’کپڑے نہ دھوئیں، وقت بچائیں، بجلی بِل سے جان چھڑائیں، زندگی آسان بنائیں‘: لباس نہ بدلنے والوں کی تعداد بڑھ کیوں رہی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jun 02, 2023

Getty Images

رائن سابو اور ان کی ٹیم ایسی جینز کی تصاویر کا بغور جائزہ لے رہے تھی جو طویل عرصے تک بغیر دھوئے پہنی گئی تھیں۔ ان جینز میں سے کچھ دھندلی، پھٹی یا دوبارہ سلائی کی ہوئی تھیں۔

ان میں سے جو اچھی ہیں ان کی کمیونٹی میں تعریف کی جاتی ہے۔ ان جینز میں کچھ پھٹی ہوئی حیرت انگیز ہیں۔ کچھ جینز پر تو ایسی پھٹی ہوئی جگہیں اتنی باریک ہیں کہ بالکل نظر ہی نہیں آتی ہیں۔ بلکہ الٹا ان کا نیلی جینز کے ساتھ اپنا ایک حسین امتزاج بن جاتا ہے۔ یوں یہ بہت باریک پھٹی جینز کے حصے لباس کو مزید دلکش بنا دیتے ہیں۔

’انڈیگو انویٹیشنل‘ مقابلے میں اس کا اندازہ اسی طرح کیا جاتا ہے کہ پوری پوری دنیا سے اس مقابلے میں حصہ لینے والے اپنی جینز کو مخصوص ضوابط کے تحت پورا سال پہنتے ہیں۔

اس عجیب و غریب مقابلے میں دنیا کی بہترین جینز حاصل کرنے کے لیے ایک بنیادی حکمت عملی ہے: ’لو واش ڈینم‘۔

چونکہ ڈینم صابن اور پانی سے نرم ہو جاتا ہے، اس لیے ہائی کنٹراسٹ پیٹرن حاصل کرنے کا ایک راز یہ ہے کہ پتلون کو نہ دھویا جائے۔

لانڈری مخالف پیپلز کلب کے ممبران سے لے کر لیوائز کے سی ای او تک ہر کوئی اس حکمت عملی کو اختیار کرتا ہے۔

جی ہاں بغیر دھوے جینز پہننا شاید ماننے میں نہ آتا ہو لیکن معروف کمپنی لیوائز کے سربراہ چِپ برگ بھی کچھ ایسا ہی کرتے ہیں۔

سنہ 2014 کے مئی میں لوگ اس بات سے خاصے حیران ہوئے تھے جب چِپ برگ نے بتایا تھا کہ جو جینز انھوں نے پہن رکھی ہے اسے انھوں نے کبھی نہیں دھویا۔

اس بات کے پانچ سال بعد انھوں نے سنہ 2019 میں مارچ میں امریکی چینل سی این این کو بتایا تھا کہ انھوں نے اپنی جینز کو ابھی تک نہیں دھویا۔ ان کی جینز کو بغیر دُھلے دس سال گزر چکے ہیں۔

Getty Imagesاگر لیوائز کے سی ای او چِپ برگ اپنی جینز نہیں دھوتے تو آپ کیوں دھوتے ہیں؟کم دھونے کی ثقافت

رائن سابو کو کپڑے ’کم دھونے‘ کی عادت سنہ 2010 میں اس وقت پڑی جب انھوں نے پہلی بار جینز کا ایک جوڑا خریدا۔

انھوں نے اپنے آبائی وطن کینیڈا سے یورپ کے سفر پر چھ ماہ تک ان جینز کو دھوئے بغیر پہنے رکھا۔

انھوں نے بی بی سی کلچر کو بتایا کہ ’یہ بدبودار جینز میرے لیے عجیب تھیں۔ ان سے خوفناک بو آ رہی تھی۔‘

ہنگری کے داالحکومت بڈاپیسٹ میں انھوں نے اپنی ہونے والی بیوی سے ملاقات کی اور اس رشتے میں روایتی رشتوں میں خالہ یا پھپھو کے کردار کے برعکس جینز نے اہم کردار ادا کیا۔

وہ اس واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان جینز کو ان کے بیڈ کے قریب فرش پر پھینک دیا گیا تھا۔

ان کے مطابق ’جب آپ کمرے میں چلتے پھرتے ہیں تو ایسے میں آپ ان کی خوشبو محسوس کر سکتے ہیں مگر خوش قسمتی سے میری بیوی مجھ پر اپنی جان نچھاور کرتی تھی۔

رائن سابو کے اندازے کے مطابق گذشتہ پانچ برس سے انڈیگو انویٹیشنل مقابلے میں حصہ لینے والوں میں دس میں سے نو سے زیادہ افراد اپنی پتلون 150 سے 200 بار پہننے کے بعد دھوتے ہیں۔

واشنگ مشین کا سہارا لینے کے بجائے، جو لوگ بغیر دھوئے ان کپڑوں کو پہنتے ہیں وہ اپنے کپڑوں کی دیکھ بھال کرنے کے دوسرے طریقے سیکھتے ہیں، جیسے کہ انھیں الٹرا وائلٹ شعاعوں کے سامنے لانا۔ رائن کے مطابق یہ کپڑوں کو شمسی طریقے سے صاف کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ بصورت دیگر رات کو ان کپڑوں کو تازہ ہوا میں لٹکا دینے سے بھی مقصد کچھ نہ کچھ پورا ہو جاتا ہے۔

رائن سابو خود بھی کبھی کبھار واشنگ مشین استعمال کرنے کا اعتراف کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ’جیسے ہی میری بیوی میری جینز کو سونگھتی ہیں، وہ مجھے بتاتی ہیں اور پھر ہم دونوں فوراً کپڑے دھونے چلے جاتے ہیں۔‘

جینز پہننے والے صرف وہی لوگ شامل نہیں ہیں جو اپنے کپڑوں کو بہت کم دھوتے ہیں۔

سنہ 2019 میں ڈیزائنر سٹیلا مکارٹنی نے دی گارڈین کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ اپنے کپڑے بہت دیر سے دھوتی ہیں۔ بس پھر کیا تھا ہر طرف میڈیا میں یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ انھوں نے یہ گُر لندن کے مشہور درزیوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے سیکھا ہے۔

ان کے مطابق ’بنیادی طور پر ہمیں زندگی میں ایک اصول بنا لینا چاہیے۔ اگر کسی چیز کو صفائی کی ضرورت نہیں تو اسے صاف نہ کیا جائے۔‘

ان کے مطابق ’میں ہر روز اپنی ’برا‘ نہیں بدلتی اور نہ میں اس وجہ سے چیزوں کو واشنگ مشین میں پھینکتی ہوں کہ میں نے انھیں پہنا ہے۔ میں حفظان صحت کے اصولوں پر کاربند ہوں مگر میں یوں کپڑوں کی ڈرائی کلیننگ کے حق میںبھی نہیں ہوں۔‘

Getty Imagesدھوئے بغیر سو دن کپڑے پہنے رکھے

کچھ لوگ ماحولیات یا بجلی کے بل میں اضافے کی وجہ سے اپنی لانڈری کی عادات کو بدل رہے ہیں۔

میک بشپ، کپڑے کی کمپنی ’وول اینڈ پرنس‘ کے بانی نے خواتین کے لیے اپنے اس برانڈ کی پرومونش کے وقت وضاحت کرتے ہیں کہ انھوں نے ’آرام اور کم سے کم مشقت‘ کو اپنا اصول بنا لیا ہے، جو کہ مرد صارفین اور خاص طور پر جو لوگ لانڈری کرنے سے نفرت کرتے ہیں، کے ساتھ اچھا لگتا ہے۔

ان کے خیال میں صدیوں سے کپڑوں کی صنعت میں صنفی تشہیر کے اثرات کے ہوتے ہوئے شاید خواتین کم کپڑے دھونے کے رواج کی طرف کم ہی مائل ہوں گی۔

تحقیق سے بھی اس بات کا پتا چلا کہ ماحولیات ان خواتین کے لیے ایک زیادہ موثر محرک تھا۔

وول اینڈ برانڈ آج 100 دنوں تک ایک ہی وول (اون) کے جوڑے کو ہر روز پہننے کے چیلنج‘ کے فروغ کے ساتھ میرینو وول کے لباس فروخت کرتا ہے۔

وول اینڈ کمپنی کی ربیکا ایبی کے مطابق اس چیلنج کا سیدھا سا معاوضہ تو لانڈری میں کمی ہے، جو روزانہ کی بنیاد پر میرینو پہننے والوں کا خاصہ بن چکی ہے۔

امریکہ کی چیلسی ہیری، جو اس برانڈ کی ایک کلائنٹ ہیں، بی بی سی کلچر کو بتایا کہ وہ ایک ایسے گھر میں پلی بڑھی ہیں جہاں استعمال کے بعد ہر چیز کو دھویا جاتا ہے، یہاں تک کہ تولیے اور پاجامہ کو بھی۔

موسم گرما میں ایک روز جب ہیری اپنی دادی کے ساتھ رہ رہی تھیں نے ان کو صبح کے وقت اپنے پاجامہ کو تکیے کے نیچے رکھنا اور رات کو دوبارہ پہننا سکھایا۔ بعد میں وہ اپنے شوہر سے ملیں، جو ’تقریباً کبھی لانڈری نہیں کرتے۔ اور پھر وبائی مرض کے دوران، انھوں نے پیدل سفر شروع کیا۔ اس وقت تک جب چیزیں واقعی بدل گئی تھیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ظاہر ہے اگر آپ کسی جھولے یا خیمے میں سو رہے ہیں تو آپ سارا دن چلنے کے بعد نہا نہیں سکتے۔‘

ہائیکنگ کمیونٹی میں کچھ لوگوں نے ایک مخصوص برانڈ کے اونی انڈرویئر استعمال کرنے کی ترغیب دی ہے، جن کو کئی دنوں تک پہنا جا سکتا ہے یا دھو کر جلدی سے خشک کیا جا سکتا ہے۔

یہ اور دیگر اونی لباس پہن کر ہیری نے محسوس کیا کہ وہ دنوں تک پیدل سفر کر سکتی ہیں اور پھر بھی آرام دہ محسوس کرتی ہے۔

ان کے مطابق اس کے بعد ’پھر میں نے سوچنا شروع کیا: میں اپنی روزمرہ کی زندگی میں ایسا کیوں نہ کروں؟ پھر میں نے ایسا ہی کیا۔‘

Getty Images

یہ بھی پڑھیے

واشنگ مشین میں کپڑے دھوئے بغیر بھی زندگی ممکن ہے، مگر کیسے؟

کیا ٹائی سوٹ کا وقت گذر گیا

اپنے گدے کو کیسے صاف کریں اور آپ کو ایسا کتنی بار کرنا چاہیے؟

بو پر قابو پانے کا چیلنج

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے بدبو کی کوئی پرواہ نہیں ہے، مجھے اپنے ناک پر کامل بھروسہ ہے۔‘

اون کے مختلف مرکب سے بنے نئے لباس میں وہ اپنی بو محسوس کر سکتی ہیں۔ ایسا ان کے دوسرے کپڑوں کا معاملہ مختلف ہے۔ ان کے مطاب وہ مشرق وسطیٰ جیسے گرم مقامات کا سفر کرتے ہوئے بھی کبھی ان دوسرے کپڑوں میں کوئی بو محسوس نہیں کرتی ہیں۔

رائن سابو کی طرح، مکمل دھونے سے بچنے کے لیے ترکیبیں استعمال کریں، جیسے کپڑے کو رات بھر کھلی ہوا میں رکھنا یا اپنے بازوں کے نیچے سپرے کر دینے سے بھی بو سے بچا جا سکتا ہے۔

وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ شام کو اپنے اونی لباس اور جرابوں کا کھلی ہوا میں لٹکانا اچھا لگتا ہے۔ ان کے مطابق میں اپنے ان کپڑوں کو کھڑکی کے پاس لٹکا دیتی ہوں، نہا لیتی ہوں اور اپنے انڈرویئر کو بھی اتار کر لٹکا دیتا ہوں اور پھر صبح میں سب چیزوں کو دوبارہ پہن لیتا ہوں۔

لیڈز یونیورسٹی میں پائیدار فیشن کے پروفیسر مارک سُمنر کہتے ہیں کہ ’اگر آپ کپڑوں کے ساتھ کچھ سب سے برا کر سکتے ہیں تو وہ انھیں دھونے سے زیادہ بُرا کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔‘

واشنگ مشینیں اور پائیداریGetty Images

وہ کہتے ہیں کہ ایک بار دھونے سے کپڑے پھٹ سکتے ہیں، سکڑ سکتے ہیں اور ان کا رنگ اتر سکتا ہے۔ اپنے ساتھی مارک ٹیلر کے ساتھ، مارک سُمنر اس بات کا مطالعہ کر رہے ہیں کہ گھریلو کپڑوں کے مائیکرو فائبر سمندر میں کیسے ختم ہوتے ہیں۔

اگرچہ ان کا ماننا یہ ہے کہ کپڑے کم بار دھونا ماحول کے لیے بھی اچھا ہے، لیکن وہ واشنگ مشینوں کے مکمل خاتمے کی بھی بات نہیں کرتے ہیں۔

پروفیسر سُمنر نے بی بی سی کلچر کو بتایا کہ ’ہم نہیں چاہتے کہ لوگ یہ سوچیں کہ وہ چیزوں کو نہیں دھو سکتے کیونکہ وہ کرہ ارض کو تباہ کر رہے ہیں۔ یہ سب تو توازن درست کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔‘

ایکزیما کے شکار افراد کے لیے حفظان صحت اور طبی وجوہات کی بنا پر کپڑے دھونا ضروری ہے جب ہماری جلد کے قدرتی بیکٹیریا ہمارے کپڑوں کے اندر زیادہ پھیل جاتے ہیں اور پھر وہ خارش اور جلن کا باعث بنتے ہیں۔

لوگوں کی عزت نفس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ’اپنے کپڑوں کی وجہ سے شرمندہ نہ ہوں کہ وہ گندے ہیں یا ان سے بدبُو آتی ہے۔‘

دھونے کی عادات کے بارے میں وہ کسی مخصوص عمل کی طرف اشارہ نہیں کرتے ہیں۔ عام شہری مختلف درجہ حرارت، واش سائیکل، اور رنگ اور کپڑے کے امتزاج کا استعمال کرتے ہیں، اور خود سائنسدان بھی اس سے مختلف نہیں ہیں۔

Getty Images

ان کے مطابق ’میں 30 سالوں سے ٹیکسٹائل کے ساتھ کام کر رہا ہوں اور مجھے کپاس کو سینتھیٹکس یعنی مصنوعی مواود سے اور سفید کو دوسرے رنگوں سے جدا کرنا جاننا چاہیے، لیکن سچ کہوں تو میرے پاس وقت نہیں ہے۔‘

پروفیسر مارک سمنر کے مطابق ’بہترین نقطہ نظر، بظاہر، لچکدار ہونا ہے۔ اگر آپ کے کپڑوں سے بدبو نہیں آتی ہے، تو انھیں دھونے کی زحمت نہ کریں۔‘

اور جب آپ اسے دھونے جائیں تو اس کے بارے میں واضح رہیں کہ کیا کرنا ہے تاکہ لباس صاف ہو، لیکن سب سے مؤثر طریقے سے ہو۔‘

وہ کم درجہ حرارت پر یا بغیر ڈٹرجنٹ کے بہت مختصر وقت میں کپڑے دھونے کی تجویز دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ لانڈری کرنے سے بھی زندگی کا بڑا وقت ضائع ہوتا ہے اور ہر کسی کے پاس وقت نہیں ہوتا ہے۔

چیلسی ہیری کہتی ہیں کہ ’میں پائیداری، ماحولیات اور قدرتی وسائل کے انتظام میں بہت دلچسپی رکھتی ہوں، لیکن میں اپنے وقت کے بارے میں بھی فکر مند ہوں۔‘

رائن سابو پائیداری کے بارے میں بھی فکر مند ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس صفائی کی ضرورت سے زیادہ عادت ترک کرنے کی دیگر وجوہات ہیں۔

’میرے پاس اور بھی کام ہیں۔ میرے پاس واک پر لے جانے کے لیے ایک کتا ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More