Getty Images
رومان پرور نظاروں سے بھرپور مالدیپ کا نام سنتے ہی جو پہلا تصور ذہن میں ابھرتا ہے وہ وہاں کے خوبصورت ساحل، رنگا رنگ چٹانوں (کورل ریف) اور سمندری زندگی کے دلفریب نقوش ہیں۔
پرسکون اور دل موہ لینے والے نظاروں کے سبب مالدیپ کا نام سنتے ہی خوش کن خیالات کا ذہن میں آنا معمول کی بات ہے ہی لیکن جغرافیائی تنازعات اور سیاسی دشمنیوں کا ذکر ہو تو شاید مالدیپ اس حوالے سے سوچ کے دائروں میں آنے والا آخری ملک ہو گا۔ لیکن اب مالدیپ میں ہونے والی سیاسی ہلچل دنیا کی توجہ اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔
بحر ہند کے وسط میں تقریباً 1200 کورل ریفکے جزیروں کے حامل مالدیپ میں 30 ستمبر کو صدر ابراہیم محمد صالح اور ان کے حریف امیدوار محمد معیزو کے درمیان حتمی انتخابی معرکہ ہونے جا رہا ہے۔
لیکن بات یہیں تک محدود نہیں بلکہ وسیع تر تناظر میں مالدیپ کا یہ سیاسی معرکہ انڈیا اور چین کے درمیان بھی یہاں کی سیاست پر حاوی ہونے کا ان دیکھا مقابلہ بن رہا ہے۔
مشرق اور مغرب کے مصروف بحری راستوں کی موجودگی کے درمیان دونوں ممالک ان جزائر میں اپنی موجودگی کو مضبوط بنانے کی کوششوں میں مسلسل مصروف عمل ہیں۔
مالدیپ کے دونوں صدارتی امیدوار ووٹرز تک رسائی کے لیے ہوائی جہازوں اور کشتیوں کے ذریعے جزیروں کو عبور کر رہے ہیں اور یہ دونوں امیدوار مختلف ایشیائی طاقتوں کے نمائندے بھی سمجھے جا رہے ہیں۔
Getty Images
2018 میں اپنی حیرت انگیز جیت کے بعد مالدیپ ڈیموکریٹک پارٹی (ایم ڈی پی) کےرہنما ابراہیم صالح نے انڈیا کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کیا جس کے ساتھ مالے کے مضبوط مالیاتی اور ثقافتی اور تعلقات ہیں تو دوسری جانبپروگریسو الائنس اتحاد سے تعلق رکھنے والے محمد معیزو چین کے ساتھ بہتر تعلقات کے حامی ہیں۔
مالدیپ طویل عرصے سے انڈیا کے زیر اثر رہا ہے۔ انڈیا کو وہاں اپنی موجودگی برقرار رکھنے سے بحر ہند کے ایک اہم حصے کی نگرانی کرنے میں مدد ملتی ہے۔
چین اپنی تیزی سے پھیلتی ہوئی بحری افواج کے ساتھاس اہم مقام تک رسائی چاہتا ہے جسے انڈیا روکنے کا خواہاں ہے۔ چین اس راستے سے گزرنے والے اپنی توانائی کی سپلائی کے زرائع کو بھی خلیج کی پہنچ سے محفوظ کرنے کا خواہاں ہے۔
دلی اور بیجنگ دونوں نے انفراسٹرکچر اور ترقیاتی منصوبوں کی مد میں مالدیپ کو کروڑوں ڈالرز قرضوں اور گرانٹس کی شکل میں دیے ہیں تاہم اس بار الیکشن کی فضا میں ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسےچین کو برتری حاصلہونے جا رہی ہے۔
’انڈیا فرسٹ‘
مالدیپ کے موجودہ صدر ابراہیم صالح کو اس ماہ کے اوائل میں ہونے والے پہلے انتخابی مرحلے میں صرف 39 فیصد ووٹ ملے ہیں۔
ایک مسئلہ جس نے موجودہ صدر کی کارکردگی کو نقصان پہنچایا ہے، ان پر کی جانے والی وہ تنقید ہے جسے ’فرسٹ انڈیا پالیسی‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اس کے مطابق موجودہ صدر کی انتظامیہ نے دلی کے ساتھ قریبی تعلقات چین کی قیمت پر استوار کیے ہیں تاہم ابراہیم صالح اس دلیل کو مسترد کرتے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو ایک ای میل کے ذریعے دیے جانے والے انٹرویو میں بتایا کہ ’ایک ملک کے ساتھ اچھے تعلقات دوسرے کے ساتھ خراب تعلقات کی قیمت پر نہیں ہوتے اور ہمارا یہی نظریہ ہے۔‘
’انڈیا فرسٹ‘ پالیسی کے غیر مقبول ہونے کی ایک وجہ انڈیا کی جانب سے مالدیپ کو 2010 اور 2013 میں دیے جانے والے دو ہیلی کاپٹر اور 2020 میں ایک چھوٹے طیارے کی صورت میں دیے گئے ’تحائف‘ بھی ہیں جن پر انھیں شدید تنقید کا سامنا رہا تھا۔
انڈیا کے مطابقتحفے میں دیے جانے والے اس جہاز کا مقصد امدادی نوعیت کے مشن اور طبی انخلاء کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔
لیکن 2021 میں، مالدیپ کی دفاعی فورس نے کہا کہ تقریباً 75 انڈین فوجی اہلکار ان طیاروں کو چلانے اور ان کی دیکھ بھال کے لیے مالدیپ میں مقیم ہیں۔
Getty Images
اس کے فوراً بعد اپوزیشن نے ’انڈیا آؤٹ‘ مہم شروع کی جس میں انڈین سکیورٹی اہلکاروں سے مالدیپ چھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا۔
اپوزیشن نے دلیل دی کہ ان فوجی اہلکاروں کی موجودگی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہی ہے اور انتخابات کے دوران یہی بحث اب انتہائی اہم مسئلہ بن کے سامنے آ رہی ہے تاہمصدر ابراہیم صالح کہتے ہیں کہ یہ خدشات مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’مالدیپ میں فوجی طور پر کوئی فعال بیرون ملک اہلکار تعینات نہیں بلکہ درحقیقت اس وقت ملک میں موجود انڈین اہلکار مالدیپ کی نیشنل ڈیفنس فورس کی آپریشنل کمانڈ کے ماتحت ہیں۔‘
’مالدیپ کسی کے ساتھ ٹھوس سٹریٹجک تعلقات نہیں رکھنا چاہتا‘
مالدیپ میں 2013 سے 2018 تک صدر رہنے والے عبداللہ یامین کے دور اقتدار میں مالدیپ چین کے قریب آیا اور چین اور باقی دنیا کے ساتھ سڑکوں، ریل اور سمندری روابط کی تعمیر کے صدر شی جن پنگ کے ’گرینڈ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے‘ میں شامل ہوا۔
تاہم جبانڈیا اور قرض دینے والے مغربی ممالک نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزاماتکے باعث سابق صدر یامین کی انتظامیہ کو قرض دینے پر آمادگی کا اظہار نہیں کیا تو انھوں نے چینکا رخ کیا جس نے بلا مشروط رقم فراہم کر دی۔
عبداللہ یامین اس وقت بدعنوانی کے الزامات کے تحت 11 سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں اور اسی بنیاد پر وہ اس سال انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔ اس وقت صدارتی امیدوار محمد معیزو کو عبداللہ یامین کا جانشین سمجھا جاتا ہے۔
عبداللہ یامین کے انڈیا کے ساتھکشیدہ تعلقات کے پیش نظر چین حزب اختلاف کی حمایت حاصل کرنے کا ایک واضح انتخاب ہے۔
سب سے بڑے اور سب سے زیادہ دکھائی دینے والے چینی فنڈ سے چلنے والے منصوبوں میں سے ایک 2.1 کلومیٹر (تقریبا 1.3 میل) طویل چار لین والا پل ہے جو دارالحکومت مالے کومختلف جزیروں سے جوڑتا ہے۔
200 ملین ڈالر کی مالیت سے بننے والے اسپل کا افتتاح 2018 میں کیا گیا تھا جب عبداللہ یامین صدر تھے۔
BBC2.1 کلومیٹر کا چار لین والا پل دارالحکومت مالے کومختلف جزیروں سے جوڑتا ہے
اگرچہ انڈیا نے بھی پچھلے چند سال میں مالدیپ میں تقریبا 2 ارب ڈالر سے زیادہ کے قرضوں اور گرانٹس کی پیشکش کر کے چینی سرمایہ کاری سے مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن مالدیپ میں بہت سے لوگ اب بھی انڈیا کے مقاصد کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اب انڈیا بالواسطہ طور پر وہاں اپنے قدم جمانے کی کوشش میں مصروف عملہے۔
ایک اور تشویش طلب بات یہ بھی ہے کہ انڈیا اور چین کے درمیان موجود ہمالیائی سرحد پر کشیدگی بڑھنے سے مالدیپ متاثر ہوسکتا ہے۔
مالدیپ کے تجزیہ کار اور یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے لیکچرر عظیم ظہیر کہتے ہیں کہ ’مالدیپ میں ایک بہت پختہ نظریہ یہ ہے کہ ہمیں انڈیا سمیت کسی بھی ملک کے ساتھ کوئی ٹھوس سٹریٹجک تعلقات نہیں رکھنے چاہییں۔‘
ایک جانب جب مالدیپ میں انتخابات کا انعقادسر پر ہے ایسے میں ابراہیم صالحاپنے حریف کے اوپر حاوی ہونے کے لیے اہم چھوٹی جماعتوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے میں اب تک کامیاب نہیں ہو سکے جس کے باعث ان کومشکل صورتحال کا سامنا ہے۔
اور ایسے میں حزب اختلاف کے اتحاد نے بھی یہ بخوبی محسوس کر لیا ہے کہ برسراقتدار جماعت ایم ڈی پی ’انڈیا آؤٹ‘ کے بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہی ہے، اس لیے اپوزیشن اتحاد نے اپنے وار بھی تیز کر دیے ہیں۔
حزب اختلاف کے اتحاد کے نائب صدر محمد حسین شریف اس بارے میں کہتے ہیں ’ہمیں موجودہ حکومت کے انڈیا پر حد سے زیادہ انحصار کے نتیجے میں خودمختاری کے خاتمے پر انتہائی تشویش ہے۔‘
محمد حسینشریف کا استدلال ہے کہ ملک میں ہر ایک منصوبہ انڈیا کی فنانسنگ کے ذریعے چلایا جا رہا ہے اور اسے انڈین کمپنیاں لاگو کر رہی ہیں۔
دوسری جانب مالدیپ کے بہت سے نوجوان بڑھتے اخراجات، بے روزگاری اور موسمیاتی تبدیلیوں سے پریشان ہیں۔
مالدیپ نیشنل یونیورسٹی کی ایک طالبہ فاطمہ رایا شریف نے بی بی سی کو بتایا ’ہم نوجوان روزگار کے مواقع کے بارے میں بہت فکر مند ہیں۔ بہت سے نوجوان ابھی ملک چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں حالانکہ وہ بعد میں واپس آ کر اپنے ملک کی خدمتکے جزبے سے بھی سرشار ہیں۔‘
تاہم اس بات کا قومی امکان ہے کہ یہ تمام مسائل اس وقت پس پشت چلے جائیں گے جب انتخابات کا نتیجہ سامنے آئے گا کیونکہ الیکشن جیتنے والا ہی یہ طے کر سکتا ہے کہ کون سی ایشیائی طاقت خطے میں غلبے کی جنگ میں قدم جما پائے گی۔