10 سال پہلے جب سفیر خان (فرضی نام) نے پشاور میں چوک یادگار کے ایک کرنسی ڈیلر کے پاس کام شروع کیا تھا تو انہیں کافی اچھا لگا تھا۔وہاں کام کرتے ہوئے انہیں اچھے خاصے پیسے ملتے تھے اور جب کاروبار بڑھتا تو ان کی آمدن میں مزید اضافہ ہو جاتا۔ اس وقت ان کی عمر 25 سال تھی۔ انہوں نے یہاں سے کمائے جانے والے پیسوں سے اپنی شادی کی، گھر بنایا اور کئی دیگر ضروریات پوری کیں۔سفیر خان نے کام کی ابتدا تو کرنسی ایکسچینج میں بطور اسسٹنٹ کے کی تھی، لیکن جلد ہی انہیں بیرون ملک سے حوالہ ہنڈی کے ذریعے آنے والی رقوم کے معاملات سنبھالنے اور ان رقوم کی بحفاظت ترسیل کرنے کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔وقت گزرنے کے ساتھ سفیر خان نے اس کاروبار میں ذاتی تعلقات بنائے اور پھر ایک دن اپنا کام شروع کردیا۔ انہوں نے اس کام میں کافی نام کمایا جو اعتماد کا نشان بن گیا۔ بیرون ملک سے جس کسی نے بھی کہیں بھی جتنی بھی رقم بھیجنی ہوتی وہ آنکھیں بند کر کے سفیر خان کے بندوں کے حوالے کردیتا اور وہ بحفاظت پاکستان میں مطلوبہ مقام تک پہنچ جاتی۔ سفیر خان اس میں سے اپنا معاوضہ حاصل کر لیتے۔لیکن پھر وقت ویسا نہیں رہا۔ پاکستانی حکومت نے غیر قانونی کرنسی ڈیلرز اور حوالہ ہنڈی کا کام کرنے والوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا اور چند سال پہلے پشاور کے غیرقانونی کرنسی اور حوالہ ہنڈی کے ڈیلرز کی مارکیٹ بند کر دی گئی۔اس سے سفیر خان کے کام کو دھچکا لگا لیکن انہوں نے کسی نہ کسی طریقے سے اس کو جاری رکھا، تاہم دو سال پہلے حکومت نے حوالہ ہنڈی کے خلاف شدید کریک ڈاون کیا جس کی وجہ سے بہت لوگ یہ کام چھوڑ کر متبادل کاروبار کرنا شروع ہو گئے۔لیکن سفیر خان کے لیے یہ کافی مشکل تھا کیونکہ انہیں کسی دوسرے کام کا تجربہ تھا اور نہ ہی سمجھ۔۔ ابتدا میں وہ کافی پریشان ہوئے کیونکہ حوالے ہنڈی کے کام کی سخت نگرانی ہو رہی تھی اور ان کے لیے پشاور جیسے مرکزی شہر میں یہ کام کرنا آسان نہیں تھا اور دوسرا کوئی کام انہیں کرنا نہیں آتا تھا۔پھر انہوں نے اس پریشانی کا حل ڈھونڈنا شروع کیا اور انہیں اس میں زیادہ دیر نہیں لگی۔بڑے شہروں سے چھوٹے مقامات پر منتقلیسفیر خان نے بتایا کہ انہوں نے جائزہ لیا تو انہیں اندازہ ہوا کہ ان کے بیشتر گاہک پاکستان کے قبائلی علاقوں کے چھوٹے شہروں یا قصبوں کے رہائشی ہیں جن کے رشتہ دار بیرون ملک سے رقوم بھجواتے ہیں۔ظفر پراچہ کے مطابق حکومت کے تمام تر کریک ڈاؤن کے باوجود حوالہ ہنڈی کا کام پچاس فیصد تک بند ہوا ہے (فوٹو: اے ایف پی)’پشاور اور دوسرے بڑے شہروں کے کم اور مضافات کے زیادہ لوگ بیرون ملک مقیم ہیں۔ انہی لوگوں کے رشتہ دار باہر سے حوالہ ہنڈی کے ذریعے رقم بھجواتے ہیں جو پھر یہ شہروں میں آکر وصول کرتے ہیں۔‘سفیر خان نے سوچا کہ اگر ان لوگوں کو ان کی رقوم ان کی دہلیز پر مل جائیں تو اس سے انہیں صرف اس مقصد کے لیے پشاور آنا بھی نہیں پڑے گا اور ان کا اپنا کام بھی کسی نہ کسی صورت چلتا رہے گا۔انہوں نے اس مقصد کے لیے مختلف شہروں مں مقامی لوگوں سے رابطے ڈھونڈے اور اپنے گاہکوں کو ان سے متعارف کروا کر مسئلے کا حل نکال لیا۔وہ کہتے ہیں کہ حوالہ ہنڈی کا سہارا درحقیقت لوگوں کی مجبوری ہے کیونکہ وہ بنکوں کی طرف سے رقوم منتقلی کے لیے مانگے جانے والی مختلف دستاویزات دینے سے بھی بچنا چاہتے ہیں۔ ’نہ صرف یہ کہ بنک رقوم کی منتقلی کے لیے زیادہ کمیشن وصول کرتے ہیں بلکہ وہ بہت ساری دستاویزات بھی مانگتے ہیں جو عام لوگ فراہم کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ اور قانونی اور بڑے کرنسی ڈیلرز کے چھوٹے شہروں میں دفاتر نہیں ہیں جس کی وجہ سے بہت سے لوگ آج بھی حوالہ ہنڈی کا سہارا لے رہے ہیں۔‘’حوالہ ہنڈی ڈیلروں نے اپنی جگہ نئے لوگ کھڑے کر دیے‘ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سینیئر رکن ظفر پراچہ کے مطابق حکومت کے تمام تر کریک ڈاؤن کے باوجود حوالہ ہنڈی کا کام پچاس فیصد تک بند ہوا ہے اور پچاس فیصد لوگ اب بھی مختلف طریقوں سے یہ کام کر رہے ہیں۔انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ حوالہ ہنڈی میں ملوث بیشتر لوگ جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظر میں تھے خود منظر سے غائب ہو گئے ہیں اور اپنی جگہ انہوں نے نئے لوگ کھڑے کر دیے ہیں جو ان کی جگہ ان کا کاروبار کر رہے ہیں۔ظفر پراچہ نے بتایا کہ حوالہ ہنڈی ختم کرنے کے لیے کی گئی کارروائی کے اثرات مرتب ہوئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)’حوالہ ہنڈی کے زیادہ تر واقعات میں اب بینک ملازمین ملوث ہیں جو رقم نکلوانے اور پہنچانے میں مدد کرتے ہیں۔ کئی بینکرز پکڑے بھی گئے ہیں لیکن ابھی بھی یہ کام جاری ہے۔‘’ حوالہ ہنڈی کے خلاف کارروائی سے اس کے منافعے میں اضافہ ہو گیا‘ظفر پراچہ نے بتایا کہ حوالہ ہنڈی ختم کرنے کے لیے کی گئی کارروائی کے اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اس کی وجہ سے اس میں پچاس فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے، لیکن اس کا ایک منفی اثر بھی ہوا ہے کہ اس کے منافعے میں اضافہ ہوا ہے اور جو لوگ یہ کام ابھی تک کر رہے ہیں وہ ان بنیادوں پر زیادہ منافع وصول کر رہے ہیں کہ اس میں اب سختی ہو گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو یہ کام ختم کرنے کے لیے کارروائی کا دائرہ کار وسیع کرنا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کرنسی مارکیٹ پر لگائی گئی غیر ضروری پابندیوں کا خاتمہ بھی ہونا چاہیے تاکہ ڈیمانڈ اور سپلائی میں اعتدال آ سکے۔’کرنسی کے لین دین پر بہت زیادہ پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔ لوگ اپنا انگوٹھا لگانے، ذاتی حیثیت میں ڈیلرشپ پر آنے اور شناختی کارڈ وغیرہ دینے سے ہچکچاتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا کام فون پر ہی ہو جائے۔ اس لیے بھی وہ قانونی لین دین کے بجائے حوالے ہنڈی جیسے کاموں کو ترجیح دیتے ہیں۔‘’حوالہ ہنڈی میں کمی سے ڈالر ریٹ بیس روپے مزید کم ہو گا‘ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ حکومت اگر یہ پابندیاں نرم کرے اور حوالہ ہنڈی کا صحیح معنوں میں خاتمہ کرکے رقم کی قانونی منتقلی کو آسان بنائے تو ڈالر کی قیمت میں بیس روپے کی مزید کمی ہو جائے گی۔ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ وہ نہ صرف حوالہ ہنڈی بلکہ سمگلنگ اور کرنسی کے غیر قانونی لین دین کے خلاف کارروائیاں مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے اور اس میں ملوث افراد کو روزانہ کی بنیادوں پر گرفتار اور ان کے کاروبار بند کیے جا رہے ہیں۔