آپ کی ناک کیسے بتاتی ہے کہ آپ اضطراب کا شکار ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Oct 24, 2025

جب مجھے اچانک پانچ منٹ کی تقریر کرنے اور پھر 17 عدد کا فرق رکھ کر 100 سے نیچے کی طرف گنتی کرنے کا کہا گیا اور یہ سب مجھے تین ایسے لوگوں کے سامنے کرنا تھا جنھیں میں جانتی تک نہیں تھی۔۔۔ میرے چہرے پر شدید تناؤ کی علامات صاف ظاہر تھیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ یونیورسٹی آف سسیکس کے ماہرینِ نفسیات ایک تحقیقی منصوبے کے لیے کسی حد تک خوفناک تجربے کی عکس بندی کر رہے تھے جس میں تھرمل کیمروں کا استعمال کرتے ہوئے تناؤ کا مطالعہ کیا جا رہا تھا۔

تناؤ چہرے میں خون کے بہاؤ کو تبدیل کرتا ہے اور سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ کسی شخص کی ناک کے درجہ حرارت میں کمی کو تناؤ کی سطح کی پیمائش کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے اور پھر دوبارہ بحالی پر نظر رکھنے کے لیے بھی کارگر ہو سکتا ہے۔

اس مطالعے میں شامل ماہرین نفسیات کے مطابق تناؤ کی تحقیق کی وجوہات جاننے کے لیے ’تھرمل امیجنگ‘ کا یہ طریقہ ’گیم چینجر‘ ثابت ہو سکتا ہے۔

تجرباتی تناؤ کا ٹیسٹ جس میں، میں نے خود کو پیش کیا ہے وہ جان بوجھ کر ایک ناخوشگوار حیرت کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

میں یونیورسٹی پہنچی اور مجھےکوئی اندازہ نہیں تھا کہ میں کس چیز کے لیے وہاں موجود تھی۔ سب سے پہلے مجھے بیٹھنے، آرام کرنے اور ہیڈ فون کے ایک سیٹ کے ذریعے مسلسل شور سننے کو کہا گیا۔

اس کے بعد محقق جو ٹیسٹ کر رہے ہیں نے تین اجنبیوں کے ایک پینل کو کمرے میں مدعو کیا۔ وہ سب خاموشی سے مجھے گھورتے رہے جب محقق نے بتایا کہ اب میرے پاس اپنی ’پسندیدہ ملازمت‘ کے بارے میں پانچ منٹ کی تقریر تیار کرنے کے لیے تین منٹ کا وقت ہے۔

جیسے ہی میں نے اپنے گلے کے ارد گرد گرمی بڑھتے ہوئے محسوس کی، سائنسدانوں نے اپنے تھرمل کیمرے کے ذریعے میرے چہرے کا رنگ بدلنے کے اس عمل کو فلمبند کیا۔

جب میں نے بغیر تیاری کے اس تقریر کے ٹاسک کو مکمل کرنے کا سوچا تو میری ناک کا درجہ حرارت تیزی سے گرا، تھرمل امیج پر نیلا رنگ تھا۔

ڈریم جاب یا پسندیدہ ملازمت کے لیے میں نے فیصلہ کیا کہ میں خلابازوں کے تربیتی پروگرام میں شامل ہونے کے لیے اپنی ’پچ‘ بناؤں۔

سسیکس کے محققین نے 29 رضاکاروں پر تناؤ جاننے کے لیے اسی ٹیسٹ کو دہرایا۔

ہر ایک کے معاملے میں انھوں نے یہ دیکھا کہ ان کی ناک کے درجہ حرارت میں تین سے چھ ڈگری کے درمیان کمی واقع ہوئی ہے۔

میری ناک کا درجہ حرارت دو ڈگری تک گر گیا کیونکہ میرے اعصابی نظام نے خون کے بہاؤ کو میری ناک سے دور اور میری آنکھوں اور کانوں تک دھکیل دیا۔ یہ خطرے کو دیکھنے اور سننے میں میری مدد کرنے کے لیے ایک جسمانی رد عمل تھا۔

زیادہ تر شرکا میری طرح جلد ہی سنبھل گئے۔ ان کی ناک چند منٹوں میں معمول پر آ گئی۔

اس مطالعے کی قیادت کرنے والے محقق پروفیسر گیلین فارسٹر نے وضاحت کی کہ ایک رپورٹر اور براڈکاسٹر ہونے کی وجہ سے شاید مجھے ’تناؤ کی پوزیشن میں ڈھلنے کی کافی عادت پڑ گئی ہے‘۔

انھوں نے وضاحت کی کہ ’آپ کیمرے کے عادی ہیں اور اجنبیوں کے ساتھ بات کرتے ہیں، لہٰذا آپ شاید معاشرتی تناؤ کے لیے کافی لچکدار ہیں۔‘

لیکن یہاں تک کہ آپ جیسا کوئی شخص، جو تناؤ کے حالات میں رہنے کے لیے تربیت یافتہ ہے، حیاتیاتی خون کے بہاؤ کی تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ لہٰذا اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ’ناک ڈپ‘ بدلتی ہوئی تناؤ کی حالت کا ایک مضبوط نشانی ہے۔

تناؤ زندگی کا حصہ ہے۔ لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس دریافت کو تناؤ کی نقصان دہ سطح کو سنبھالنے میں مدد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

پروفیسر فارسٹر کا کہنا ہے کہ ’کسی کو اس ناک کے درجہ حرات گرنے سے صحت یاب ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے وہ اس بات کا معروضی پیمانہ ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص اپنے تناؤ کو کس حد تک قابو میں کرتا ہے۔‘

اگر وہ غیر معمولی طور پر آہستہ آہستہ واپس معمول پر آتا ہے تو کیا یہ اضطراب یا افسردگی کی علامت یا خطرہ ہوسکتا ہے؟ کیا یہ کوئی ایسی چیز ہے جس کے بارے میں ہم کچھ کر سکتے ہیں؟

چونکہ یہ تکنیک غیر جارحانہ ہے اور جسمانی ردعمل کی پیمائش کرتی ہے، لہٰذا یہ بچوں یا ان لوگوں میں تناؤ کی نگرانی کرنے کے لیے بھی کارآمد ثابت ہوسکتی ہے جو بات چیت نہیں کرسکتے ہیں۔

میرے تناؤ کی تشخیص میں دوسرا کام، میرے خیال میں، پہلے سے بھی بدتر تھا۔

ہمارے جسم کا مدافعتی نظام خود اسی پر حملہ آور کیوں نہیں ہوتا؟چھوٹے انسانی دماغ جو کمپیوٹر کی طرح کام کریں گے’ایگزیما‘ سے بالی وڈ سٹار بھومی پڈنیکر بھی پریشان، جِلد کی وہ حالت جس میں خشکی اور خارش پیدا ہوتی ہے117 سالہ خاتون پر ہونے والی تحقیق جس نے دلچسپ حقائق سے پردہ اٹھایا اور جن کی حیاتیاتی عمر 23 سال کم نکلی

مجھے 2023 سے 17 عدد کے فرق کے ساتھ الٹی گنتی کرنے کو کہا گیا تھا۔ جب میں غلطی کرتی تو تین غیر جانبدار اجنبیوں کے پینل میں کسی نے مجھے ہر بار روکا اور مجھ سے دوبارہ گنتی شروع کرنے کو کہا۔ میں تسلیم کرتی ہوں، میں ریاضی میں بری ہوں۔ جب میں نے اپنے دماغ کو تفریق کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش میں شرمناک طوالت اختیار کی، میں صرف اتنا سوچ سکتی تھی کہ میں بھرے ہوئے اس کمرے سے فوراًبھاگ جانا چاہتی ہوں۔‘

تحقیق کے دوران، تناؤ کے ٹیسٹ کے لیے 29 رضاکاروں میں سے صرف ایک اسے چھوڑ دیا جبکہ باقیوں نےمیری طرح اپنے ٹاسک کو مکمل کیا اور انھوں نے کسی نہ کسی حد تک شرمندہ کا سامنا بھی کیا۔ آخر میں ہیڈ فون کے ذریعے سب کو پر سکون کرنے والی آوازیں سنائی گئیں۔

پروفیسر فارسٹر نے لندن میں ’نیو سائنٹسٹ لائیو ایونٹ‘ میں تھرمل تناؤ کی پیمائش کے اس نئے طریقہ کار کا مظاہرہ کیا۔ شاید اس نقطہ نظر کا سب سے حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ چونکہ تھرمل کیمرے جسمانی تناؤ کے ردعمل کی پیمائش کرتے ہیں جو بہت سے ’پرائمیٹس‘ میں فطری ہوتا ہے، لہذا اسے بندروں میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

محققین فی الحال چمپینزی اور گوریلا سمیت بڑے بندروں کی پناہ گاہوں میں اس کے استعمال پر کام کر رہے ہیں۔

وہ یہ کام کرنا چاہتے ہیں کہ کس طرح تناؤ کو کم کیا جائے اور جانوروں کی فلاح و بہبود کو بہتر بنایا جائے جو تکلیف دہ حالات سے گزرے ہوں اور انھیں مرنے سے بچایا گیا ہو۔

ٹیم نے پہلے ہی دریافت کیا ہے کہ بالغ چمپینزیوں کو بچے چمپینزیوں کی ویڈیو فوٹیج دکھانے سے ان پر پُرسکون اثر پڑتا ہے۔

جب محققین نے بچائے گئے چمپینزیوں کے انکلوژر کے قریب ایک ویڈیو سکرین لگائی تو انھوں نے جانوروں کی ناک دیکھی جو ’فوٹیج‘ میں گرم ہوتے ہوئے دکھائی دے رہی تھی۔

لہٰذا، تناؤ کے معاملے میں جانوروں کو کھیلتے ہوئے دیکھنا حیرت انگیز ملازمت کے انٹرویو یا گنتی کے کام کے برعکس ہے۔

بندروں کی پناہ گاہوں میں تھرمل کیمروں کا استعمال خطرناک حالات سے بچائے گئے جانوروں کو ایک نئے سماجی گروہ اور عجیب و غریب ماحول میں ایڈجسٹ کرنے اور آباد ہونے میں مدد کرنے میں قابل قدر ثابت ہوسکتا ہے۔

یونیورسٹی آف سسیکس کی ایک محقق ماریان پیسلے نے وضاحت کی کہ ’وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں۔ وہ تناؤ کو چھپانے میں کافی اچھے ہوسکتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’ہم نے پچھلے 100 سالوں سے پرائمیٹس کا مطالعہ کیا ہے تاکہ ہمیں اپنے آپ کو سمجھنے میں مدد ملے۔ اب ہم انسانی ذہنی صحت کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں، لہٰذا شاید ہم اسے استعمال کرسکتے ہیں اور انھیں واپس دے سکتے ہیں۔‘

لہٰذا شاید میری اپنی معمولی سائنسی آزمائش، ایک چھوٹے سے طریقے سے، ہمارے کچھ ’پرائمیٹ‘ کزنز میں پریشانی کو کم کرنے میں حصہ ڈال سکتی ہے۔

کیٹ سٹیفنز نے اضافی رپورٹنگ کی ہے جبکہ کیون چرچ نے تصاویر لی ہیں

باتھ روم میں پرورش پانے والے ہزاروں جراثیم جو شاور کھولتے ہی آپ کے چہرے پر آ گرتے ہیںانڈیا میں مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی تصویر جس کے بعد دلت نوجوان کو ’برہمنوں کی پوجا‘ پر مجبور کیا گیاان لوگوں کی کہانی جو ’بریک اپ‘ اور رومانوی تعلقات کے لیے مصنوعی ذہانت کی رہنمائی حاصل کرتے ہیںکیمسٹری کا نوبیل انعام جیتنے والے فلسطینی نژاد سائنسدان عمر یاغی کون ہیں؟ وہ چھوٹے چوہے جن کا ڈی این اے ’لمبی عمر کا راز‘ بتا سکتا ہے چھوٹے انسانی دماغ جو کمپیوٹر کی طرح کام کریں گے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More