بڑھتی عمر کے ساتھ کینسر کا خطرہ کیوں بڑھ جاتا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Feb 24, 2024

Getty Images

حالیہ چند ہفتوں کے دوران برطانیہ کے شاہ چارلس میں اچانک کینسر کی تشخیص کی خبر نے جہاں دنیا بھر کے لوگوں کو غم زدہ کیا ہے وہیں اس نے ماہرین کو معمر افراد میں کینسر کے بڑھتے خطرے کے متعلق آگاہی پھیلانے کا ایک موقع دیا ہے۔

یو ایس نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ کے مطابق کینسر شروع ہونے کی اوسط عمر 66 برس ہے جبکہ برطانیہ میں کینسر کے تمام نئے کیسز میں سے نصف سے زیادہ 70 سال یا اس سے زیادہ عمر والوں میں ہیں۔

اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی اور آسان وجہ یہ ہے کہ جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی جاتی ہے، ہمارے خلیات کے ڈی این اے کو آہستہ آہستہ نقصان پہنچتا جاتا ہے جس کی وجوہات میں سورج کی شعائیں، دائمی سوزش، ماحول میں موجود زہریلے مواد، تمباکو، شراب نوشی اور مائیکروبیل انفیکشن شامل ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے خلیے اس نقصان کو ٹھیک کرنے کی صلاحیت کھوتے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ڈی این اے میں ہونے والی تبدیلیاں ٹشوز میں جمع ہو جاتی ہیں۔

ہمارے جسم میں جتنی زیادہ تبدیلیاں آتی ہیں اس سے خلیات کی بے قابو تقسیم یا کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

برطانیہ کے کنگز کالج لندن میں معمر افراد پر تحقیق کے ڈائریکٹر رچرڈ سیو کہتے ہیں کہ ’بنیادی طور پر خلیوں کی مرمت کے طریقہ کار جو کینسر کا باعث بننے والی تبدیلیوں کے آغاز کو روک سکتے ہیں، ہماری عمر کے ساتھ ساتھ ان کی کام کرنے کی صلاحیت میں کمی آتی جاتی ہے۔‘

’جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی ہے، سیلولر فنکشن کو برقرار رکھنے والا توازن، زوال کی طرف جانے لگتا ہے۔‘

تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ یہ اکھٹی ہو جانے والی تبدیلیاں ہمارے خلیوں کی کینسر کو دبانے اور تباہ کرنے کی صلاحیت کو بھی متاثر کرتے ہیں۔

ماساشی ناریتا، جو کیمبرج یونیورسٹی میں کینسر اور بڑھاپے پر تحقیق کرتیہیں، وہ ایک خاص مالیکیول پی53 کی جانب اشارہ کرتی ہیں جو کینسر کو دبانے کا کام کرتا ہے۔ تاہم عمر کے ساتھ اس کی افادیت کم ہوتی جاتی ہے۔

جب خون کے بنیادی خلیوں میں مختلف جینز کی میوٹیشنز ہوتی ہیں تو وہ انھیں وقت کے ساتھ ساتھ بڑھنے کے لیے مجبور کرتی ہیں، جسے بائیولوجسٹس نے کلونل ہیمیٹوپویسس کا نام دیا ہے۔

یہ نوجوانوں میں بہت کم عام ہوتا ہے لیکن بڑی عمر کے لوگوں میں زیادہ عام ہے اور اس کے دو بڑے نتائج ہو سکتے ہیں۔ پہلا خطرہ خون کے کینسر کا ہے، اور دوسرا مختلف قسم کے امیون خلیوں جیسے کہ مونوسائٹس، میکروفیجز، اور لمفوسائٹس کی فعالیت میں تبدیلی ہے جو کہ خون کے بنیادی خلیوں سے بنتے ہیں۔

ناریتا اور ان کے تحقیقی گروپ نے مختلف قسم کے کینسرز کی پیدا کرنے والے جینز میوٹیشنز پر تجربات کیے ہیں جو عمر کے ساتھ عام ہو جاتے ہیں تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ انسانی جسم پر کیا اثر ہوتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم ان میں سے ایک جین کو لیتے ہیں، اسے ایک بالغ جانور میں داخل کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ایک خلیے کی سطح پر کیا ہوتا ہے۔‘

وہ اور ان کی ٹیم نے پہلے ہی یہ معلوم کر لیا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ اس سے خلیوں کی بڑھتی ہوئی ’سینیسین‘ یعنی جب پرانے اور نقصان زدہ خلیے تقسیم ہونا اور بڑھنا بند کر دیتے ہیں۔ سینیسین خلیوں کی زیادتی ان کے آس پاس کے ماحول کو کئی نقصان دہ طریقوں سے بدل سکتی ہے، دائمی سوزش کو متحرک کر سکتی ہے جو مزید نقصان اور کینسر کے خطرے میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔

لیکن یہ عمل ابھی بھی کینسر کے خطرے پر عمر کے اثرات کے طریقوں میں سے صرف چند میں سے ہے۔ اس حوالے سے نئی تھیوریز جو اور بھی عجیب و غریب ہیں پہلے ہی سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیےکینسر کی وہ ابتدائی علامات جن کو نظر انداز کرنا جان لیوا ہو سکتا ہے کرینا نے کینسر کے خلاف جنگ کیسے جیتی؟بریسٹ کینسر: علامات، تشخیص اور طریقہ علاجGetty Images’خلیے اپنی یادداشت کھو بیٹھتے ہیں‘

جیسے جیسے انسانی یادداشت عمر کے ساتھ کم ہوتی جاتی ہے، ہمیں بھولنے کی عادت ہو جاتی ہے اور ہم غلطیوں کا شکار ہو جاتے ہیں، کچھ کینسر بیالوجسٹ کا شک ہے کہ انفرادی خلیے بھی وقت کے ساتھ اپنی یادداشت کھو سکتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ کس طرح صحیح طریقے سے برتاؤ کرنا ہے۔

برطانیہ کے انسٹی ٹیوٹ آف کینسر ریسرچ میں ایپیجینیٹکسٹ لوکا میگنانی کا کہنا ہے کہ یہ بریسٹ کینسر کے لیے موزوں نظریہ ہے، جو ممکنہ طور پر مینوپاز میں شروع ہونے والی ہارمونل تبدیلیوں کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ این ایچ ایس کے مطابق، بریسٹ کینسر کے 80 فیصد کیسز 50 سال کی عمر سے زیادہ عمر والی عورتوں میں ہوتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’شعبۂ طب میں ایک عام خیال یہ بن رہا ہے کہ یہ خلیے اپنی یادداشت کھو بیٹھتے ہیں اور پھر بڑھنا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔‘

اینڈی فائنبرگ، جو جان ہاپکنز میڈیسن بالٹیمور، میری لینڈ میں ایپی جنیٹکس اور کینسر کے پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جیسے جیسے آپ کی عمر بڑھتی ہے، معلومات کم مربوط اور قابل اعتماد طریقے سے منتقل ہوتی ہیں۔‘

لیکن یہ خیالات کینسر سے نمٹنے کے بالکل نئے طریقوں کی جانب بھی لے جا سکتے ہیں۔ کینسر کی دوا کے سب سے فعال شعبوں میں سے ایک چھوٹے مالیکیول ہیں جو p53 میں میوٹیشنز کے نقصان دہ اثرات کو دور کرنے اور اس کے معمول کے ٹیومر سپریسنگ فنکشنز کو بحال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

فائنبرگ کا ماننا ہے کہ ’حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ایپی جینیٹک تبدیلیاں کسی حد تک قابل تبدیل ہیں۔‘

اینٹی ایجنگ سائنسدان اس وقت مختلف کیمیائی کاکٹیلز کے ساتھ ابتدائی مرحلے کی کلینیکل ٹرائلز کر رہے ہیں جو بغیر صحت مند ٹشو کو نقصان پہنچائے سینسین سیلز کو مار کر ہٹا دیتے ہیں۔ انھیں سینولیٹکس کہا جاتا ہے جن میں ایک اینٹی آکسیڈنٹ فیسیٹن، انگور کے بیج کا نچوڑ پولیفینول پروسیانیدن C1، اور دوا داساتینیب کا ایک اور قدرتی کیمیکل نامی کورسیٹن کے ساتھ مجموعہ شامل ہے۔‘

اس وقت ٹرائلز ان سینولیٹکس کو کمزور، بزرگ افراد پر آزما رہے ہیں جو کینسر سے پہلے لڑ چکے ہیں تاکہ دیکھا جا سکے کہ کیا وہ ان کی امیون فنکشن اور عمومی صحت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اگر کامیاب ہوئے، تو ان کا وسیع تر اطلاق ہو سکے گا۔

چار ایجادیں جو کینسر کے علاج میں انقلاب لا سکتی ہیںچھاتی کا کینسر: ’آپ کو ڈاکٹر کے پاس تاحیات جانا پڑتا ہے کیونکہ یہ دوبارہ بھی ہو سکتا ہے‘کینسر سے متاثرہ ماں، جسے ڈاکٹروں نے بتایا ’یہ ماہواری کا خون ہے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More