خیرپور: جب تین بچوں کے مبینہ ریپ کے ملزم استاد کو قرآن پر معافی ملی

بی بی سی اردو  |  May 29, 2023

BBCفیصلے میں ملزم کی شناخت نہ ہونے کی بنا پر اس کیس کو ’بہت مشکوک‘ قرار دیا گیا، عدالت نے سرکاری گواہوں کے بیانات کو بھی ’پراعتماد‘ قرار نہیں دیا

انتباہ: اس تحریر میں درج تفصیلات چند قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔

چند ہفتے قبل پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع خیرپور کی جیل سے بری ہونے والے ایک شخص کی تصاویر وائرل ہوئی تھیں جس نے نوٹوں کا ہار پہنا ہوا تھا اور وہ بچوں میں پیسے تقسیم کر رہا تھا۔

یہ 63 سالہ شخص اندرون سندھ کے ایک چھوٹے سے شہر ٹھری میرواہ میں ایک سکول میں استاد تھا اور یہ تین بچوں کو تین برس قبل مبینہ طور پر ریپ اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزام میں بری ہو رہا تھا۔

متاثرہ بچوں کے خاندان کی جانب سے استاد کو ’قرآن پر معافی‘ دی گئی تھی جبکہ سیشن عدالت نے اس واقعے کی ویڈیوز اور تصاویر کی موجودگی کے باوجود ’کمزور تحقیقات‘ کو بنیاد بنا کر شک کا فائدہ دیتے ہوئے انھیں بری کر دیا تھا۔

ٹھری میرواہ کی ایک خاتون جن کی شناخت ظاہر نہیں کی جا رہی، نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس کے گھر کی خواتین روزانہ ہمارے گھر قرآن لے کر آ جاتی تھیں اور ایک نہیں چار، چار خواتین کے ہاتھوں میں قرآن ہوتے تھے۔ بس اس لیے ہم نے معاف کر دیا۔‘

سوشل میڈیا پر شدید تنقید اور عوامی ردعمل کے بعد عدالتی فیصلے کے خلاف حکومتِ سندھ کی جانب سے درخواست دائر کر دی گئی ہے جبکہ سندھ ہائیکورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس بھی لے لیا ہے۔

اس درخواست کے مندرجات جاننے سے قبل یہ جان لیتے ہیں کہ آغاز میں درج کروائی گئی ایف آئی آر سے ہمیں اس معاملے کے بارے میں کیا معلوم ہوتا ہے، یہ کیس کمزور کیسے اور بریت کن وجوہات پر کی گئی۔

بھولا بسرا کیس جس میں رواں برس تیزی آ گئی

معاملے کا آغاز آج سے تین برس قبل ہوتا ہے جب جولائی 2020 میں ٹھری میرواہ کے تھانے میں تین مقدمات درج کروائے گئے تھے۔

ایف آئی آرز کے مطابق 11، 12 اور 15 برس کے بچوں کا انھیں ٹیوشن پڑھانے والے استاد نے مبینہ طور پر ریپ کیا تھا۔

پولیس کی ایف آئی آر میں ان معاملات کو ریپ، جنسی ہراسانی اور سائبر کرائم سے متعلقہ دفعات کے تحت درج کیا گیا اور بعد میں اس میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ سیون اے ٹی اے کا بھی اضافہ کیا گیا۔

اس سلسلے کی پہلی درخواست مدعی نے اپنے 11 سالہ بچے کے مبینہ ریپ کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد درج کروائی تھی اور اس میں جنسی زیادتی کے الزامات کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا تھا کہ ملزم بچوں سے جنسی فعل کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کی دھمکیاں بھی دیتا تھا۔

ایک ایف آئی آر کے مطابق بچے نے بتایا کہ ’استاد نے اس سے کئی بار بدفعلی کی۔‘ ایک والد نے بتایا کہ وہ ’عزت کی خاطر اس سے پہلے خاموش رہے۔‘

ایک والد کی جانب سے دائر درخواست کے مطابق ’وہ (استاد) ایک نہیں پڑوس کے کئی بچوں کے ساتھ ایسا کر چکا ہے ان کی ویڈیوز بھی بنائی ہیں جس کی وجہ سے علاقے میں خوف و ہراس ہے۔‘

ملزم کو ایف آئی آر کے اندراج کے دو روز بعد 17 جولائی 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا۔

وکلا کے مطابق ویڈیو ثبوتوں کی موجودگی میں یہ بظاہر ایک مضبوط مقدمہ معلوم ہو رہا تھا اور مقامی صحافیوں کے لیے یہ ایک بھولا بسرا کیس بن چکا تھا لیکن پھر رواں سال اس مقدمے کی سماعتوں میں اچانک تیزی آ گئی۔

BBC تھانہ میر واہ کے ایس ایچ او کے مطابق ’یہ درست ہے کہ بری ہونے کے بعد ہم نے ملزم کو تھانے بلایا تھا لیکن ہم نے اسے گرفتار نہیں کیا۔ ہم نے اسے یہ پوچھنے کے لیے بلایا تھا کہ کیا اسے کوئی خطرہ تو نہیں یا سکیورٹی چاہیے تو اس نے کہا نہیں اور وہ چلا گیا۔‘ بریت کن بنیادوں پر ہوئی؟

سندھ کے ضلع خیر پور کی سیشن کورٹ میں 27 اپریل کی سہ پہر جج ثمینہ منگی کی عدالت میں یہ فیصلہ سنایا جانا تھا۔ اس وقت وہاں موجود کچھ افراد نے مجھے بتایا کہ جب ملزم کی بریت کا فیصلہ سنایا گیا تو عدالت میں بہت خاموشی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ ’مدعی نے کیس کے فیصلے پر کوئی ردعمل نہیں دیا، فریقین آئے اور چلے گئے بلکہ وہ تو آپس میں بات چیت بھی کر رہے تھے جیسے کوئی مسئلہ ہی نہ ہوا ہو۔‘

جج نے فیصلے میں لکھا کہ ’میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ پراسیکیوشن ملزم کے خلاف الزامات کو ثابت کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ اس لیے انھیں شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کرتی ہوں۔‘

لیکن فیصلے کے مطابق اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر گل میر میتلو نے کہا کہ ’لگتا ہے کہ مدعی اور گواہان کی ملزم کے ساتھ عدالت کے باہر مفاہمت ہو گئی ہے۔‘

فیصلے کے مطابق مدعی کے وکیل راجہ وسیم کہتے ہیں کہ ’مدعی اورگواہان نے ملزم کو واقعے کے وقت شناخت نہیں کیا، ملزم کو (واقعے میں) ملوث نہیں قرار دیا۔‘

فیصلے میں ملزم کی شناخت نہ ہونے کی بنا پر اس کیس کو ’بہت مشکوک‘ قرار دیا گیا، عدالت نے سرکاری گواہوں کے بیانات کو بھی ’پراعتماد‘ قرار نہیں دیا۔

خیال رہے کہ مقدمے کے دوران پراسیکیوٹر کو کراس ایگزیمن کرنے یعنی جرح کرنے کا حق تو دیا گیا لیکن متاثرہ بچے اور دیگر گواہان جن کا بیان 161 کے تحت ہوا تھا ان پر جرح کی اجازت نہیں دی گئی۔

عدالت کا مؤقف ہے کہ ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ ’پراسیکیوٹر ان گواہان اور متاثرین کو ہوسٹائل قرار دے چکے تھے۔‘

درخواست گزاروں نے جہاں عدالت میں نامزد ملزم کی شناخت کرنے سے انکار کیا اور اسے ایف آئی آر میں نامزد کرنے سے بھی انکار کیا وہاں یہ ضرور تسلیم کیا کہ انھوں نے اسی عدالت میں ملزم سے مفاہمت کی درخواست دائر کی تھی۔

فیصلے میں کیس کے دونوں تفتیشی افسران کے کراس ایگزیمینیشن پر بھی سوال اٹھایا گیا۔ یہ بھی نکتہ اٹھایا گیا کہ تفتیشی افسر نے ایسی کوئی انٹری نہیں لکھی جس میں بتایا ہو کہ انھوں نے یو ایس بی میں موجود ویڈیو چلائی، جسے انھوں نے بطور ثبوت پیش کیا ہے۔

کیس کمزور کیسے ہوا؟

خیال رہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے سنہ 2021 میں اس مقدمے میں اے ٹی سی کی دفعہ ہٹانے کی درخواست مسترد کی جا چکی تھی تاہم ایک برس بعد 14 دسمبر 2022 کو سندھ ہائی کورٹ کی کراچی رجسٹری نے کیس کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے ہٹا کر سیشن عدالت میں سننے کا حکم دیا تھا۔

بی بی سی کو پولیس حکام نے ان تینوں کیسز کی فائلز تک رسائی دی۔ان سے معلوم ہوا کہ سات اگست تک تینوں بچوں کے ڈی این اے کے نمونے جامشورو لیبارٹری بھجوائے جا چکے تھے۔

تاہم انسداد دہشت گردی کے پراسیکیوٹر کو دو ماہ بعد، یعنی سات اکتوبر کو تحقیقاتی رپورٹ بھجوائی گئی اور بتایا گیا کہ گواہوں کے بیانات اور ویڈیوز کو پیش نہیں کیا گیا، نہ ہی ڈی این اے کی رپورٹ پیش کی گئی اور نہ ہی ملزم کے فون کا فرانزک کروایا گیا۔

میڈیکولیگل افسران کی جانب سے تینوں بچوں کے معائنے کے بارے میں یہ بتایا گیا کہ ان کے ساتھ ریپ کے شواہد نہیں ملے اور تنیوں بچوں کی ڈی این اے کی رپورٹ بھی منفی آئی۔

اس دوران پرائیویٹ گواہ اپنے بیان سے مکر گئے۔ کچھ نے کہا کہ ’ہم سے تو سادہ کاغذ پر دستخط کروائے گئے، ہمیں نہیں معلوم اس واقعے کے بارے میں۔۔۔ ہم عدالت میں موجود اس شخص کو نہیں جانتے۔‘

مدعی نے بھی ملزم کو شناخت نہ کیا، انھوں نے کہا ’ہم نے اسے نامزد نہیں کیا تھا، بچوں سے بدفعلی نامعلوم شخص نے کی۔ پولیس نے اس کا نام خود شامل کیا۔‘

خود متاثرہ بچوں نے اپنے مختصر بیانات میں عدالت میں موجود ملزم کو شناخت نہیں کیا، تینوں بچوں نے تین سطروں پر مشتمل ایک جیسے بیان دیے۔

سیشن جج خیرپور ثمینہ منگی کی عدالت میں مبینہ طور پر ریپ سے متاثرہ ایک بچے نے بیان میں کہا کہ ’ایک نامعلوم شخص نے میرے ساتھ ’کارنل انٹرکورس‘ کیا اور میرے والد نے ایف آئی آر رجسٹر کروائی۔ عدالت میں موجود ملزم وہ نہیں جس نے میرے ساتھ انٹرکورس کیا تھا اور میں اسے نہیں پہچانتا۔‘

Getty Imagesجب عدالت نے فرانزک کروانے کی اجازت نہ دی

رواں برس دو مارچ کو اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر نے ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں ایک درخواست دائر کی کہ یو ایس بی، جس میں بچوں کے مبینہ ریپ اور جنسی استحصال کے ویڈیو کلپس موجود ہیں، اس کا فرانزک کروایا جائے تاہم پولیس ریکارڈ میں وہ درخواست بھی دکھائی دی جو ملزم کے وکیل نے کی تھی۔

عدالت سے کہا گیا کہ ’یہ کیس دو سال سے زیادہ پرانا ہے۔ یو ایس بی کی فرانزک کروانا تفتیشی افسر کا کام تھا۔ اب جبکہ تحقیقات پوری ہو چکی ہیں، گواہان کی حاضری ہے ایسے میں پراسیکیوشن کی یہ درخواست کیس میں موجود نقائص کو دور کرنے کی کوشش ہے جس کی قانون میں اجازت نہیں۔‘

عدالت نے اس درخواست پر 13 اپریل کو فیصلہ دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا۔ یوں ویڈیو کا فرانزک ہی نہ ہو سکا۔

’اگر گواہ مکر جائیں، مدعی دلچسپی نہ لے تو کیا ہو سکتا ہے‘

کیس کے تفتیشی افسر دریا خان جتوئی اب ریٹائر ہو چکے ہیں۔ رابطہ کرنے پر انھوں نے کہا کہ ’دیکھیے اگر گواہ مکر جائیں، مدعی دلچسپی نہ لیں تو کیا ہو سکتا ہے، کچھ بھی نہیں۔‘

مگر آپ نے آخر یو ایس بی کا اور ملزم کے موبائل کا فرانزک کیوں نہیں کروایا تھا؟

جواب میں ابتدا میں انھوں نے کہا کہ ’مجھے یاد نہیں کہ میں نے فرانزک کے لیے بھجوایا یا نہیں‘ لیکن دوسری بار انھوں نے کہا کہ ’اس میں فرانزک کی ضرورت ہی نہیں تھی، وہ تو واضحتھا کہ اس ویڈیو میں ملزم ہے بچے کے ساتھ، یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوئی تھی تو اس میں تو کوئی ابہام نہیں تھا۔‘

سیشن کورٹ میں میری ملاقات کیس کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر گل میر میتلو سے ہوئی۔ میں نے ان سے پوچھاکہ اس کیس میں ناکامی کی وجہ کیا ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ کیس کی پہلی کمزوری تو ایف آئی آر کے اندراج میں ہے ’یہ اغوا اور ریپ کا کیس ہے لیکن اغوا کو اس میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’164 کے بیانات تو ہونے ہی نہیں دیے جاتے تھے، وکلا اور گرفتار استاد کے حامی رکاوٹ ڈالتے تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’کیس اپنی جگہ میرٹ پر موجود ہے لیکن واقعاتی شواہد کو نظر انداز کیا گیا، میڈیکل افسر نے اپنی رائے نہ دے کر سب کچھ آؤٹ کر دیا۔‘

’ہماری درخواست کے باوجود فرانزک نہیں کروایا گیا جبکہ سسٹم اس کو سپورٹ کرتا ہے جج کسی بھی وقت حکم دے سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جج نے درخواست گزاروں اور بچوں کو بھی بلایا تھا، جنھوں نے بتایا کہ ہمارا سمجھوتہ ہو گیا ہے۔‘

تو جب اس میں مفاہمت یا سمجھوتہ ہو نہیں سکتا تو پھر یہ کیسے ہوا؟

اس کے جواب میں پراسیکیوٹر گل میر میتلو نے مجھے بتایا کہ ’اس کی قانون میں سزا ایک سال ہے لیکن یہ ہوا ہے اور جج کے علم میں ہے۔‘

BBCخیر پور میں جنسی تشدد کے کیسز کی تعداد کس قدر ہے اس کا اندازہ پچھلے تین سال سے خیر پور میں صنفی تشدد کی الگ عدالت اور وہاں سنے جانے والے مقدمات کی تعداد سے لگایا جا سکتا ہے’ڈاکٹر کی رپورٹ ماہرانہ رائے پر مبنی نہیں لگتی‘

سیشن کورٹ جانے سے پہلے میں فریقین کے وکلا سے ملنا چاہتی تھی۔ ریٹائرڈ ٹیچر کے وکیل نے تو مجھ سے ملاقات کی لیکن مدعی کے وکیل بات کرنے سے گریزاں دکھائی دیے۔

وکیل صفائی مراد علی شاہ نے گفتگو میں یہ تو تسلیم کیا کہ ’یہ ایسا کیس ہے جس میں راضی نامہ نہیں ہو سکتا لیکن وہ تصدیق کرتے ہیں کہ راضی نامہ کورٹ سے باہر ہو چکا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ڈاکٹر نے کہا کہ اس نے رپورٹ پولیس کے کہنے پر لکھی تھی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ نہ تو ویڈیو کا فرانزک کروایا گیا اور نہ ہی ڈاکٹر نے شواہد دیے۔

مراد علی شاہ نے اپنی گفتگو میں جہاں پولیس کی کوتاہی اور ڈاکٹر کی رپورٹ میں کمزوری کی جانب اشارہ کیا وہیں وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پراسیکیوشن اب بھی اس کیس کے چند نکات کی بنا پر اسے جیت سکتی تھی۔

اس کیس میں میڈیکولیگل افسر کی رپورٹس کو دیکھ کر ایک سینئیر میڈیکولیگل افسر ڈاکٹر عابد کریم نے کہا کہ ’یہ ایک ماہر ڈاکٹر کی جانب سے لکھی جائزہ رپورٹ نہیں لگتی۔‘

ایک ڈاکٹر کی رپورٹ کتنی اہم ہوتی ہے اس پر بات کرتے ہوئے میڈیکولیگل آفسر ڈاکٹر عابد کریم نے مجھے بتایا کہ ’ڈی این اے کے لیے سیمپلنگ سے لے کر جسمانی جائزے تک ایک ڈاکٹر کے لیے مخصوص تربیت کا ہونا بہت ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں اس کے لیے خاص تربیت نہیں دی جاتی۔‘

بی بی سی نے ایم ایل او کی جانب سے لکھی گئی دستاویزات کی کاپی ایک اور سئنئیر میڈیکولیگل افسر سے شئیر کیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’جن ڈاکٹرزنے ان بچوں کا معائنہ کیا انھوں نے میڈیکولیگل سرٹیفکیٹ درست طریقے سے نہیں بنائے۔‘

’ان رپورٹس میں یہ نہیں لکھا گیا کہ کتنے گھنٹے بعد ان بچوں کا معائنہ کیا گیا بس یہ لکھنے پر بار بار اکتفا کیا گیا کہ وقت گزر گیا۔‘

ڈاکٹرز کا اس بات پر اکتفا ہے کہ سوڈومی ہونے کے 12 سے 24 گھنٹوں کے اندر ٹیسٹ کیا جائے تو درست نتائج آنے کے امکانات ہوتے ہیں تاہم ایک ماہر سرجن کی مدد سے جسم کے زیادہ اندر سے نمونے حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

تاہم رپورٹس کا جائزہ لینے والے ایک سینیئر ڈاکٹر نے بتایا کہ اس کیس میں ماہر سرجن کی مدد نہیں لی گئی۔

اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ان رپورٹس کا معائنہ کرنے والے ایک ڈاکٹر نے بی بی سی کو ایک بچے کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’میڈیکل افسر نے یہ لکھا کہ بچے کے مخصوص عضو کو چھونے پر اسے تکلیف ہوئی۔ یہ تو لکھا گیا ہے لیکن ان کیسز میں جنرل سرجن کی رہنمائی نہیں لی گئی۔ اگر ایسا کیا جاتا تو بچوں کو اندرونی طور پر آنے والی چوٹوں کے بارے میں جان کر ان کو تحریری رپورٹ میں لکھا جا سکتا تھا۔‘

سینیئر ڈاکٹر جن کا اس قسم کے دیگر کیسز میں متاثرین کا معائنہ کرنے کا اور رپورٹس تحریر کرنے کا کئی سال کا تجربہ ہے، کا مزید کہنا تھا کہ ’ایک رپورٹ میں ڈاکٹر نے ایک بچے کو معائنہ کرتے ہوئے ان کے چلنے میں تکلیف جسے میڈیکل کی اصطلاح میں ’گیٹ‘ کہا جاتا کے مثبت ہونے کا اشارہ تو دیا لیکن اس کو درست انداز میں تحریر نہیں کیا۔‘

میڈیکل افسر کی معائنہ رپورٹس کے بارے میں ایک ماہر ڈاکٹر کی رائے ہے کہ ’ان کیسز میں لگتا ہے کہ ڈاکٹرز نے اپنی رائے کو خود تک ہی محدود رکھا حالانکہ بچوں کے معائنےسے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ان کا ریپ (سوڈومی) ہوا۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ جیسے ڈاکٹر نے رپورٹ کی تحریر میں مکمل بیان نہیں دیا، اسی طرح عدالت نے بھی ڈاکٹرز کی رائے کو حکم ناموں کا حصہ نہیں بنایا۔‘

اگرچہ وکلا اور پراسیکیوٹر ڈاکٹر کی رپورٹ سے مطمئن نہیں لیکن ایک بچے کی جانب سے ڈاکٹر کو دیا گیا بیان اس تفصیل سے زیادہ ہولناک منظر کشی کر رہا ہے۔ ڈاکٹر کے مطابق ’بیان دینے والا بچہ کنفیوز نہیں بلکہ پر اعتماد تھا۔‘

Getty Imagesبری ہونے والا استاد کہاں ہے؟

ٹھری میرواہ میں الزامات سے بری ہونے والے استاد کے گھر کی گلی کا پتہ مجھے ایک راہگیر نے بتایا۔ چھوٹی سی کچی گلی کے اس بوسیدہ دروازے پر پردہ اٹھا کر دستک دی تو اندر بیٹھی خواتین نے مجھے آنے کی اجازت دی۔

ایک خاتون نے مجھے کہا ’ہم نے تو بس اس بارے میں سنا ہے، ہم نے خودویڈیو نہیں دیکھی۔ جب پولیس آئی تو ہم چھپ گئے۔ وہ ہماری ساس کو بھی ساتھ لے گئی تھی پھر چھوڑ دیا۔‘

وہ کہنے لگیں ’ہم نے بہت مشکل وقت کاٹا ہے ہمیں نہیں معلوم اس وقت ہمارے سسر کہاں ہیں۔‘

ان کے بیٹے نے مجھے فون پر بتایا کہ ’میں صحافی ہوں، میرے والد بھی صحافی ہیں یہ پولیس والے ہم سے دشمنی کر رہے ہیں۔‘

وہ کہنے لگے ’علاقے میں اس کیس کے بعد دو کیسز ہو چکے ہیں لیکن اس پر میڈیا نے رپورٹ کیوں نہیں بنائی؟ انھوں نے مجھے ایک ایف آئی آر اور کچھ تصاویر اور ویڈیوز بھی بھجوائیں لیکن اپنے والد کے خلاف وائرل ہونے والی ویڈیوز سے لاعلمی کا اظہار کیا۔‘

ان کا دعویٰ ہے کہ ’10 نامعلوم پولیس اہلکار والد کے بری ہونے کے دو دن بعد ان کے والد کو گھر سے لے کر گئے ہیں اور اب ان کا کچھ پتہ نہیں کہ پولیس نے انھیں کہاں رکھا ہوا ہے۔‘

میں اس رہائشی علاقے کے قریب تھانہ میر واہ گئی۔ تھانے کے ایس ایچ او جو قتل کے ایک مقدمے کی تفتیش میں مصروف تھے کہنے لگے ’یہ درست ہے کہ بری ہونے کے بعد ہم نے انھیں تھانے بلایا تھا لیکن ہم نے اسے گرفتار نہیں کیا تھا۔ ہم نے اسے یہ پوچھنے کے لیے بلایا تھا کہ کیا اسے کوئی خطرہ تو نہیں یا سکیورٹی چاہیے تو اس نے کہا نہیں اور وہ چلا گیا۔‘

قرآن پر معافی

عدالتی فیصلے میں جج نے سندھی زبان میں لکھی اس تحریر کا ذکر نہیں کیا جو تینوں متاثرہ بچوں کے والد نے الگ الگ سیشن جج ثمینہ منگی کو لکھی تھی۔

اس صلح نامے کی کاپی بی بی سی کو موصول ہوئی جس میں درج ہے کہ ’میں نے جوابدار استاد سے قرآن پاک پر صلح کی ہے۔ ہم ایک ہی شہر کے رہنے والے ہیں، اگر جوابدار کو رہا کیا جاتا ہے تو ہمیں کوئی بھی اعتراض نہیں ہو گا۔ جوابدار کو بالکل آزاد کیا جا سکتا ہے تاکہ انصاف کی فراہمی ہو سکے۔‘

یہ تحریر پڑھتے ہوئے مجھے ایک متاثرہ بچے کی والدہ کے الفاظ یاد آ رہے ہیں جن کا کہنا تھا کہ ’ہم تو آج تک اسی تکلیف میں ہیں۔ اس استاد کے بیٹے کہتے تھے کہ ہمارا بس ہو تو چوراہے میں اس کو مار دیں، بیٹیاں کہتی تھیں اللہ کرے ہم اس کی صورت کبھی نہ دیکھیں، بہنیں کہتی تھیں کہ ایسا بھائی کیوں ملا ہمیں۔ ہم نے کہا آگے جو ہوتا ہے ہو جائے ہم نے اسے معاف کر دیا۔ ہاں ہم نے اس کے ہمسائے میں رہنا چھوڑ دیا۔ میرا شوہر اب بھی روتا ہے ہماری تکلیف اب بھی ویسی ہی ہے، ہم فیس بک نہیں کھولتے کیونکہ وہاں ویڈیو اب بھی چلتی ہیں۔‘

میں نے اس بچے کی والدہ سے پوچھا کہ کیا آپ عدالت گئی تھیں یا پولیس نےجو کچھ بھی ہوا اس حوالے سے آپ سے بھی پوچھ گچھ کی تھی؟

میرے اس سوال کے جواب میں مبینہ طور پر ریپ کا شکار بچے کی والدہ نے کہا نہیں مجھ سے کسی نے کچھ نہیں پوچھا۔

تو کیا آپ کو معلوم ہے کہ عدالت میں آپ کے شوہر اور بیٹے نے ملزم کو شناخت ہی نہیں کیا اور نہ ہی مانا کہ اس روز اوطاق میں استاد نے آپ کے بیٹے کا مبینہ طور پر ریپ کیا تھا؟

خاتون نے اس کا جواب بھی نفی میں دیا۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ وہ استاد کو معاف کرنے سے تو واقف ہیں لیکن عدالت میں اپنے بیٹے، شوہر اور گواہوں کی جانب سے استاد کو شناخت نہ کرنے کے اقدام سے شاید بے خبر تھیں۔

وہ کہنے لگیں کہ ’وہ استاد بوڑھا شخص ہے، اس کی بہنیں فریاد کرتی تھیں تو ہم نے کہا تین سال تو اسے سزا مل چکی ہے اس لیے معاف کیا، مگر اب جیل سے نکلنے کے بعد اس کی جو تصویریں آئی ہیں تو ہمیں بہت غصہ ہے، میرے شوہر نے اس کے عزیزوں کو بلا کر کہا ’کیا یہ اچھا کام کر کے آیا ہے جو اسے ہار پہنائے گئے، کیا ہمارا مذاق اڑا رہے تھےئ ہم پر ہنسنے کے لیے یہ سب کیا۔‘

اس علاقے کے وکلا، صحافی اور عام لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں کوئی قرآن سامنے لے آئے تو سات خون بھی معاف کر دیے جاتے ہیں۔

’آپ کے بیٹے کی مووی چل رہی ہے‘

تینوں میں سے ایک متاثرہ بچے کی ماں مجھے اس دن کے بارے میں بتانے لگیں جس روز علاقے میں ان کے بیٹے کی ویڈیووائرل ہوئی تھی۔

’وہ دن ہمارے لیے زلزلے کا دن تھا۔ ایک بچہ میرے دروازے پرآیا اور اس نے کہا کہ آپ کے بیٹے کی مووی چل رہی ہے۔ میں نے پوچھا کہاں؟ لا کر دکھاؤ لیکن پھر میں نے اپنے بیٹے کو ہی بلایا اور اسے کہا بتاؤ کیا ہوا؟ جلدی سے بتاؤ ورنہ تمھارے ابو آ کر مارے گے۔ میرے بیٹے نے کہا کہ استاد نے مجھے ایک ہزار روپے دیے تھے اور کہا تھا کہ مجھے ایسے کرنے دو۔‘

’میں یہ سب سن کر کانپ گئی اور میری کوشش تھی کہ یہ بات باہر نہ نکلے۔ میں فوراً استاد کے گھر گئی لیکن اس کی بیوی نے مجھ سے جھگڑا شروع کر دیا اور کہا تم لوگ ہو ہی ایسے۔ اگر سچ ہے تو ثبوت لے کر آؤ۔ اتنے میں استاد کمرے سے نکلا اور میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ بیٹا ایسا کچھ نہیں، یہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ میں تو بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا ہوں۔‘

’میں گھر واپس لوٹی تو وہاں سب خاندان اور محلے والے جمع تھے۔ میرے خاندان کے مردوں نے کہا ہم اسے چھوڑیں گے نہیں۔‘

اس گھر سے نکلتے ہوئے میں نے اس چودہ سالہ بچے کو بھی دیکھا جو کچھ ہی دیر پہلے نویں جماعت کا پیپر دے کر آیا تھا۔ اس نے مسکراتے ہوئے مجھے سلام کیا اور کہنے لگا کہ مجھے ڈاکٹر بننے کا شوق ہے۔

درخواست میں کیا ہے؟

سیشن کورٹ کے فیصلے کے خلاف حکومتِ سندھ کی جانب سے سندھ ہائیکورٹ میں دائر درخواست کے بارے میں ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل سندھ سلیم بریرو نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ درخواست تکنیکی بنیادوں پر دائر کی گئی ہے۔

بی بی سی کو موصول ہونے والی درخواست کی کاپی میں 20 سے زیادہ نکات اٹھائے گئے ہیں۔ ان میں ’یو ایس بی کو فرانزک کے لیے نہ بھجوانا، سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر استاد کی بچوں کے ساتھ مبینہ ریپ کی ویڈیوز اور سکرین شارٹس کو نظر اندز کرنا، استاد کی بچوں سے ریپ کی مبینہ عادت، انھیں مبینہ طور پر اغوا یا حبس بے جا میں رکھنا اور دیگر پہلو شامل ہیں۔‘

سندھ حکومت کی جانب سے 18 مارچ 2023 کو جمع کروائی گئی درخواست میں مفاہمت کی درخواست کا حوالہ بھی دیا گیا اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مجرم کو مدعی نے قرآن پر معافی دی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ متاثرہ بچے کے والد نے عدالت میں بیان دیا کہ وہ مفاہمت کی وجہ سے اپنا بیان بدلنا چاہتے ہیں۔

سلیم بریرو پُرامید ہیں کہ ’اب چاہے مدعی نہ بھی آئیں یہ مقدمہ میرٹ پر ہے‘ اور ملزم کی بریت کا فیصلہ واپس ہو سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’قانون شہادت کے دو طریقہ کار ہوتے ہیں: اس میں براہ راست شہادت ہوتی ہے یا موقع سے ملنے والے ثبوت یا پھر دونوں کو دیکھا جاتا ہے۔ اس کیس میں اس واقعے کے ویڈیو کلپ موجود ہیں۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’جج کی پہلی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے فریقین کو مفاہمت کی اجازت دی جبکہ جج کو قانون میں اجازت نہیں کہ وہ ملزم کا ایڈوائز بنے لیکن یہاں گواہوں کو اپنے پہلے بیانات سے مختلف بیانات دینے کی اجازت دی گئی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حکومتی پراسیکیوٹر نے دو درخواستیں دیں لیکن جج نے فرانزک کروانے اور گواہوں کے خلاف بیانات بدلنے پر دائر کی گئی درخواستیں مسترد کیں۔

’خیر پور میں ایسے واقعات نئی بات نہیں‘

خیر پور میں جنسی تشدد کے کیسز کی تعداد کس قدر ہے اس کا اندازہ پچھلے تین سال سے خیر پور میں صنفی تشدد کی الگ عدالت اور وہاں سنے جانے والے مقدمات کی تعداد سے لگایا جا سکتا ہے۔

عدالت کا وقت ختم ہو رہا تھا، سیشن جج جن کے بارے میں یہ بتایا گیا کہ وہ صحافیوں سے ملاقات کر لیتی ہیں، نے مجھ سے ملنے سے یہ کہہ کر معذرت کی کہ وہ صحافیوں سے نہیں ملتیں۔

یہاں موجود عملے کے ایک اہلکار نے بتایا کہ اس وقت موجود مقدمات کی تعداد 80 سے زیادہ ہے لیکن مقامی صحافی اور وکلا کا کہنا ہے کہ یہ تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے کیونکہ بہت سے کیسز تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے اور اگر رپورٹ ہو بھی جائیں تو دباؤ میں آ کر لوگ مفاہمت کر لیتے ہیں۔

ایک پولیس اہلکار نے مجھے کہا کہ یہاں نہ تب احتجاج ہوا جب ویڈیوز وائرل ہوئیں اور نہ اب فیصلہ آنے پر لوگوں نے کوئی ردعمل ظاہر کیا۔

چھوٹے سے اس علاقے میں وائرل ہونے والی استاد اور بچوں کی ویڈیوز سے سبھی واقف ہیں لیکن عدالت کے فیصلے پر سبھی ایک بات کہتے ہیں کہ ’ان کا آپس میں معاملہ طے پا گیا ہے جی ورنہ ویڈیو تو ایف آئی آر سے پہلے سے وائرل ہو چکی تھیں۔‘

یہاں کے لوگوں سے گفتگو میں جو بات سب سے زیادہ محسوس ہوئی وہ یہ تھی کہ یہاں لڑکوں کا ریپ یا اس قسم کی ویڈیوز شیئر ہونا کوئی نئی بات نہیں یا کسی بچے کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جانا اور اس پر بات کرنا بھی کسی کے لیے ہچکچاہٹ کا باعث نہیں۔

تاہم کچھ سوالات یہاں سے واپس آ جانے پر اب بھی موجود ہیں۔ کیا پولیس بری ہونے والے استادکو ڈھونڈ پائے گی؟ کیا قرآن پر معافی لینے کی روایت اور اس قسم کی مفاہمت پر کبھی کارروائی ہو سکے گی؟

اور کیا عدالتی ریکارڈ میں موجود سیاہ رنگ کی یو ایس بی کا فرانزک ہو گا اور اس کیس کے نامکمل پہلو ہمارے سامنے آ سکیں گے؟

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More