اس وقت پوری دنیا کی نظریں پاکستان اور انڈیا کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم اوز) کے مابین ہاٹ لائن پر ہونے والی گفتگو پر ہیں اور امریکہ سے لے کر چین تک یہی سوال گردش کر رہا ہے کہ کیا یہ بات چیت خطے میں پائیدار امن کو ممکن بنا سکے گی۔اس کے ساتھ یہ بھی سوال پوچھا جا رہا ہے کہ پائیدار امن کے لیے دونوں ممالک کے ملٹری آپریشنز کا کردار کتنا ہے اور رابطہ ہونے پر وہ کس حد تک فیصلہ سازی کر سکتے ہیں۔پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عامر ریاض کہتے ہیں کہ یہ عہدہ زمینی سطح پر امن یا جنگ میں کسی بھی صورتحال کو ممکن بنانے کے لیے حتمی کردار ادا کرتا ہے۔اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوز کی بات چیت کے بعد وہ سیز فائر کو ممکن بنا سکتے ہیں اور کسی بھی خلاف ورزی کو روکنے کے لیے ایکشن لے سکتے ہیں یا حالات خراب ہونے کی صورت میں اپنی فوجوں کو حرکت میں لا سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ڈی جی ایم اوز کے مابین جب بھی بات ہوتی ہے وہ چیزوں کو درست سمت میں لانے کے لیے ہوتی ہے۔’ہمارے ہاں ہر ہفتے ڈی جی ایم اوز کا رابطہ ہوتا ہے۔ وہ پیشہ ورانہ گفتگو کرتے ہیں اور آپریشنل تعاون میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے پر بات کرتے ہیں۔ وہ باہمی گفتگو سے امن برقرار رکھ سکتے ہیں۔‘تاہم لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عامر ریاض کا کہنا تھا مستقل امن کے لیے دونوں ممالک کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزرز اور اس کے بعد اعلٰی ترین حکومتی شخصیات میں بات چیت ضروری ہے۔میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کے مطابق ہاٹ لائن کنٹرول لائن پر سیزفائر کے لیے ہی کام کرتی رہی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)پاکستانی فوج ایک اور سابق سینیئر آفیسر میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کے مطابق دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوز 1971 کے بعد سے ہاٹ لائن پر اس وقت بات کرتے ہیں جب کشمیر میں کنٹرول لائن پر امن و امان برقرار رکھنے کے لیے رابطہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ روایتی طور پر یہ ہاٹ لائن کنٹرول لائن پر سیزفائر کے لیے ہی کام کرتی رہی ہے اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے دور میں اس کو زیادہ موثر بنانے کے لیے انڈین فوجی قیادت کے ساتھ سیز فائر اور اس ہاٹ لائن رابطے کی ازسر نو تجدید کی تھی۔اعجاز اعوان نے مزید بتایا کہ پیر کے روز دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوز کی گفتگو کے ممکنہ موضوعات سیز فائر میں توسیع، افغانستان میں کابل اور قندھار میں قونصلیٹ سے دہشت گردی کی کارروائیاں اور دیگر سکیورٹی معاملات ہیں۔دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ خالد نعیم لودھی نے کہا کہ ’آج کی گفتگو میں سیزفائر کو مستقل بنانے، مسئلہ کشمیر، دریائے سندھ کے پانی اور پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان لبریشن آرمی کے ذریعے بلواسطہ انڈین حملوں پر بات چیت اہم ہے۔‘شیلنگ سے لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں کو نقصان پہنچا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)خالد نعیم لودھی نے کہا کہ اس سلسلے میں کمیونیکیشن بہتر بنانے پر بات چیت بھی گفتگو کا حصہ ہے تاہم مکمل اور پائیدار سیز فائر کا مقصد آہستہ آہستہ حاصل ہو گا۔خالد نعیم لودھی نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ معمول میں بھی یہ دونوں افسران آپریشنل معاملات آپس میں طے کرتے ہیں تاہم ان کی گفتگو کا ایک پہلو یہ ہے کہ پاکستانی ڈی جی ایم او کے پاس کسی بھی فیصلے کے لیے وسیع اختیارات ہوتے ہیں جبکہ انڈین ڈی جی ایم او کے پاس مینڈیٹ محدود ہوتا ہے۔’آج ہونے والی بات چیت کے لیے یقیناً دونوں نے اپنے اپنے چیفس سے مینڈیٹ لیا ہے۔‘