سابق امریکی صدر جمی کارٹر 100 سال کی عمر میں وفات پا گئے ہیں۔ جب انھوں نے 20 جنوری 1977 کو امریکہ کی صدارت سنبھالی تو پاکستان کے ساتھ تعلقات میں شدید تناؤ تھا۔ لیکن دسمبر 1979 کے آخر میں افغانستان پر سوویت حملہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں بڑی تبدیلی کا باعث بنا۔
جب وہ برسراقتدار آئے تو انھوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ عوام سے کبھی جھوٹ نہیں بولیں گے۔
ان سے قبل رچرڈ نکسن واٹر گیٹ سکینڈل کے بعد مستعفی ہوئے تھے۔ جیورجیا سے تعلق رکھنے والے جمی کارٹر، جو مونگ پھلی کے کاشتکار ہوا کرتے تھے، نے اپنے دور صدارت کے دوران مصر اور اسرائیل کے درمیان ایک تاریخی امن معاہدہ کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
تاہم وہ افغانستان پر سوویت یونین کے حملے اور دوسری جانب ایران میں امریکی سفارت کاروں کو یرغمال بنائے جانے کے بحران سے نمٹنے میں مشکلات کا شکار رہے۔ صرف چار سال بعد 1980 میں رونلڈ ریگن نے انھیں شکست سے دوچار کر دیا۔
وائٹ ہاؤس سے بے دخلی کے بعد جمی کارٹر نے امن اور انسانی حقوق کے لیے بڑھ چڑھ کر کام کیا اور انھیں نوبل امن انعام سے بھی نوازا گیا۔ اکتوبر 2024 میں جمی کارٹر 100 سال کے ہوئے تو وہ امریکی تاریخ کے سب سے طویل العمر صدر بنے۔
جمی کارٹر نے 1974 میں امریکی صدارتی مہم کا آغاز ایک ایسے وقت میں کیا تھا جب امریکہ واٹر گیٹ سکینڈل سے گزر رہا تھا۔ کارٹر نے خود کو ایک سادہ کسان کی حیثیت سے پیش کیا جن کی شخصیت پر کوئی دھبہ نہیں تھا۔
Getty Imagesپاکستان کے جوہری پروگرام پر دباؤ: ’بھٹو کے ساتھ بہت بُرا ہوا‘
مورخ سیٹھ اے روٹرامل اس دور کی ڈی کلاسیفائی کی گئی امریکی دستاویزات کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ کارٹر کی صدارت کے پہلے تین برسوں میں امریکہ-انڈیا تعلقات بہتر ہوئے تھے جبکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات ’مرجھا گئے تھے۔‘
’امریکہ اور پاکستان کے تعلقات خصوصی طور پر جوہری پھیلاؤ کے مسائل کے گرد گھومتے تھے اور امریکہ اور انڈیا کے برعکس، دونوں ملکوں کے رہنماؤں کے درمیان ذاتی تعلقات بھی نہیں تھے۔‘
کارٹر نے پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام پر دباؤ ویسے ہی جاری رکھا جیسے ان کے پیش رو جیرالڈفورڈ اور رچرڈ نکسن کے ادوار میں تھا۔
اس دباؤ کی گواہی ڈی کلاسیفائی کی گئی امریکی سفارتی دستاویزات سے ملتی ہے۔
پہلے پاکستان کے صدر اور پھر وزیر اعظم کے طورپر ذوالفقار علی بھٹو نے یہ دباؤ برداشت کیا۔ یہاں تک کہ بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک پر بھی انگلیاں امریکہ کی جانب اٹھیں اور جب ان کا تختہ الٹ کر جنرل ضیاالحق نے اقتدار سنبھالا تو امریکی دستاویزات کے مطابق کارٹر نے طنزاً لکھا کہ ’ہمارے دیرینہ دوست بھٹو کے ساتھ بہت بُرا ہوا۔‘
روٹرامل لکھتے ہیں کہ جولائی 1977 میں جنرل ضیا کی جانب سے آئین کی معطلی اور اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ساتھ معزول وزیراعظم بھٹو کی قسمت پر طویل جنگ نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر تناؤ کو مزید بڑھا دیا۔
’چونکہ ضیا کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کر کے کارٹر مارشل لاکے نفاذ یا بھٹو کی گرفتاری کی توثیق نہیں کرنا چاہتے تھے، اس لیے کارٹر اور ضیا کے درمیان روابط نہیں تھے۔
'پاکستان میں جمہوریت کی معطلی، اس کے جوہری پروگرامپر شکوک کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا میں اسلحے کی دوڑ کے خدشات نے پاکستان کو امریکی اسلحے کی فروخت میں تیزی سے کمی اور پاکستان کے جدید ہتھیاروں اور جوہری ٹیکنالوجی کے حصول کو روکنے کے لیے امریکی قیادت میں بین الاقوامی کوششوں کو جنم دیا۔‘
امریکی دباؤ پر چوبیس اگست 1978 کے واشنگٹن پوسٹ کے مطابق فرانس پاکستان کو ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ فراہم کرنے کے معاہدے سے دستبردار ہو گیا۔
کارٹر انتظامیہ نے 1977 سے غیر رسمی طور پر پاکستان کو دی جانے والی خوراک کے علاوہ تمام امداد پہلے ہی بند کر رکھی تھی۔
Getty Imagesضیا دور میں امریکی امداد پر پابندی ہٹا دی گئی
اپریل 1978 میں ’ثور انقلاب‘ کے بعد نئی افغان حکومت اور سوویت یونین کے درمیان تعلقات میں بہتری کے ساتھ، پاکستانی حکومت کی دفاعی تشویش بڑھچکی تھی۔
لیکن کارٹر انتظامیہ کے لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں تھی۔ نو جون 1978 کو جنرل ضیا کو اپنے خط میںکارٹرنے اس مسئلے پر ذاتی ملاقات کی تجویز دی لیکن یہ ملاقات دو سال بعد ہی ہو پائی۔
جولائی 1978 کے اسلام آباد کے دورے کے دوران میں، امریکی انڈر سیکرٹری آف سٹیٹ برائے سیاسی امور ڈیوڈ نیوزوم سے پاکستان کے خزانہ، منصوبہ بندی اور رابطہ کاری کے وزیر غلام اسحاق خان نے کہا کہ انھیں ایسا لگتا ہے کہ ’امریکی ترجیحات کی کتاب میں پاکستان کی اب کوئی جگہ نہیں۔‘
چوبیس دسمبر کو سوویت افواج نے افغانستان پر حملہ کیا اور تین روز بعد یہاں حکمران حفیظ اللہ امین کو کابل میں محل میں قتل کر دیا۔
تب امریکی امداد بند تھی کیوں کہ پاکستان ایٹمی پابندیوں کی زد میں تھا۔
ڈان اوبرڈورفر لکھتے ہیں کہ اپریل 1979 میں پاکستان کی جانب سے ایٹم بم بنانے کے قابل خفیہ یورینیم افزودگی کا پلانٹ بنانے کی مہم کی وجہ سے امریکی اقتصادی اور فوجی امداد بند کردی گئی تھی۔
سال کے آخر میں پالیسی میں رد و بدل کرتے ہوئے، افغانستان پر سوویت حملے کے فوراً بعد کارٹر انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ کانگریس سے پاکستان کو دی جانے والی امداد پر پابندی ہٹانے کے لیے کہا جائے حالانکہ ایٹمی ہتھیاروں کا پروگرام جاری تھا۔
چوبیس دسمبر 1979 کا آنا تھا کہ سب کچھ بدل گیا اور صدر جمی کارٹر کی انتظامیہ کو جلدی سے پاکستان کے لیے فوجی اورمعاشی امداد کا پروگرام ترتیب دینا پڑا۔
کارٹر نےپاکستان کو سمنگٹن ترمیم سے مستثنیٰ کرنےکی منظوری دی اور دائیں حاشیہ میں لکھا: ’میں پھر بھی ایٹمی عدم پھیلاؤ کی یقین دہانی کے کچھ ذکر کو ترجیح دوں گا، اس سے زیادہ نہیں جو ہم پہلے ہی حاصل کر چکے ہیں۔‘
روٹرامل کے مطابق ’دسمبر 1979 کے آخر میں افغانستان پر سوویت حملہ امریکی تعلقات میں ایک بڑی تبدیلی کا باعث بنا۔
’کارٹر نے پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات کی کوشش کی۔ کارٹر نے پاکستانی صدر محمد ضیا الحق کے دور میں افغانستان پر سوویت قبضے کی مخالفت کے لیے ایک آمادہ (اگرچہ متضاد) ساتھی پایا کیونکہ ان پالیسی ترجیحات، جنھوں نے 1980 سے پہلے جنوبی ایشیا کے ساتھ امریکی تعلقات کو تشکیل دیا تھا، بڑی حد تک ترک کر دیا گیا تھا: کارٹر کی سوویت یونین کے خلاف حمایت کی کوششوں کے سامنے ان کی انتظامیہ کا جوہری پھیلاؤ کا خوف ماند پڑگیا تھا۔‘
’امریکہ-انڈیا تعلقات، جو وزیر اعظم مرارجی ڈیسائی کے دور میں پروان چڑھے تھے، اس وقت خراب ہو گئے جب نو منتخب وزیر اعظم اندرا گاندھی نے سوویت حملے کی مذمت نہیں کی۔‘
'تب تک امریکی وزرا یا دیگر عہدے دار ہی اپنے پاکستانی ہم منصبوں کے ساتھ بات چیت کرتے تھے۔ کارٹر اکثر پالیسی فیصلے پر حاشیے میں شریک ہوتے۔‘
جب امریکہ نے سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے پاکستان کی فوجی و معاشی معاونت کی’مرشد، امریکی سفارتخانہ جل رہا ہے۔۔۔‘ کعبہ کا محاصرہ اور جنرل ضیا کا سائیکل پر راولپنڈی کا دورہجب چین نے امریکہ سے کہا وہ بھٹو کو اپنے پاس رکھنے کو تیار ہےجب ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ امریکہ وہ ہاتھی ہے جو نہ بھولتا ہے، نہ چھوڑتا ہے
روٹرامل لکھتے ہیں کہ ’تاہم سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد پاکستان کے ساتھ تعلقات کا انتظام محکمہ خارجہ سے وائٹ ہاؤس اور تھوڑی حد تک محکمہ دفاع اور مرکزی انٹیلی جنس ایجنسی کو منتقل ہو گیا۔ دستاویزات اس تبدیلی کی عکاسی کرتی ہیں۔‘
’1979 کے بعد، واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان بات چیت اور خطوط سے کارٹر کی پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں ذاتی دلچسپی کا پتا چلتا ہے، جب کہ صدر کے معاون برائے قومی سلامتی امور زبیگنیو برزینسکی نے پاکستان کی عسکری مدد کے لیے امریکی کوششوں کی ذمہ داری سنبھالی۔‘
امریکہ اور پاکستان حریف سے حلیف کیسے بنے
11 جنوری 1980 کو صدر کارٹر نے صدر ضیا کو خط میں لکھا کہ افغان حکومت کا تختہ الٹنا اور سوویت فوجی دستوں کے ذریعے اس ملک پر قبضہ خطے کے استحکام اور سب سے براہ راست پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک گہرے پریشان کن خطرے کی نمائندگی کرتا ہے۔
’ان حالات میں یہ ضروری ہے کہ پاکستان کی سلامتی اور علاقائی سالمیت کے لیے امریکہ کے عزم کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہ رہے۔‘
15 جنوری کو نیوز ایڈیٹرز اور ڈائریکٹرز کے ساتھایک انٹرویو میں، امریکی صدر جمیکارٹر پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو بڑھانے کی ضرورت پر زوردیا۔
اٹھارہ جنوری 1980 کو اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کہلاتی اپنی وزارت خارجہ کو ایک تار بھیجا جس میں پاکستان کے فوجی حکمران جنرل ضیاالحق نے امریکی اخبار نویسوں کے ساتھ بات چیت میں، ہنسی اڑاتے ہوئے امریکہ کی 400 ملین ڈالرکی متوقع امداد کو ’انتہائی مایوس کن‘ کہا اور اس کے انتہائی ناکافی ہونے کا اظہار ’پی نٹس‘ یا ’مونگ پھلی‘ قرار دے کر کیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ اتنے پیسوں میں پاکستان کا دفاع تو نہیں ہوسکتا، سوویت یونین کی دشمنی ہی مول لی جاسکتی ہے۔
اس سال اپنے سٹیٹ آف دی یونین پیغام میںصدر کارٹر نے نشاندہی کی کہ پاکستان کی آزادی اور سلامتی امریکہ کے لیے بہت اہم ہے۔
کارٹرنے اعلیٰ پاکستانی عہدے داروں سے اپنے دور کے آخری حصے میں ملاقاتیں کیں۔
جنرل ضیا نے کارٹر کی دعوت پر صدر جمی کارٹر اور قومی سلامتی کے مشیر برزینسکی سے 3 اکتوبر 1980 کو ملاقات کی۔
ملاقات کے بعد کارٹرنے کہا ’ہم آپ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں اور اس دوستی کی عظیم قدر کا اظہار کرتے ہیں جو ہمارے دونوں لوگوں کے درمیان موجود ہے۔‘
جنرل ضیا نے کہا کہ انھوں نے کارٹر کو ’گہری سمجھ رکھنے والی، انسان دوست اور آزادی دوست شخصیت اور امریکہ کے صدر کی حیثیت سے، آزاد دنیا کے لیے روشنی کی کرن پایا۔‘
مریم سومرو کی انقرہ یونیورسٹی کے لیے اسی موضوع پر ایکتحقیق کا اختتام اس جملے پر ہوتا ہے کہ اس دور میںامریکہ اور پاکستان دونوں نے افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کو ایک ایسے واقعہ کے طور پر دیکھا جس کے لیے تعاون کی ضرورت تھی اور یوں دونوں ایک دوسرے کے حلیف بن گئے۔
Getty Imagesمشرق وسطیٰ سے متعلق پالیسی، ’دل میں زنا‘ کا متنازع بیان اور نوبیل انعام
کارٹر کی مہم کے آغاز کے لیے وہ بہترین وقت تھا۔ امریکی عوام کسی ایسی شخصیت کو صدر کے طور پر دیکھنا چاہتی تھی جو سیاسی میدان میں نووارد ہو۔
ایسے میں انھوں نے ایک انٹرویو کے دوران سب کو حیران کر دیا جب انھوں نے اعتراف کیا کہ ’میں نے اپنے دل میں کئی بار زنا کیا ہے۔‘ یہ انٹرویو انھوں نے پلے بوائے میگیزن کو دیا تھا۔ تاہم ان کی نجی زندگی میں ایسا کوئی سکینڈل سامنے نہیں آیا۔
ابتدا میں سروے کے مطابق صرف چار فیصد ڈیموکریٹ ہی ان کی حمایت کر رہے تھے لیکن نو ماہ کے اندر ہی انھوں نے جیرالڈ فورڈ کو شکست سے دوچار کیا۔
صدر کا عہدہ سنبھالتے ہی کارٹر نے ہزاروں ایسے نوجوانوں کو معافی دی جو ویتنام جنگ میں حصہ نہیں لینا چاہتے تھے اور فوجی سروس سے بچنے کے لیے ملک چھوڑ گئے تھے۔ ان کے ایک رپبلکن ناقد سینیٹر بیری گولڈ واٹر نے اس فیصلے کو کسی بھی صدر کا ’سب سے شرمناک کام‘ قرار دیا تھا۔
موسمیاتی تبدیلی کے معاملے کو سنجیدگی سے لینے والے وہ پہلے بین الاقوامی سربراہ تھے جن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ وائٹ ہاوس میں جینز اور سویٹر پہنتے تھے اور توانائی کی بچت کے لیے حرارت کا نظام بند کروا دیا کرتے تھے۔
کارٹر نے وائٹ ہاؤس کی چھت پر سولر پینل بھی نصب کروائے جنھیں بعد میں رونلڈ ریگن نے اتروا دیا تھا۔
Getty Images
جمی کارٹر کی مشرق وسطی پالیسی مصر اور اسرائیل کے درمیان کیمپ ڈیوڈ کے تاریخی معاہدے سے شروع ہوئی۔
تاہم بعد میں امریکہ کو ایران میں انقلاب کا سامنا کرنا پڑا اور ایران کے سابق حکمران محمد رضا شاہ پہلوی کی امریکہ سے بے دخلی کا مطالبہ کرنے والے ایرانی مظاہرین نے چار نومبر 1979 کو تہران میں امریکی سفارت خانے پر دھاوا بول کر عملے کے 66 ارکان سمیت 99 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔
چار ماہ بعد مارچ 1980 میں جب اس سفارت خانے کے عملے کی تصاویر جب امریکہ کے ٹی وی چینلوں پر نشر کی گئیں تو ان امریکی شہریوں کے بارے میں ملک میں پہلے سے موجود تشویش میں شدید اضافہ ہو گیا۔ عملے کے ایک رکن کی ماں نے صدر کارٹر سے کہا کہ وہ ایک ماں کی حیثیت سے ایک باپ سے کہتی ہیں کہ ’خدارا کچھ کریں۔‘
اس وقت تک یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ اس مسئلے کا کوئی سفارتی حل جلد ممکن نہیں ہے۔ ان سفارت کاروں کو وطن واپس لانے کا کوئی راستہ تلاش کرنے کے لیے صدر کارٹر شدید عوامی دباؤ میں تھے، جو دن بدن بڑھتا جا رہا تھا۔
آخر کار کسی سفارتی حل کی کوئی امید نہ ہونے کی وجہ سے صدر کارٹر نے 66 امریکی شہریوں کی بازیابی کے لیے ایک انتہائی پیچیدہ اور خطرناک آپریشن کی اجازت دے دی۔ لیکن یہ مشن ناکام رہا جس میں آٹھ امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ اس واقعے کے بعد جمی کارٹر کے دوبارہ منتخب ہونے کے امکانات بھی ختم ہو گئے اور 1980 میں کارٹر رونلڈ ریگن کے ہاتھوں شکست کھا بیٹھے۔
صدارت کے آخری دن کارٹر نے اعلان کیا کہ ایران میں مغوی سفارت کاروں کی رہائی کے لیے مزاکرات کامیاب ہو چکے ہیں تاہم ایران نے صدر ریگن کی تقریب حلف برداری تک رہائی کا عمل روکے رکھا۔
Getty Images
2002 میں جمی کارٹر وہ تیسرے امریکی صدر بنے، جنھیں امن کا نوبیل انعام دیا گیا۔ ان سے پہلے تھیوڈور روزویلٹ اور وڈرو ولسن بھی امن کا نوبل انعام حاصل کر چکے تھے۔
اپنے خطاب میں کارٹر نے کہا تھا کہ ’سب سے سنجیدہ اور عالمی مسئلہ زمین پر سب سے امیر اور سب سے غریب افراد میں بڑھتے ہوئی خلیج ہے۔‘
کارٹر نے اپنی باقی ماندہ زندگی سادگی سے گزاری۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میرا کبھی بھی بہت زیادہ امیر ہونے کا خواب نہیں تھا۔‘
وہ دور جدید کے واحد امریکی صدر تھے جو عہدہ چھوڑنے کے بعد اسی مکان میں منتقل ہوئے جس میں وہ سیاست میں آنے سے قبل رہائش پذیر تھے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ان کے مکان کی قیمت کا تخمینہ ایک لاکھ 67 ہزار ڈالر لگایا گیا تھا یعنی ان کے مکان کے باہر تعینات سیکرٹ سروس اہلکاروں کی گاڑیوں سے بھی کم قیمت۔
2015 میں جمی کارٹر نے اعلان کیا تھا کہ وہ سرطان کا علاج کروا رہے ہیں۔ تاہم وہ سیاسی اعتبار سے پھر متحرک ہوئے اور رواں سال نومبر میں انھوں نے کہا تھا کہ ’میں کوشش کر رہا ہوں کہ کملا ہیرس کو ووٹ دے سکوں۔‘ انھوں نے کملا کو ووٹ دیا بھی لیکن ان کی آبائی ریاست جیورجیا میں بھی ٹرمپ ہی جیتے۔
’مرشد، امریکی سفارتخانہ جل رہا ہے۔۔۔‘ کعبہ کا محاصرہ اور جنرل ضیا کا سائیکل پر راولپنڈی کا دورہجب امریکہ نے سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے پاکستان کی فوجی و معاشی معاونت کیامریکی صدر کارٹر کے طنزیہ الفاظ 'ہمارے دیرینہ دوست بھٹو کے ساتھ بہت برا ہوا!'جب چین نے امریکہ سے کہا وہ بھٹو کو اپنے پاس رکھنے کو تیار ہےتہران میں یرغمال امریکیوں کی بازیابی کا امریکی مشن کیسے ناکام ہواجب ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ امریکہ وہ ہاتھی ہے جو نہ بھولتا ہے، نہ چھوڑتا ہے