپٹو کی کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عام بینکنگ پر آن لائن بہت زیادہ تنقید کی جاتی رہی ہے۔ اس وقت ایسے افراد اکثریت میں موجود ہیں جو سنہ 2008 کے مالیاتی بحران کے دوران موجود نہیں تھے۔

Getty Imagesبٹ کوائن اور کرپٹو کی کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عام بینکنگ پر آن لائن بہت زیادہ تنقید کی جاتی رہی ہے

اس سب کے دوران جس بات نے چیزوں کو مزید پیچیدہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ میں بینکوں میں رقوم رکھوانے کی گارنٹی میں کیا شامل ہوتا ہے اور کیا نہیں۔ اس بات کو یوں کہیں تو ٹھیک رہے گا کہ سوشل میڈیا پر بد اعتمادی کی فضا کے باعث بھروسے پر چلنے والے نظام کی کمزوری عیاں ہوئی ہے۔اس لیے اس بارے میں انتظامی ردِ عمل دینے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔

بینک آف انگلینڈ کے ریگولیٹر پروڈینشل ریگولیشن اتھارٹی کے سربراہ سام وڈز نے گذشتہ روز اراکینِ پارلیمان کوبتایا کہ انھیں بینکوں سے رقوم کے انخلا کی رفتار کے حوالے سے اپنے خیالات کو تبدیل کرنا ہو گا۔

’لکویڈٹی کوریج ریشو‘ کے مطابق بینک ایک ماہ کے عرصے میں صرف صفر سے 20 فیصد ریٹیل ڈپازٹ یا 20 سے 40 فیصد کارپوریٹ ڈپازٹس کھو سکتا ہے۔

یہاں یہ یاد دہانی کروانا بھی ضروری ہے ایس وی بی برطانیہ نے ایک دن میں 30 فیصد ڈپازٹ کھوئے تھے۔ موجودہ اصولوں میں ترمیم کیے جانے کا امکان ہے لیکن اس کا نقصان یہ ہو گا کہ اس طرح بینکوں کی معاشی قرضے دینے کی قست میں کمی آ جائے گی۔

شاید یہ ایس وی بی کے خصوصی کیس پر آنے والا ردِ عمل ہے۔ یہ توازن برقرار رکھنے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔ دیگر نگران ادارے بھی اس حوالے سے ترمیم کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اس حوالے سے تنقید بالکل جائز ہے لیکن اس وقت یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ کاروبار بینکنگ کی سہولت استعمال کر سکتے ہیں اور ان کے ذریعے تنخواہیں جاری کر سکتے ہیں اور درجنوں بینک اکاؤنٹس کے ذریعے اپنے ڈپازٹ محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

اچھی خبر یہ ہے کہ برطانیہ کا ریگولیٹری نظام فی الحال اچھا کام کر رہا ہے تاہم ہم جس طرح بینکوں کے تحفظ کو ناپنے لگے ہیں اس میں رواں ماہ کے ’انسٹا رن‘ کے باعث تبدیلی آ سکتی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More