انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) نے اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ دو چھوٹی خلائی گاڑیوں کو جوڑ کر سپیس ڈاکنگ کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔
یہ ایک ٹیکنالوجی ملک کے لیے اس لیے اہم ہے کیونکہ انڈیا مستقبل میں چاند پر ایک سپیس سٹیشن بنانا چاہتا ہے اور وہاں اپنے خلابازوں کو بھیجنا چاہتا ہے۔
انڈیا نے اس مشن کو سپیڈایکس (سپیس ڈاکنگ ایکسپیریمنٹ) کا نام دیا تھا اور دونوں خلائی گاڑیوں کو 30 نومبر کو ایک ہی راکٹ کے ذریعے جنوبی انڈیا میں واقع ایک لانچ پیڈ کے ذریعے فائر کیا گیا تھا۔ یہ خلائی گاڑیاں خلا میں جا کر جدا ہو گئی تھیں۔
خلا میں ڈاکنگ کا یہ عمل ابتدائی طور پر 7 جنوری کو پورا ہونا تھا لیکن بعد میں اس میں متعدد مرتبہ تاخیر ہوئی تھی۔
تاہم جمعرات کو اسرو نے اعلان کیا کہ ان کا ملک امریکہ، روس اور چین کے بعد سپیس ڈاکنگ کا کامیاب تجربہ کرنے والا چوتھا ملک بن گیا ہے۔
جس وقت سائنسدان یہ تجربہ کر رہے تھے اس وقت ملک کے وزیرِ اعظم نریندر مودی اسرو کے بنگلور آفس میں خود موجود تھے۔
انڈین وزیرِ اعظم نے بعد میں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’آنے والے برسوں میں (سپیس ڈاکنگ کی کامیابی) انڈیا کے خلائی مشنز کے لیے اہم سنگِ میل ثابت ہو گی۔‘
انڈیا کے وزیر برائے سائنس جتیندر سنگھ نے بھی سکون کا سانس لیا ہے کیونکہ ’بالآخر‘ ان کا ملک سپیس ڈاکنگ کا کامیاب تجربہ کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔
سپیس ڈاکنگ میں استعمال ہونے والی خلائی گاڑیوں کو ایس ڈی ایکس 01 (چیسر) اور ایس ڈی ایکس 02 (ٹارکٹ) کا نام دیا گیا تھا اور دونوں گاڑیوں کا وزن 220 کلوگرام تھا۔ اپنی لانچ کے بعد دونوں ہی گاڑیاں انتہائی محتاط انداز میں خلا کی طرف سفر کر رہی تھیں۔
امریکی خلائی ادارے ناسا کے سابق سائنسدان اور دہلی میں واقع سپیس ایجوکیشن کمپنی سٹیم اینڈ سپیس کمپنی کی شریک بانی مائلا مترا کہتی ہیں کہ: ’دونوں خلائی گاڑیوں کو ایک ساتھ خلا میں بھیجا گیا تھا، تاہم ان کی رفتار مختلف رکھی گئی تھی تاکہ ان کے درمیان 10 سے 20 کلومیٹر کا فاصلہ برقرار رہ سکے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ڈاکنگ کے عمل کے دوران سائنسدانوں نے ان کی رفتار اور سمت میں تبدیلی کی تاکہ وہ آپس میں جُڑ سکیں۔‘
سپیس ڈاکنگ کے عمل کے لیے سات جنوری کے دن کا تعین کیا گیا تھا لیکن بعد میں اسرو نے اس میں دو روز کی تاخیر کی اور کہا کہ انھیں ’مزید کچھ ٹیسٹس کرنے کی ضرورت ہے۔‘
تاہم گذشتہ اتوار کو انڈین سائنسدان دونوں خلائی گاڑیوں میں فاصلہ پہلے صرف 15 میٹر اور بعد میں اسے مزید کم کر کے تین میٹر تک کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
جنرل اوپیندر دِویدی کا کشمیر میں پاکستانی عسکریت پسندوں کی موجودگی کا دعویٰ ’انڈین فوج کی سیاست زدہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے‘، آئی ایس پی آرانڈیا کے کشمیر سے لداخ تک سُرنگیں تعمیر کرنے کے پیچھے کیا مقاصد ہو سکتے ہیں؟انڈین سائنسدان سمندر میں چھ ہزار میٹر کی گہرائی تک کیوں جانا چاہتے ہیں؟60 ارب کا فراڈ کرنے والا مفرور ملزم جو وائی فائی کی وجہ سے پکڑا گیا
اسرو کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ پہلی تجرباتی کوشش کے بعد وہ ان دونوں خلائی گاڑیوں کو ’محفوظ فاصلے پر دوبارہ دھکیلنے میں‘ کامیاب ہو گئے تھے۔
جس وقت سپیڈ ایکس مشن کو شروع کیا گیا اس وقت ایس سومناتھ اسرو کے سربراہ تھے اور انھوں نے ان خلائی گاڑیوں کی لانچ کی نگرانی کی تھی۔ تاہم وہ کچھ دنوں پہلے ہی اپنی ملازمت سے ریٹائر ہوئے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ سپیس ڈاکنگ ’ایک انتہائی پیچیدہ عمل‘ ہے جس میں انتہائی احتیاط برتنی ہوتی ہے۔
سب سے پہلے دونوں خلائی گاڑیوں کو ایک ہی مدار میں چھوڑا جاتا ہے تاکہ پہلی گاڑی یعنی چیسر دوسری گاڑی یعنی ٹارگٹ تک کا سفر شروع کر سکے۔
جمعرات کو انڈین سائنسدانوں نے دونوں خلائی گاڑیوں کی رفتار کم کرنا شروع کی اور دونوں کو اتنا قریب لے آئے کہ ان کے درمیان فاصلہ صرف تین میٹر رہ گیا۔ بعد میں دونوں خلائی گاڑیوں کے کنیکٹرز کھلے اور وہ آپس میں جُڑ گئیں۔
دوسرے مرحلے میں دونوں خلائی گاڑیوں کے درمیان راستہ بن گیا جس کے سبب اس میں سوار افراد اور سامان کی منتقلی ممکن ہو سکی اور اسی کے ساتھ سپیس ڈاکنگ کا عمل مکمل ہوا۔
اسرو کے ایک عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ اگلے دو سے تین روز میں ان کا مشن سب سے اہم تجربہ کرے گا جس کے نتیجے میں چیسر سے برقی توانائی ٹارگٹ میں منتقل کی جائے گی۔
مائلا مترا کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ ایک خلائی گاڑی کو کسی دوسری خلائی گاڑی کی مرمت کرنے کے لیے خلا میں بھیجا جا سکتا ہے۔
اس کے بعد ایک تجربے کے ذریعے ’ان ڈاکنگ کی جائے گی اور دونوں سیٹلائٹس ایک دوسرے سے علیحدہ ہو جائیں گی۔‘
مائلا مترا کا کہنا ہے کہ اس مشن میں انڈیا کی انٹر سیٹلائٹ کمیونیکیشن کی صلاحیتوں کا بھی امتحان ہو گا کیونکہ اس تمام عمل کے دوران خلائی گاڑیوں کا زمین سے رابطہ ہونا ضروری ہے تاکہ انھیں اس کی رفتار کا اندازہ ہو سکے۔
ان خلائی گاڑیوں میں سائنسی آلات اور کیمرے بھی موجود ہیں۔ اگلے دو برسوں تک یہ کیمرے خلا میں ریڈی ایشن اور زمین پر قدرتی وسائل کی نگرانی کریں گے۔
’دنیا کا سب سے بڑا ڈیم‘: چین کا وہ منصوبہ جو انڈیا کو تشویش میں مبتلا کر رہا ہےجنرل بپن راوت: انڈیا کے سابق آرمی چیف کے ہیلی کاپٹر حادثے کی وجہ ’انسانی غلطی‘ کیوں قرار دی گئیکیا پاکستان واقعی ایسا میزائل بنا سکتا ہے جو امریکہ تک پہنچ جائے؟’سی آئی اے سے تربیت یافتہ‘ تبت کے کمانڈو جنھیں انڈیا نے 1971 میں پاکستان کے خلاف استعمال کیاآرمی چیف کے دفتر سے پاکستانی فوج کے جنرل نیازی کی تصویر ہٹانے پر سابق انڈین فوجی ناراض کیوںانڈین جزیرے پر ’ہانگ کانگ طرز‘ کا منصوبہ جسے مقامی قبیلوں کے لیے ’سزائے موت‘ کہا جا رہا ہے