’سائبر کرائم میں استعمال‘، کراچی میں موبائل فونز کی خرید و فروخت کے لیے نئے ضوابط

اردو نیوز  |  Apr 08, 2025

کراچی ملک کی سب سے بڑی موبائل مارکیٹ ہے جہاں چوری شدہ موبائل فونز کی خرید و فروخت سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ 

حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے مختلف اقدامات کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود مبینہ طور پر چوری شدہ موبائل فونز کا کاروبار اب بھی کچھ مارکیٹوں میں جاری ہے۔

سندھ حکومت نے موجودہ صورتِ حال میں وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی زیرِصدارت ایک اہم اجلاس میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ صوبے کی تمام موبائل فونز مارکیٹس میں صرف مکمل کاغذات والے موبائل فونز کی خرید و فروخت کی اجازت ہی ہو گی۔

اس کے ساتھ ہی پولیس اور موبائل فونز مارکیٹس ایسوسی ایشن کو ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کرنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ چوری شدہ فونز کی مارکیٹ میں گردش کو روکا جا سکے۔

ایس او پیز کے مطابق ہر موبائل فون کا آئی ایم ای آئی نمبر چیک کیا جائے گا اور صرف وہ موبائل فونز ہی بیچے جا سکتے ہیں جو قانونی طور پر رجسٹرڈ ہوں۔

اس کے علاوہ دکان داروں کو صارف کے قومی شناختی کارڈ کی کاپی لینے اور فون کی ٹیمپرنگ چیک کرنے کا بھی پابند کیا گیا ہے۔

تاہم ان ہدایات کے باوجود کراچی کی مختلف موبائل فون مارکیٹوں میں ایس او پیز پر یکساں طور پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موبائل فونز کی خرید و فروخت کے نظام کو ایک مرکزی ڈیجیٹل سسٹم سے مربوط کرنا ضروری ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)کراچی کی موبائل فون مارکیٹوں کے دکان داروں کا کہنا ہے کہ ’پولیس اور ایسوسی ایشن کے درمیان طے شدہ ایس او پیز کے تحت ہی کام ہو رہا ہے، مگر یہ عمل ہر جگہ یکساں طور پر نافذ نہیں ہو رہا۔ بعض مارکیٹوں میں دکان داروں نے تصدیق کی کہ اگر کوئی فون بیچنے آتا ہے تو اس کے شناختی کارڈ کی کاپی لی جاتی ہے اور فون کا آئی ایم ای آئی نمبر سی پی ایل سی کے ریکارڈ سے چیک کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر فون میں کسی قسم کی ٹیمپرنگ کی نشاندہی ہوتی ہے، تو وہ فون خریدنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔‘

کراچی موبائل اینڈ الیکٹرانک ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر منہاج گلفام نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’موبائل فونز مارکیٹ میں دکان دار پولیس کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے موبائل فونز کی تصدیق کرتے ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ غیرقانونی یا چوری شدہ موبائل فونز کو مارکیٹ میں نہ آنے دیا جائے۔‘

تاہم متعدد ذرائع نے بتایا کہ ’بعض مارکیٹوں میں پولیس زیادہ سختی نہیں کرتی چناںچہ ان مارکیٹوں میں ایس او پیز پر عمل درآمد کی بجائے غیر رسمی طریقے سے کاروبار ہوتا ہے جس کے باعث غیرقانونی موبائل فونز کی خرید و فروخت کے رجحان میں تبدیلی نہیں آ رہی۔‘

سندھ حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ متعلقہ ادارے چوری شدہ فونز کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہے ہیں اور مختلف کارروائیاں بھی کی گئی ہیں۔

ان کے مطابق موبائل فون مارکیٹوں میں چوری شدہ فونز کی فروخت کا مکمل خاتمہ ایک پیچیدہ عمل ہے کیونکہ بعض موبائل فونز ٹیمپرڈ ہو چکے ہوتے ہیں اور ان کے آئی ایم ای آئی نمبر کی شناخت مشکل ہوتی ہے۔

سپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کے ایک سینیئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’انہوں نے مختلف کیسز میں تحقیقات کے لیے موبائل فونز کا ریکارڈ اور ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے متعدد کارروائیاں کی۔‘

بعض موبائل فونز ٹیمپرڈ ہو چکے ہوتے ہیں اور ان کے آئی ایم ای آئی نمبر کی شناخت مشکل ہوتی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)ڈیجیٹل سکیورٹی ماہر نعمان سید نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’چوری شدہ یا ٹیمپرڈ فونز کا مسئلہ صرف مالی نقصانات تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ کئی سنگین سائبر کرائمز کا ذریعہ بن چکے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’چوری شدہ موبائل فونز کا استعمال سوشل میڈیا، بینکنگ فراڈ اور شناخت کی چوری کے لیے کیا جا رہا ہے۔ ان فونز میں سے اکثر پر ٹیمپرڈ آئی ایم ای آئی نمبر درج ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کی شناخت ممکن نہیں رہتی۔ اس کے علاوہ موبائل فونز کے ذریعے سائبر کرائمز بھی کیے جاتے ہیں۔‘

نعمان سید نے مزید کہا کہ ’تمام موبائل فونز مارکیٹوں میں اگر دکان داروں کے پاس فوری تصدیق کا ٹول موجود ہو تو یہ مسئلہ کم ہو سکتا ہے۔ پی ٹی اے کے ڈی آئی آر بی ایس سسٹم کو مزید فعال بنایا جا سکتا ہے تاکہ موبائل فونز کی شناخت اور رجسٹریشن میں شفافیت لائی جا سکے۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موبائل فونز کی خرید و فروخت کے نظام کو ایک مرکزی ڈیجیٹل سسٹم سے مربوط کرنا ضروری ہے تاکہ اس میں شفافیت لائی جا سکے اور چوری شدہ فونز کے مارکیٹ میں داخل ہونے کا سلسلہ روکا جا سکے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More