وہ طبلہ نہیں بجانا چاہتے تھے۔ وہ راک اینڈ رال میں شہرت اور دولت کمانے کے خواہاں تھے اور موسیقی کے مشہور بینڈ ’بیٹلز‘ کی موسیقی سنتے ہوئے بمبئی کی گلیوں میں آوارہ گردی کیا کرتے، مگر کچھ ہی عرصے بعد ہندوستان کی کلاسیکی موسیقی نے اُن کو اپنی جانب متوجہ کر لیا اور پھر ایک ایسے فنکار کا جنم ہوا جس نے طبلے کو عالمی سطح پر متعارف کروایا۔
یہ کہانی عظیم موسیقار اور طبلہ نواز استاد ذاکر حسین کی ہے جو آج ہی کے روز 9 مارچ 1951 کو بمبئی میں پیدا ہوئے جن کی انگلیوں کی جادوئی حرکت کے باعث طبلے کی آواز مشرق سے مغرب تک گونجنے لگی اور لوگ بے اختیار اُن کے فن پر اَش اَش کر اٹھتے۔
استاد ذاکر حسین موسیقاروں کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ والد استاد اللہ رکھا عظیم طبلہ نواز تھے۔
وہ اگرچہ کشمیر کے ڈوگرہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے مگر موسیقی سیکھنے کا جنون اُن کو غیرمنقسم ہندوستان کے شہر گرداس پور لے آیا جہاں وہ موسیقاروں کے خاندان پنجاب گھرانے کے میاں قادر بخش کے شاگرد ہو گئے جن کا کوئی بیٹا نہیں تھا، تو انہوں نے استاد اللہ رکھا کو اپنا بیٹا بنا لیا اور پنجاب گھرانے کا سربراہ بھی۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ بتاتے چلیں کہ اُس وقت طبلہ بجانے کے فن میں پنجاب گھرانے کے علاوہ دہلی، بنارس، فرخ آباد، لکھنئو اور اجرارہ گھرانے نمایاں تھے۔ معروف طبلہ نواز اُستاد سجاد علی خان پنجاب گھرانے سے ہی تھے۔
اُستاد اللہ رکھا نے موسیقی کو اپنی روح میں اُتارنے کے لیے خوب محنت کی۔ اُن دنوں ہی سال 1936 میں وہ آل انڈیا ریڈیو لاہور سے بطور سٹاف آرٹسٹ وابستہ ہو گئے۔ کچھ عرصے بعد بمبئی منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے کچھ فلموں کے لیے موسیقی بھی کمپوز کی۔
نسرین منی کبیر ٹیلی ویژن پروڈیوسر اور ہدایت کار ہیں۔ انہوں نے بالی وڈ پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں جن میں گرودَت، گلزارؔ، وحیدہ رحمان سمیت اور بہت سی شخصیات پر لکھی اُن کی کتابیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔
ذاکر حسین بمبئی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد امریکہ چلے گئے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی
اُستاد ذاکر حسین پر اُن کی کتاب ’ذاکر حسین: اے لائف اِن میوزک‘ سال 2018 میں شائع ہوئی جس کے لیے انہوں نے اس بے مثل فنکار سے متعدد طویل انٹرویو کیے۔
ذاکر اس کتاب میں اپنے والد کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہمارے ابا کسانوں کے خاندان میں پیدا ہوئے۔ وہ گیارہ سال کے تھے جب وہ گھر سے بھاگ کر اپنے ایک رشتہ دار کے پاس لاہور آ گئے۔ وہاں انہوں نے چھوٹی موٹی نوکریاں کرنی شروع کر دیں۔ موسیقی ہمیشہ سے ابا کا شوق رہا تھا اور شاید لاہور جانے کی وجہ بھی یہی تھی کیوں کہ لاہور اس وقت تمام ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز تھا اور بہت سے موسیقار وہاں رہا کرتے تھے۔‘
انہوں نے مزید ذکر کیا تھا کہ لاہور میں ہی ایک محفل کے دوران کسی نے اُن (استاد اللہ رکھا) کو میاں قادر بخش سے موسیقی سیکھنے کی ترغیب دی۔ بہرحال سال 1951 میں جب ذاکر پیدا ہوئے تو استاد اللہ رکھا انڈیا کی کلاسیکی موسیقی کا ایک نمایاں نام بن چکے تھے اور ظاہر ہے کہ وہ اپنا یہ فن اپنے بڑے بیٹے کو بھی منتقل کرنا چاہتے تھے۔
باپ کی توجہ تھی یا موسیقی خون میں رَچی بسی تھی کہ ذاکر کو محض سات سال کی عمر میں طبلے میں گہری دلچسپی پیدا ہوگئی۔ وہ اپنے والد کی سخت اور منظم رہنمائی میں کڑی ریاضت کیا کرتے۔ اُس عمر میں جب اکثر بچے موسیقی سیکھ رہے ہوتے ہیں تو ذاکر موسیقی کی محفلوں میں اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہے ہوتے۔
انہوں نے اِن دنوں کا ذکر کرتے کہا تھا کہ ’میں صرف پانچ گھنٹے ہی سو پاتا تھا۔ میرے ابا مجھے صبح تین بجے جگا دیتے۔‘
انڈین ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم ’دی بیٹر انڈیا‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق، ذاکر کو محض 12 برس کی عمر میں پہلی بار طلبہ بجانے کا پانچ روپے معاوضہ ملا۔ یہ اگرچہ ایک معمولی رقم تھی مگر اس میں خوابوں کی تعبیر پنہاں تھی۔ اسی لمحے سے ان کا سفر شروع ہوا، ایک ایسا سفر جو انہیں ان ابتدائی سادہ نوعیت کی محفلوں سے بہت آگے لے گیا جہاں وہ دنیا بھر کے موسیقی کے دلدادہ افراد کے دلوں میں گھر کر گئے اور انہوں نے عالمی سطح پر ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کو نئی پہچان دی۔
ذاکر حسین طبلے کے بجائے راک اینڈ رال میں شہرت کے خواہاں تھے۔ فوٹو: اے ایف پی
ذاکر نے اپنے ایک انٹرویو میں اُن دنوں کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب وہ صرف 12 سال کے تھے تو اپنے والد کے ساتھ ایک محفل میں گئے، جہاں موسیقی کی دنیا کے عظیم فنکار جیسے کہ پنڈت روی شنکر، استاد علی اکبر خان، بسم اللہ خان، پنڈت شانتا پرساد اور پنڈت کشور مہاراج بھی موجود تھے۔
ذاکر والد کے ساتھ سٹیج پر گئے اور اس پرفارمنس کے لیے انہیں پانچ روپے ملے، وہ اس حوالے سے کہا کرتے تھے کہ ’میں نے اپنی زندگی میں بہت پیسہ کمایا لیکن یہ پانچ روپے میرے لیے سب سے زیادہ قیمتی تھے۔ ‘
اخبار ’دی نیو انڈین ایکسپریس‘ اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ ’وہ اپنے ابتدائی دنوں میں اکثر ٹرین میں سفر کیا کرتے تھے اور اگر انہیں بیٹھنے کی جگہ نہ ملتی تو وہ فرش پر اخبار بچھا کر سو جاتے اور طبلہ ان کی گود میں ہوتا تاکہ کسی کا پائوں اسے نہ چھوئے۔
ذاکر نے بمبئی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد امریکہ کا رُخ کیا جہاں وہ مغربی موسیقی میں دلچسپی لینے لگے تو یہ موسیقی کے بینڈ بیٹلز کے جارج ہیریسن تھے جن کے مشورے پر ذاکر نے طبلے میں اپنے فن کا جادو جگانے کا فیصلہ کیا۔
امریکی جریدے ’ٹائمز‘ نے موسیقار کی وفات پر اپنے تعزیت نامے میں لکھا تھا کہ ’ان (ذاکر) کا جِمی ہینڈرکس اور دی ڈورز کی موسیقی سے تعارف ہوا تو وہ ایک راک ڈرمر بننے پر غور کرنے لگے لیکن جارج ہیریسن نے انہیں اس ارادے پر عمل کرنے سے باز رکھا۔ ہیریسن نے اُن سے کہا کہ وہ بطور طبلہ نواز مشرقی اور مغربی موسیقی کو یکجا کرکے اپنا ایک منفرد انداز تخلیق کر سکتے ہیں۔‘
یہ ان دنوں کا ہی ذکر ہے جب نیویارک کے علاقے گرین وچ ویلیج میں واقع ایک میوزک شاپ کے مالک نے ذاکر کو معروف گٹارسٹ جان مکلافلین سے متعارف کروایا۔ وہ (ذاکر) گٹارسٹ کو ہندوستانی موسیقی کی تربیت دینے لگے، یہ تعلق جلد ہی تخلیقی شراکت داری میں تبدیل ہو گیا اور یوں موسیقی کا بینڈ ’شکتی‘ تخلیق پایا۔
ذاکر نے جان مکلافین کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ ایسا ہی تھا جیسے طویل عرصہ سے بچھڑ چکے دو بھائی دوبارہ ملے ہوں۔‘
بیٹلز کے جارج ہیریسن نے ذاکر کو طبلے میں جادو جگانے کا مشورہ دیا۔ فوٹو: اے ایف پی
1970 کی دہائی میں ذاکر کا طبلہ مختلف دنیاؤں کے درمیان ایک پل بن گیا۔ انہوں نے بیٹ جنریشن کے شاعر ایلن گنزبرگ، جارج ہیریسن، جان ہینڈی اور سر جارج ایوان موریسن جیسے عظیم فنکاروں کے ساتھ اشتراک کیا۔ یہ محض پرفارمنس نہیں تھیں، بلکہ مکالمے تھے جس میں ان کی لے اور تال مختلف ثقافتوں سے مکالمہ کرتی دکھائی دیتی تھی۔
اخبار ’دی نیو انڈین ایکسپریس‘ اس حوالے سے لکھتا ہے کہ ’شکتی سال 1978 میں پانچ برس کے کامیاب سفر اور تین البمز کی ریلیز کے بعد تحلیل ہو گیا۔
تاہم، یہ گروپ 1998 میں دوبارہ یکجا ہوا جس میں اصل اراکین استاد ذاکر حسین اور جان مکلافلین کے ساتھ نامور موسیقار شامل ہوئے جیسے کہ آنجہانی مینڈولن یو، سرینواس، گلوکار شنکر مہادیون اور وی سلواگنیش (جو وِنائکرم کے صاحب زادے ہیں)۔ لیجنڈری بانسری نواز ہری پرساد چوراسیا نے بھی ’ریمیمبرنگ شکتی‘ کی براہِ راست ریکارڈنگ میں حصہ لیا۔‘
جان مکلافین نے اس بارے میں کہا تھا کہ ’شکتی کی سب سے بڑی خصوصیت موسیقی بجانا اور ایک دوسرے کی سنگت سے لطف اندوز ہونا تھا۔‘
’شکتی‘ نے موسیقی میں نئے رجحانات متعارف کروائے جس کا اولین البم 1976 میں ریلیز ہوا تھا۔ کئی دہائیوں کے وقفے کے بعد ’شکتی‘ نے البم ’دز مومنٹ‘ ریلیز کیا جو سال 2024میں بہترین گلوبل میوزک البم کا گریمی ایوارڈ جیتنے میں کامیاب رہی۔
ذاکر مجموعی طور پر سات بار گریمی ایوارڈز کے لیے نامزد ہوئے، وہ چار بار یہ ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب رہے جن میں سے تین اُن کو سال 2024 میں گریمی ایوارڈز کی 66 ویں تقریب میں ملے۔
ذاکر کی پہچان اگرچہ طبلہ نواز کے طور پر تھی لیکن انہوں نے کچھ فلموں میں اداکاری بھی کی۔ سال 1983 میں ریلیز ہوئی فلم ’ہیٹ اینڈ ڈَسٹ‘ میں ذاکر نے ایک موسیقار کا کردار ادا کیا جو وہ حقیقی زندگی میں بھی تھے اور یوں انہوں نے فن اور حقیقت کے درمیان موجود فرق ختم کر ڈالا۔ وہ بعد میں فلم ’ساز‘ میں بھی نظر آئے جس کی کہانی لیجنڈری منگیشکر بہنوں سے متاثر تھی۔
ذاکر حسین نے کچھ فلموں میں اداکاری بھی کی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی
ان کی فلم میں موجودگی نے کہانی میں حقیقت کا رنگ بھرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل فلم ’منکی مین‘ میں دکھائی دیے۔
ذاکر حسین کی ذاتی زندگی اور خاص طور پر ان کی محبت اور شادی کی کہانی بھی اُن کی فنی زندگی کی طرح منفرد ہے۔ وہ اپنی اہلیہ انٹونیا سے امریکہ میں اپنے موسیقی کے سفر کے دوران ملے۔ انٹونیا اُن کی منیجر بھی تھیں تو وہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے لیکن ذاکر نے اپنی والدہ سے اجازت لیے بغیر ہی انٹونیا سے شادی کر لی۔
انٹونیا اگرچہ اطالوی نژاد امریکی تھیں مگر وہ ایک کتھک رقاصہ کے طور پر بھی جانی جاتی ہیں۔ انہوں نے کتھک رقص کی تربیت ستارا دیوی سے حاصل کی تھی جو لیجنڈ ہدایت کار کے آصف کی سابقہ اہلیہ تھیں۔
ذاکر نے اداکارہ سیمی گریوال کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا تھا کہ ’ہماری ایک دوسرے کے لیے پسندیدگی جلد محبت میں تبدیل ہوگئی، میں نہیں جانتا کہ کیوں مگر یہ واضح تھا کہ ٹونی وہ انسان ہو گی جس کے ساتھ میں پوری زندگی گزاروں گا۔ ایک دوسرے سے متعارف ہونے کے ایک سال بعد ہم ایک ہی گھر (ایک ساتھ) میں منتقل ہو گئے۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’یہ میرے خاندان میں پہلی بین الثقافتی شادی تھی، تو میرے والد سے زیادہ میری والدہ کے لیے اسے قبول کرنا مشکل تھا۔ یہ ان کے لیے بہت بڑی بات تھی۔ ہم نے انہیں (اپنی شادی کے بارے میں) تب تک اس بارے میں کچھ نہیں بتایا جب تک میں نے شادی نہیں کرلی۔‘
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’لیکن میرے والد وہاں موجود تھے۔ انہوں نے ہماری مسلم رواج کے مطابق شادی کروائی۔ مگر اس سے قبل ہم قانونی طور پر شادی کر چکے تھے جس کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں تھا۔ ہم گئے اور ہم نے شادی کر لی۔‘
ذاکر کی والدہ نے کچھ عرصہ بعد انٹونیا کو قبول کر لیا اور یوں روایات سے زیادہ شخصیت کو اہمیت حاصل ہوئی۔ ذاکر نے کہا تھا کہ ’وہ اب ٹونی سے بے حد محبت کرتی ہیں اور اسے دنیا کی سب سے بہترین شخصیت مانتی ہیں۔‘
ذاکر حسین کو چار مرتبہ گریمی ایوارڈز سے نوازا گیا۔ فوٹو: اے ایف پی
ذاکر کے لیے موسیقی ہمیشہ سب سے اہم رہی۔ انہوں نے انڈین خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’میں جب بڑا ہو رہا تھا تو میرے ذہن میں یہ تصور خود بخود جڑ پکڑتا گیا کہ موسیقی بس موسیقی ہے، یہ بھارتی یا کسی مخصوص طرز کی موسیقی نہیں۔ چنانچہ جب میں نے غیر بھارتی موسیقاروں کے ساتھ کام کرنا شروع کیا تو مجھے ایک فطری ہم آہنگی محسوس ہوئی۔‘
ذاکر حسین نجی محفلوں میں گانا پسند نہیں کرتے تھے اور نہ اُن کے لیے اپنے کنسرٹ میں بہت زیادہ لوگوں کا موجود ہونا اہم تھا۔ انہوں نے نسرین منی کبیر سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’مجھے مختلف اداروں کی تقریبات یا شادیوں میں گانا پسند نہیں ہے۔ ان مواقع پر لوگوں کو آپس میں ملنا ہوتا ہے، وہ گپ شپ کرتے ہیں، کچھ پینا پلانا ہوتا ہے، کھانوں سے لطف اندوز ہونا ہوتا ہے تو یہ کوئی سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ کلاسیکل موسیقی ایسے نہیں سنی جا سکتی اور نہ ہی گائی جا سکتی ہے۔‘
ذاکر موسیقی کی تقریبات کے منتظمین سے ہمیشہ یہ درخواست کیا کرتے کہ جیسے ہی محفل شروع ہو، دروازے بند کر دیے جائیں اور تاخیر سے آنے والوں کو اندر نہ آنے دیا جائے۔
ذاکر کے فن کی طرح اُن کی شخصیت میں بھی جادو تھا۔ ان کی دلآویز مسکراہٹ اور گھنگھریالے بال، جو ان کی انگلیوں کی تھاپ کے ساتھ جھومتے جس کے باعث ان کو ایک سٹار کی سی پسندیدگی ملی جو بسااوقات ان کی موسیقی سے بھی آگے نکل جاتی۔
یہ سال 1994 کا ذکر ہے جب انڈین میگزین ’جینٹلمین‘ کی خواتین قارئین نے ایک مقابلے میں جس میں امیتابھ بچن جیسی قدآور شخصیات بھی شامل تھیں، ذاکر کو ’سب سے دلکش مرد‘ قرار دیا۔
ذاکر نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میگزین کی ٹیم مجھ سے ملنے آئی اور چاہتی تھی کہ میں مختلف سوٹس، جیکٹس اور مغربی لباس پہن کر ان کے سرِورق پر نظر آؤں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ اتنے ہی حیران اور ششدر رہ گئے جتنا میں کیوں کہ انہیں یقین تھا کہ یہ ٹائٹل امیتابھ بچن جیتیں گے لیکن سب سے زیادہ ووٹ مجھے ملے۔‘
ذاکر حسین نجی محفلوں میں گانا پسند نہیں کرتے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی
ایک اور بہت دلچسپ واقعہ ہے جو آج بھی بہت سے لوگوں کو ذاکر کی یاد دلاتا ہے۔ اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ ’سال 1988 میں ذاکر تاج محل چائے کے برانڈ ایمبیسڈر بن کر ہر گھر میں پہچانے جانے لگے۔
33 سیکنڈ کے اس ٹیلی ویژن اشتہار میں ذاکر کو اپنے طبلے کی ریاضت میں مگن دکھایا گیا اور پھر وہ ایک کپ تاج چائے کی چُسکی لیتے ہیں۔ اس کے بعد معروف وائس اوور آرٹسٹ ہریش بھیمانی کی آواز سنائی دی جو ذاکر کی مہارت کو سراہتے ہوئے کہتے ہیں، ’واہ استاد، واہ!‘ اس پر ذاکر مسکرا کر جواب دیتے ہیں، ’ارے حضور، واہ تاج بولیے۔‘
یہ ’واہ تاج‘ نہ صرف اشتہار کا مقبول جملہ بن گیا بلکہ بعد میں ایک مشہور تکیہ کلام کی حیثیت اختیار کر گیا جو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔‘
استاد ذاکر حسین پاکستان آئے تو انگریزی جریدے ’ہیرلڈ‘ نے اُن کا جنوی2017 کے شمارے کے لیے انٹرویو کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’صدیوں کے دوران طبلہ نوازی پانچ بڑے مراکز میں ترقی کرتی رہی۔ میں پنجابی طبلہ گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں۔ میرے والد، جو میرے استاد بھی تھے، نے مجھے اسی انداز میں تربیت دی اور ان کے استاد بھی لاہور میں رہے اور وہیں وفات پائی۔ اس لیے میرے لیے لاہور جانا ایک یاترا کی طرح ہے۔ میرا اس شہر اور وہاں کے لوگوں سے گہرا جذباتی رشتہ ہے۔‘
لاہور سے ذاکر کا ایک اور رشتہ بھی تھا کیونکہ اُن کی بہن (اُن کی دوسری والدہ سے) معروف اداکارہ روحی بانو نے لاہور کے گورنمنٹ کالج سے ہی نفسیات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی اور ان کی زیست کے اہم ماہ و سال اسی شہر میں گزرے تھے۔
ذاکر حسین کے مطابق ان کے لیے لاہور جانا یاترا کی طرح ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
انڈیا کے اعلیٰ ترین شہری اعزازات حاصل کرنے والے ذاکر کلاسیکی موسیقی کے علم کی ترویج کے لیے بھی متحرک رہے۔ انہوں نے امریکہ کی پرنسٹن یونیورسٹی اور سٹینفورڈ یونیورسٹی جیسے اداروں میں وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ دمِ آخر تک موسیقی سے منسلک رہے جو اُن کے لیے عبادت سے کم درجہ نہیں رکھتی تھی۔
ذاکر گزشتہ برس 15 دسمبر کو 73 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔ ان کی موت کی خبر نے موسیقی کے ہر چاہنے والے کو اُداس کر دیا مگر انہوں نے ایک لازوال تخلیقی ورثہ چھوڑا ہے جو آنے والی نسلوں کو متاثر کرتا رہے گا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اُن کی موسیقی ایک ایسی دنیا میں امن کا پیغام بن گئی جو سرحدیں قائم کرنے کا فطری رجحان رکھتی ہے۔