تیندوے کے حملے روکنے کے لیے سر پر ماسک پہننے کا مشورہ: یہ طریقہ آخر کہاں سے آیا اور کتنا موثر ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jan 15, 2025

BBC

انڈین ریاست اتر پردیش کے ضلع بجنور میں ان دنوں سردیوں کے موسم میں ایک دلچسپ منظر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ خواتین اور مرد گنے کے کھیتوں میں کام کر رہے ہیں اور ان سب کے سروں پر ماسک نظر آ رہے ہیں۔

دراصل یہ ماسک تیندوے کے حملوں سے بچانے کی کوشش ہیں کیونکہ بجنور میں تیندوے کا خوف ہے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سنہ 2023 سے لے کر اب تک صرف بجنور میں تیندووں نے 17 افراد کی جان لی۔مرنے والوں میں زیادہ تر بچے ہیں تاہم تیندوے جوان اور بوڑھے افراد پر بھی حملے کر رہے ہیں۔

تیندووں کے بڑھتے حملوں کی وجہ سے اب محکمہ جنگلات نے کسانوں میں ایک خاص قسم کے ماسک تقسیم کیے ہیں اور ہدایت کی گئی ہے کہ انھیں سر کے پچھلے حصے پر پہنا جائے۔

’میری بیٹی نے چلا کر کہا کہ ماں دیکھو یہ کوئی جانور ہے‘

بجنور کی رہائشی سنیتا دیوی کہتی ہیں کہ ’پچھلے سال 11 اکتوبر کا دن تھا۔ صبح کے آٹھ بج رہے تھے۔ میں اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے ساتھ کھیتوں میں جا رہی تھی۔‘

’ہم گنے کے کھیت میں فصلوں کے درمیان پگڈنڈی پر چل رہے تھے کہ اچانک ہمیں اپنے پیچھے ایک آواز سنائی دی۔ میری بیٹی نے چلا کر کہا کہ ’ماں، دیکھو یہ کوئی جانور ہے۔‘ میرے سامنے ایک تیندوا تھا جو میرے خاندان کو گھور رہا تھا۔‘

سنیتا کی بیٹی سونیا اس بارے میں مزید بتاتی ہیں کہ وہ پیچھے چل رہی تھیں۔ ان کی چھوٹی بہن تانیا درمیان میں تھیں جبکہ ان کی والدہ آگے چل رہی تھیں اور پھر تیندوے نے حملہ کر دیا۔

سونیا اپنے بھائی کے ساتھ بھاگ گئیں لیکن تیندوا ان کی چھوٹی بہن تانیا کو لے گیا۔ وہ تیسری جماعت میں پڑھتی تھیں۔

تانیا کے والد بلند نے مجھے ایک جگہ دکھائی اور بتایا کہ تیندوے نے ان کی بیٹی کی لاش کو پتوں اور مٹی سے ڈھانپ دیا تھا۔

بلند نے بتایا کہ بیٹی کی موت پر محکمہ جنگلات نے انھیں 5 لاکھ روپے معاوضہ دیا۔

BBC’میں نے تیندوے کو مار دیا لیکن میرے سر پر 80 ٹانکے لگے‘

بجنور کے علاقے افضل گڑھ میں 16 اکتوبر 2024 کو تقریباً 2 بجے کا وقت تھا۔ 55 سالہ ریٹائرڈ سپاہی تکویر سنگھپر تیندوے نے حملہ کیا لیکن انھوں نے تیندوے کا مقابلہ کیا اور اسے مار دیا۔

اس جدوجہد میں تکویر کی جان بھی خطرے میں تھی تاہم بروقت علاج کی وجہ سے وہ بچ گئے۔

تکویر سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں کھیتوں سے گھر واپس آ رہا تھا کہ اچانک تیندوا میرے سامنے آ گیا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھ پاتا، اس نے مجھ پر حملہ کر دیا۔ میں نے مکے مارے اور لاٹھیوں سے اس پر حملہ کیا۔‘

’کسی طرح میں نے اپنی جان بچانے کی کوشش کی۔ میرے سر پر 80 ٹانکے لگے۔ میں تقریباً دس دن تک ہسپتال میں داخل رہا۔ میرے سر میں اب بھی درد ہوتا ہے۔ مجھے حکومت سے کوئی معاوضہ نہیں ملا۔‘

تیندوے کی ہلاکت، لاش عدالت میں پیش مگر یہ تیندوا کیرتھر میں کہاں سے آیا؟برفانی تیندوے کی لاکھوں روپے مالیت کی کھال لاہور سے کیسے پکڑی گئی؟’زخمی تیندوے کے عوض لاکھوں آفر ہوئے مگر والدہ اور بہن نے منع کر دیا‘ڈی ایچ اے سے ریسکیو ہونے والا تیندوا کہاں ہے؟سر کے پیچھےماسک پہننے کے معنی

نیتو دیوی دھام پور میں گنے کے کھیت میں کام کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے علاقے میں تیندوے کا بہت خوف ہے۔ محکمہ جنگلات نے بتایا ہے کہ تیندوے پیچھے سے حملہ کرتے ہیں۔‘

’سر کے پیچھے ماسک تیندوے کو یہ سوچنے پر مجبور کرے گا کہ ہم اسے دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے وہ حملہ نہیں کرے گا۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ کتنا کارآمد ہے لیکن یہ کسی بھی چیز سے بہتر ہے۔‘

محکمہ جنگلات کے ڈویژنل فارسٹ آفیسر (ڈی ایف او) گیان سنگھ اس کی وجہ بتاتے ہیں کہ ’زیادہ تر ہم نے دیکھا ہے کہ چیتا جب انسان کو سامنے سے دیکھتا ہے اور ان کی آنکھیں مل جاتی ہیں تو وہ حملہ نہیں کرتا۔ اسی لیے ہم نے کسانوں کو خبردار کیا۔‘

’ماسک سے تیندوے کو یہ گمان ہو گا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے تاہم یہ کوئی اصول نہیں کہ تیندوے سامنے سے انسانوں پر حملہ نہ کریں۔‘

ڈی ایف او کے مطابق یہ تجربہ بنگال کے سندربن میں تقریباً کامیاب ثابت ہوا۔ ’اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے یہ تجربہ یہاں شروع کیا۔ اب تک یہ ماسک پانچ ہزار کسانوں میں تقسیم کیے جا چکے ہیں۔‘

جنگلی حیات کے ماہر یادوندر سنگھ جھالا نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ درست ہے کہ جانور پیچھے سے حملہ کرتے ہیں لیکن ہر وقت ماسک پہننا ممکن نہیں۔

’اکثر تیندوے سے سامنا ہوتا ہے‘BBC

ملک پور میں گنے کے کھیت میں کام کرنے والی سروج دیوی نے بتایا کہ ان کا اکثر اس جانور سے سامنا ہوتا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انھیں ماسک ملا یا نہیں تو ان کا جواب تھا نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کے باوجود وہ فارم پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔

گاؤں والوں کا دعویٰ ہے کہ یہاں ہر روز تیندوے اپنے بچوں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب ڈی ایف او نے دعویٰ کیا کہ وہ ان لوگوں کو ماسک دیتے ہیں جو کھیتوں میں کام کرتے نظر آتے ہیں۔

کھیتوں میں کام کرنے والے زیادہ تر لوگ غریب ہیں۔ وہ کھیتوں میں مزدوری کر کے اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں۔ اس دوران بچے اور بوڑھے بھی ان کے ساتھ کھیتوں میں آتے ہیں۔

گزشتہ چند برس میں بجنور کے علاقے افضل گڑھ، ریہڑ، نہتور، نگینہ وغیرہ میں اس طرح کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں، جہاں تیندوے گھر کے اندر گھس کر بھی انسانوں پر حملہ کرتے ہیں۔

محکمہ جنگلات نے کئی تیندووں کو پکڑا بھی لیکن بعد ازاں انھیں محفوظ مقامات پر چھوڑ دیا گیا تاہم کسانوں کا دعویٰ ہے کہ انھیں قریب چھوڑنے سے وہ انسانی آبادی والے علاقوں میں واپس آجاتے ہیں۔

ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کے وزیر مملکت کیرتی وردھن سنگھ نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ان کی ’وزارت کی طرف سے مارچ 2023 میں انسان اور جنگلی حیات کے تصادم کو روکنے کے لیے ایک ہدایت نامہ جاری کیا گیا تھا۔‘

’اس ہدایت نامے میں بتایا گیا کہ جنگلی حیات کے ساتھ تصادم کو کیسے روکا جائے اور ان مقامات کی نشاندہی بھی کی گئی جہاں یہ تصادم ہو سکتا ہے۔ ریاستی حکومتوں کو اس ہدایت نامے پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔‘

سندربن ماڈل کیا ہے؟

انڈیا میں اس طرح کے ماسک پہلی بار سنہ 1989 میں سندربن کے ریزرو جنگل میں استعمال کیے گئے تھے۔ اس میں مقامی لوگوں کو شیروں کے حملوں سے بچانے کے لیے ماسک دیے گئے تھے۔

محکمہ جنگلات کے مطابق وہاں اس کا استعمال کامیاب رہا۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے بجنور میں تیندوے کے حملوں سے بچنے کے لیے ایک تجربے کے طور پر اس کا آغاز کیا گیا۔

تاہم جنگلی حیات کے ماہر یادوندر سنگھ جھالا کا کہنا ہے کہ سندربن میں اب کوئی بھی اسے استعمال نہیں کرتا لہذا یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ کس حد تک کامیاب رہا۔

فروری 2024 میں انڈین حکومت کی وزارت جنگلات اور ماحولیات کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق ملک میں تیندووں کی آبادی تقریباً 13 ہزار 874 ہے۔

300 فٹ بلند درخت پر پھنسا تیندوا اور 1000 فٹ گہری کھائی: ’ڈر تو لگ رہا تھا مگر سوچا کہ میرا رزق اس جنگلی حیات کی وجہ سے ہے‘تیندوے کی ہلاکت، لاش عدالت میں پیش مگر یہ تیندوا کیرتھر میں کہاں سے آیا؟ڈی ایچ اے میں تیندوا: پاکستان میں شیر، چیتے اور تیندوے کو بطور پالتو جانور رکھنے پر کیا سزا ہو سکتی ہے؟تیندوا جو تین سو اہلکاروں سے بھی نہیں پکڑا جا رہابرفانی تیندوے کی لاکھوں روپے مالیت کی کھال لاہور سے کیسے پکڑی گئی؟’زخمی تیندوے کے عوض لاکھوں آفر ہوئے مگر والدہ اور بہن نے منع کر دیا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More