پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی آے کی نجکاری کی کوشش گزشتہ روز اس وقت ناکام ہوئی جب اکلوتی بڈر نجی کمپنی نے اس کی بولی دس ارب روپے لگائی، جبکہ حکومت کی جانب سے کم از کم قیمت 85 ارب روپے مقرر کی گئی تھی۔ اسلام آباد میں سارا دن ہونے والی تقریب اس وقت بے نتیجہ ختم ہوئی جب بولی دہندہ پارٹی بلیو ورلڈ سٹی کنسورشیم نے 10 ارب روپے سے آگے بڑھنے سے بار بار وقت دیے جانے کے باوجود انکار کر دیا۔ایسے میں سوشل میڈیا پر صارفین بار بار یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ ایک پوری ایئر لائن کی جتنے کی بولی لگائی گئی ہے، اس سے تو ایک ایئر پورٹ بھی نہیں بنتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا ہوا ہی کیوں؟ ایسی کیا وجہ ہے کہ قومی ایئرلائین خریدنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے؟اس بات کو سمجھنے کے لیے پی آئی اے کی آخری فنانشل رپورٹ پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ یہ فنانشنل رپورٹ گزشتہ برس دسمبر میں اس وقت کی نگراں حکومت نے تیار کی جب پی آئی اے کو فروخت کرنے کی بات شروع ہوئی۔اس فنانشل رپورٹ کے مطابق پی آئی اے کے کل اثاثہ جات کی مالیت 560 ملین ڈالر یعنی نصف بلین ڈالر ہے، جبکہ پی آئی اے پر قرضوں کا کل حجم تقریباً پونے تین ارب ڈالر (تقریباً آٹھ سو ارب روپے) ہے۔ اس میں پینشن فنڈز، پراویڈنڈ فنڈ اور ادھار فیول کی خطیر رقم شامل ہے۔ حالانکہ حکومت نے پی آئی اے کو فروخت کے لیے پیش کرنے پر ان قرضوں کو تقریباً اپنے کھاتے میں ڈالتے ہوئے ان کو تقریباً دوسو ارب روپے تک یعنی ایک چوتھائی کر دیا۔ یعنی جو کوئی بھی پی آئی اے خریدے گا اس کے حصے میں دو سو ارب روپے ادا کرنے کی ذمہ داری بھی ہو گی۔یوں وفاقی کابینہ سے منظور شدہ رقم 85 ارب روپے اور دو سو ارب روپے کے قرضے ملا کر پی آئی اے کے 60 فیصد حصص آپ کے نام ہو سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ قومی ایئرلائن کے 7200 مستقل ملازمین بھی ’جہیز‘ میں آئیں گے۔ پی آئی اے پر قرضوں کا کُل حجم تقریباً آٹھ سو ارب روپے ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)ایوی ایشن ماہر ساجد حبیب کہتے ہیں کہ ’میرا خیال ہے کہ حکومت نے کچھ زیادہ ہی غلط اندازہ لگایا تھا۔ اس وقت پی آئی اے جس حالت میں ہے، اس کے پاس صرف 24 انٹرنیشنل لینڈنگ رائٹس ہیں۔‘اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یورپ ، برطانیہ اور امریکہ میں پی آئی اے پر جزوی اور کئی جگہوں پر مکمل پابندی ہے، اس لیے جو اسے خریدے گا، اس کو چیلجنز کا سامنا بھی ہو گا۔ ’موجودہ صورتحال میں سالانہ 80 سے 90 ارب روپے کا خسارہ دینے والی ایئرلائن کوئی جادو کی چھڑی سے تو ٹھیک ہونے سے رہی۔ خریدنے والے کو کم از کم آئندہ ایک دو سال کا خسارہ اسی رفتار سے سہنا پڑے گا۔ اس لیے بھی بین الاقوامی کمپنیوں نے بھی فنانشل رپورٹس دیکھنے کے بعد دلچسپی نہیں لی۔ بھائی سیدھی سی بات ہے کوئی پیسے خرچ کر کے کاروبار کی جگہ ناکامی کیوں خریدے گا؟‘خیال رہے کہ پی ڈی ایم کے دور میں جب قومی ایئرلائن کو فروخت کرنے کے لیے کام کا آغاز ہوا تو اس وقت کے وزیر ہوابازی خواجہ سعد رفیق نے کہا تھا کہ جو حالات ہیں پی آئی اے کو کوئی مفت بھی لینے کو تیار نہیں ہو گا۔ تو بظاہر حالیہ بولی کی ناکامی کی صورت میں ان کی بات کی تصدیق بھی ہوئی ہے۔