’سونے کی ہتھکڑیاں‘: کیا آپ بھی زیادہ تنخواہ کی لالچ میں ایک بے آرام زندگی جی رہے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Feb 24, 2024

Getty Images

لوئس جانتے تھے کہ لاکھوں روپے کی آمدنی والی نوکری میں انھیں دباؤ تو ہوگا۔ برلن میں واقع دنیا کی ایک باوقار کمپنی میں بطور انٹری لیول کنسلٹنٹ سمجھتے تھے کہ ڈیڑھ لاکھ یورو کی تنخواہ تک پہنچنے کے لیے ذہنی تناؤ برداشت کیا جاسکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’آپ کے دل میں ڈیسک سے جکڑے رہنے کی چاہ ہونی چاہیے۔ آپ ایک بھاری تنخواہ کے عوض یہ ساری شرائط قبول کرتے ہیں، یہ اس طرح کا کھیل ہے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اگر آپ 12 گھنٹے کام نہیں کر رہے تو ردِ عمل یہ ہوتا ہے کہ ’آپ کو اتنے سارے پیسے دیے جارہے ہیں اس لیے آپ کو کام تو کرنا پڑے گا۔‘

لوئس کہتے ہیں کہ ’جب آپ اتنی بھاری تنخواہ لیتے ہیں تو آپ کے ذہن میں ایک دیوار کھڑی ہو جاتی ہے، آپ محسوس کرتے ہیں کہ یہ سب آپ نے خود کمایا ہے اور آپ یہاں سخت محنت کر کے پہنچے ہیں۔ اب آپ اس سب سے باہر نکلنا چاہتے ہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ آپ تنخواہ میں کتنی کمی برداشت کر سکتے ہیں؟‘

لوئس کے ہاتھ ’سونے کی ہتھکڑیوں‘ میں جکڑے ہوئے ہیں اور یہ ایسا چُنگل ہو جو ملازمین کو ایسی نوکریوں اور ایسے کیریئرز میں پھنسا لیتا ہے جس سے وہ شاید نفرت کرتے ہیں اور یہ سب صرف اور صرف بھاری تنخواہ کی لالچ میں ہوتا ہے۔

کام کے اذیّت ناک ہفتوں، تھکا دینے والی مصروفیات اور زہریلے کلچر کی شکایات کے باوجود بھی ملازمین یہی نوکریاں کرتے رہتے ہیں تاکہ بھاری تنخواہ ملتی رہے اور زندگیاں آرام سے کٹتی رہیں۔

کچھ لوگوں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ’سونے کی ہتھکڑیاں‘ کھول لیتے ہیں اور اپنی نوکری اور ذاتی زندگی میں توازن قائم کر لیتے ہیں لیکن باقی لوگ اس توازن کو قائم کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور اس کا خمیازہ بھی بھگتتے رہتے ہیں۔

کارنیگی میلن یونیورسٹی کے ٹیپر سکول آف بزنس سے منسلک پروفیسر رُباب جیفری او کانر کہتی ہیں کہ بڑے اداروں میں ملازمین کو ’سونے کی ہتھکڑیاں‘ پہنانے کی روایت نئی نہیں ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب سے دُنیا میں ادارے بنے ہیں کمپنیاں اپنے بہترین ملازمین کو نوکریوں پر رکھنے کے لیے بھاری تنخواہیں دے رہی ہیں۔‘

’سونے کی ہتھکڑیوں‘ کی اصطلاح پہلی مرتبہ اس وقت منظر عام پر آئی جب 1976 میں امریکہ کی وال سٹریٹ پر کام کرنے والے بینکاروں کی تنخواہیں دیگر نجی شعبوں کے ملازمین کے مقابلے میں اچانک بڑھ گئیں۔ لیکن اکثر بھاری تنخواہوں کے علاوہ بھی چیزیں ہوتی ہیں جو سونے کی ہتھکڑیوں کو مزید مضبوط کرتی ہیں جیسے کہ سٹاک آپشنز، سالانہ بونس یا دیگر مالی سہولیات۔‘

رُباب کہتی ہیں کہ ’سونے کی ہتھکڑیوں‘ کے علاوہ بھی دیگر ہتھیار ہیں جن کا استعمال کرتے ہوئے کمپنیوں کے مالکان اپنے بہترین ملازمین کو نوکریوں سے چپکائے رکھتے ہیں اور پھر یہ ملازمین روز مرّہ کی مصروفیات سے آگے بڑھ کر مزید کام کرتے ہیں۔

بھاری تنخواہ کا مطلب یہ ہے کہ اب ملازم کا دارومدار صرف اور صرف اپنی کمپنی پر ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’اگر میں فیئرمونٹ کے ایک کمرے کا کرایہ دیتی ہوں تو میں امید کروں گی کہ مجھے اس کے بدلے میں کام بھی زیادہ کیا ہوا ملے۔‘

’تو مطلب یہ ہے کہ زیادہ تنخواہ جب دی جاتی ہے تو آپ سے امیدیں بھی زیادہ لگائی جاتی ہیں کہ: آپ جو زیادہ وقت اور توانائی خرچ کر رہے ہیں اس کا معاوضہ بھی آپ کو دیا جائے گا۔‘

لیکن ان بھاری تنخواہ والی تنخواہ کی وجہ سے اکثر ملازمین کو اپنی ذاتی زندگی میں نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ اور ایسا اکثر جونیئر ملازمین کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور یہ کام کا یہ پریشر اکثر اوپر سے آتا ہے۔

لوئس اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’جب بونس کا وقت آتا ہے تو پارٹنرز اپنے پروجیکٹ کو زیادہ سے زیادہ بیچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ اکثر تین مہینے کے پروجیکٹ کو تین ہفتوں میں ختم کرنے کا وعدہ کر بیٹھتے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اس سے نچلی سطح پر کام کرنے والے ملازمین کی دوڑیں لگ جاتی ہیں، انھیں نہ صرف پورا پورا دن کام کرنا پڑتا ہے بلکہ شدید تناؤ کے کلچر کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

اس سب کے بعد مڈ کیریئر ملازمین کی زندگی میں مزید مٹھاس آ جاتی ہے اور ان کے ہاتھوں میں ’سونے کی ہتھکڑیاں‘ بھی مزید مضبوط ہو جاتی ہیں۔

ریان رینٹیریا وال سٹریٹ کی ایک بڑی فرم میں کام کرتے تھے لیکن یہ نوکری انھوں نے صرف 30 برس کی عمر میں چھوڑ دی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’معاوضے کے مواقع لاتعداد تھے، ہر چھ مہینے بعد جب آپ زیادہ منافع کماتے تھے تو آپ کو بڑے بونس آفر ہوتے تھے اور اگر آپ نوکری چھوڑتے ہیں تو آپ کو ان بونسوں سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔‘

بالآخر ریان نے تھکن کے باعث یہ نوکری چھوڑ دی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اس نوکری سے میری ذہنی اور جسمانی صحت پر جو اثر پڑا وہ ناقابلِ برداشت تھا، ذہنی دباؤ اور پریشانی آسمان کو چھو رہے تھے اور میرا کھانا پینا اور نیند کی روٹین بھی ایک مذاق بن چکی تھی۔'

یہ بھی پڑھیےملازمت کے دوران ’ریڈ فلیگ‘ نظر آئیں تو کیا فوراً استعفیٰ دے دینا ہی درست فیصلہ ہے؟آمدن میں کمی: ’یہ بہت ذہنی اذیت ہے کہ ملازمت بھی کر رہے ہوں لیکن خاندان کی ضروریات پوری نہ کر سکیں‘وہ شعبے جن میں نوجوان ملازمت کا آغاز ہی بڑی بڑی تنخواہوں سے کرتے ہیں

انھوں نے مزید کہا کہ ’میں نے یہ نوکری چھوڑی کیونکہ مجھے محسوس ہوا کہ اس نوکری کے سبب میری وہ تمام دیگر جیزیں برباد ہوجائیں گی جن کی میری زندگی میں اہمیت ہے۔‘

لیکن جب ملازمین ناخوش ہوتے ہیں تو ان کے لیے ان ’سونے کی ہتھکڑیوں‘ سے چھٹکارا پانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ لوسی میو پوٹرگل کہتی ہیں کہ وہ لندن میں کیناری وہارف میں نوکری کر رہی تھیں اور انھیں ایک ہی سال میں اندازہ ہوگیا کہ بینکاری کا شعبہ ان کے لیے مناسب نہیں لیکن پھر بھی وہ تقریباً 9 سال وہیں ملازمت کرتی رہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں بس اس ملازمت کے وقار کے گرداب میں پھنس گئی کیونکہ دوسروں کو لگتا تھا کہ میں بھی ایک متاثر کن شخصیت بن گئی ہوں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’مجھے بس عادت پڑ گئی تھی کیونکہ لوگ وہاں پیسے کما رہے تھے اور مجھے یہ سب نارمل لگنے لگا اور میں نے یہ سوچا کہ مالی طور پر مستحکم ہونے کے لیے اتنا کمانا ضروری ہے۔‘

لوسی کہتی ہیں کہ صرف بھاری نتخواہیں ہی آپ کو ’سونے کی ہتھکڑیاں‘ اُتارنے سے نہیں روکتیں بلکہ اس تنخواہ سے آپ کو جو لائف سٹائل میسر آتا ہے وہ بھی ایک وجہ ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ لوگ جن کی تنخواہیں زیادہ ہوتی ہیں ان کے خرچے بھی شاہانا ہوتے ہیں۔ میں کپڑوں اور کھانے پر بہت زیادہ پیسے خرچ کرتی تھی کیونکہ مجھے ایسا کرنے سے اچھا محسوس ہوتا تھا، مجھے یہ نوکری چھوڑنے کے لیے پیسے سے اپنا رشتہ خراب کرنا پڑتا۔‘

لوسی اب بطور لائف کوچ کام کرتی ہیں اور ان کے کلائنٹس میں بینکار، قانون دان اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ان میں سے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ اپنی ملازمت چھوڑ نا چاہتے ہیں یا کہتے ہیں کہ وہ دباؤ کا شکار ہیں یا بہت تھک چکے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ زمانے میں جو تبدیلی آ رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ لوگوں نے ان ’سونے کی ہتھکڑیوں‘ پر بھی بات کرنا شروع کردی ہے۔ پھر بھی وہ سمجھتی ہیں کہ مالی فائدے کے حصول کے لیے لوگ ایسی بھاری تنخواہوں والی ملازمتیں مستقبل میں بھی ڈھونڈتے رہیں گے کیونکہ مجموعی طور پر معیشت بھی غیریقینی کا شکار ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’2008 سے قبل جلدی ریٹائرمنٹ لینا آسان تھا لیکن پھر بھی بہت ہی کم لوگوں نے لاکھوں روپے کمائے اور ریٹائرمنٹ کا انتخاب کیا۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’تنخواہوں کے علاوہ دوستیاں اور لائف سٹائل بھی آپ کو ان نوکریوں کے ساتھ باندھے رکھتے ہیں۔‘

لوئس کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے بالآخر ان ’سونے کی ہتھکڑیوں‘ سے چھٹکارا پا لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’زندگی میں کام اور نجی مصروفیات میں توازن نہیں تھا، اس سے میرے ذاتی رشتوں پر بھی برا اثر پڑ رہا تھا۔‘

ان کے مطابق ترقی ملنے کے مواقعوں میں کمی کے سبب بھی ان کی زندگی بری طرح متاثر ہو رہی تھی۔

وہ اب نئی جگہ ملازمت کر رہے ہیں جہاں ان کی تنخواہ تقریباً 10 فیصد کم ہے لیکن اس کے علاوہ وہ بحیثیت کنسلٹنٹ بھی کام کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے یہ بھی سوچا تھا کہ وہ بینکنگ انڈسٹری ہی چھوڑ دیں گے لیکن وہ ایسا نہیں کر سکے کیونکہ دیگر شعبوں میں اتنا پیسہ نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’جب آپ ایک خاص قسم کی تنخواہ تک پہنچ جاتے ہیں تو پھر اس سے کم تنخواہ پر ملازمت کرنا آسان نہیں ہوتا۔‘

چھ عوامل جو آپ کی تنخواہ میں اضافہ کروا سکتے ہیں’لیزی گرل جاب‘: دفتر اور باس سے دور اچھی تنخواہ اور کم کام والی نوکری کا تصور کیا ہے؟وہ شعبے جن میں نوجوان ملازمت کا آغاز ہی بڑی بڑی تنخواہوں سے کرتے ہیں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More