اقتصادی سروے: رواں مالی سال صنعتی شعبے کی ترقی منفی 2.94 فیصد رہی، اسحاق ڈار

ہم نیوز  |  Jun 08, 2023

اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحٰق ڈار قومی اقتصادی سروے برائے مالی سال 23-2022 پیش کر رہے ہیں، اقتصادی سروے کا موضوع برآمدات، ایکویٹی، ایمپاورمنٹ، ماحولیات اور توانائی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ اقتصادی سروے 17 ابواب پر مشتمل ہے جس کا مقصد گزشتہ چند برسوں میں پاکستان کی معیشت کی زبوں حالی کو واپس ترقی کی جانب لے جانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ختم مالی سال کے لیے مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو 0.29 فیصد حاصل کی جس سے 5 فیصد کا ہدف بڑے مارجن سے حاصل نہیں ہوا۔

Copy of Pakistan Economic Survey 2022-23 was presented to the Prime Minister Mohammad Shehbaz Sharif by Finance Minister Senator Mohammad Ishaq Dar at PM House,today.

— Ministry of Finance (@FinMinistryPak) June 8, 2023

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا یہ معمولی نمو زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبوں میں بالترتیب 1.55 فیصد، -2.94 فیصد، اور 0.86 فیصد رہی، اگر یہ حکومت ذمہ داری نہ سنبھالتی تو نہ جانے ملک کہاں کھڑا ہوا تھا؟ کیوں کہ ہماری حکومت آنے سے قبل آخری تیسری سہ ماہی میں غیر ملکی زرِ مبادلہ میں 6 ہزار 400 ارب ڈالرز کی کمی ہوئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ معیشت میں جو گراوٹ ہورہی تھی وہ رک چکی ہے اب ہماری کوششیں اسے ترقی کے راستے پر لے جانا ہے، سال 2018 میں مالی خسارہ 5.8 فیصد تھا جو گزشتہ سال جب نئی حکومت نے ذمہ داری سنبھالی تو 7.9 فیصد پر پہنچ گیا تھا۔ انہوں ںے کہا کہ تجارتی خسارہ 2018 میں 30.9 ارب ڈالرز سے گزشتہ سال 39.1 ارب ڈالرز جب کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے 4.7 فیصد سے 17.5 ملین ڈالرز تک جا پہنچا، غیر ملکی سرمایہ کاری 2.8 ارب ڈالرز سے سکڑ کر 1.9 ارب ڈالرز رہ گئی اور پبلک پالیسی ریٹ 6.5 فیصد سے پونے 14 فیصد ملا۔

بجٹ 2023-24 ! 170 ارب کے اضافی ٹیکسز برقرار رہیں گے، 470 ارب کے نئے ٹیکسز لگانے کی تجویز

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ توانائی کے شعبے کا گردشی قرض ہر سال 129 ارب روپے کے حساب سے بڑھ رہا تھا جو 2018 میں 1148 ارب چار سال کی قلیل مدت میں 2 ہزار 467 ارب تک جا پہنچا یعنی اس میں 330 سالانہ اضافہ ہوا، سال 2018 میں سرکاری قرض جی ڈی پی کے 63.7 فیصد تھا وہ 73.9 فیصد تک جا پہنچا جو بہت بڑا اضافہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ریونیو کلیکشن کا بڑا حصہ سود کی ادائیگی میں خرچ ہورہا ہے جب کہ اسی ملک کی 2017 میں سود کی ادائیگی 18 سو ارب روپے سے کم تھی جو آج 7 ہزار ارب تک پہنچ چکی ہے۔

سینیٹر اسحاق ڈار نے اس کی وجہ بد انتظامی، قرضوں کے انبار لگانے، پالیسی ریٹ میں اضافے کو قرار دیا جو غیر مستحکم ہے۔ انہوں نے کہا اس سب کچھ کے بعد تابوت میں آخری کیل جو ثابت ہوئی اس نے پاکستان کے بھروسے اور ساکھ کو متزلزل کر کے رکھ دیا اگر آپ نے کوئی خود مختار وعدہ کیا ہے تو وہ کسی سیاسی جماعت کا نہیں ہوتا بلکہ پاکستان کا ہوتا ہے اور ہمیں اسی طرح پورا کرنا چاہیے لیکن جب دیکھا کہ ہم حکومت سے نکلنے والے ہیں تو وعدے پورے نہیں کیے گئے بلکہ انہیں ریورس کردیا جس سے عالمی مالیاتی اداروں میں پاکستان کی ساکھ متاثر ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ اس بدقسمتی میں کچھ عالمی منفی اشاروں نے بھی کردار ادا کیا اس میں عالمی جی ڈی پی شرح نمو میں 50 فیصد کمی آگئی ہے، عالمی افراطِ زر میں 85 فیصد کا اضافہ ہوا، عالمی تجارت کی شرح نمو میں 5 گنا کمی واقع ہوئی اور گلوبل ولیج ہونے کی وجہ سے پاکستان بھی اس سے متاثر ہوا، پاکستان کو سیلاب کی قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں معاشی اور املاک کا تقریباً 30 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا۔

انہوں نے کہا جائزے میں یہ بات سامنے آئی تھی تعمیر نو کے لیے 16 ارب ڈالر درکار ہوں گے جس کا نصف ہم خود پورا کریں گے لیکن دوحہ میں ہوئی ڈونرز کانفرنس میں ہماری توقع سے زیادہ امداد کے وعدے کیے گئے۔

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ 2019 کا آئی ایم ایف پروگرام 2023 میں ختم ہونا چاہیے تھا، اس کے علاوہ ہم نے پوری کوشش کی اور اس کی بھاری سیاسی قیمت ادا کی، اتنی مشکل اصلاحات مینڈیٹ لے کر آنے والی نئی حکومت تو کر سکتی ہے لیکن ایک حکومت جس کو پتا ہو کہ اس کے پاس 14 ماہ ہیں اس کے لیے بہت بڑا چیلنج تھا۔

وزیر خزانہ ہمیں خاصے تکلیف دہ اقدامات اٹھانے پڑے ہم ایک وچ سائیکل میں پھنس چکے ہیں جب کرنسی کی قدر میں کمی ہوتی ہے تو مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں پالیسی ریٹ بڑھانا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج لوگ گھبرائے ہوئے ہیں، مارکیٹ کے اثرات منفی ہیں، جب میں آیا تو کہا گیا کہ ڈالر 200 سے نیچے آئے گا لیکن جو کہ آنا چاہیے تھا اور 190 تک آیا تھا لیکن نہ جانے کون سے خفیہ ہاتھ ہیں کہ جب میں واشنگٹن گیا تو یہ رجحان پلٹ گیا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ہماری کرنسی مصنوعی وجوہات کی وجہ سے انڈر ویلیو ہے جنہیں ہمیں دور کرنا اور ہم کررہے ہیں، اللہ نے چاہا تو یہ خودبخود بہتر ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے غیر ملکی قرضوں میں 4 ارب ڈالر کمی ہوئی ہے، لیکن آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر کی وجہ سے مارکیٹ کا کمزور تاثر بنا ہوا ہے اور ہماری حکومت کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ واجبات کو وقت پر ادا کردیا جائے باقی تمام کاروبار اس کے بعد ہوں گے۔

قبل ازیں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے پاکستان کے اقتصادی سروے 23-2022 کی کاپی آج وزیر اعظم ہاؤس میں میاں شہباز شریف وزیراعظم کو پیش کی۔

خیال رہے کہ اقتصادی سروے وزارت خزانہ کی ایک سالانہ فلیگ شپ اشاعت ہے جو اہم معاشی اشاریوں، ترقیاتی پالیسیوں، حکمت عملیوں کے ساتھ ساتھ معیشت کی شعبہ جاتی کامیابی کے رجحان کو اجاگر کرتا ہے۔

وفاقی بجٹ میں پرائز بانڈز پر 5 فیصد اضافی ٹیکس لگانے کی تجویز

واضح رہے کہ اقتصادی سروے وزارت خزانہ کی ایک سالانہ فلیگ شپ اشاعت ہے جو اہم معاشی اشاریوں، ترقیاتی پالیسیوں، حکمت عملیوں کے ساتھ ساتھ معیشت کی شعبہ جاتی کامیابی کے رجحان کو اجاگر کرتا ہے۔ ہر سال آئندہ مالی سال کا بجٹ ٌپیش کیے جانے سے ایک روز قبل اقتصادی سروے جاری کیا جاتا ہے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More