امریکہ اور چین نے کہا ہے کہ وہ ٹیرف کو کم کرنے پر متفق ہو گئے ہیں جس سے عالمی طور پر جنم لینے والی اقتصادی ہلچل میں کمی آنے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ٹیرف کے معاملے پر چین اور امریکہ کے حکام کے درمیان مذاکرات جنیوا میں ہوئے، جس کے بعد امریکہ کے وزیر خزانہ سکاٹ بیسنٹ نے صحافیوں کو بتایا کہ فریقین نے ٹیرف میں 90 دن کے وقفے پر اتفاق کیا ہے جس کے بعد ٹیرفس 100 فیصد سے کم ہو کر 10 فیصد پر آ جائیں گے۔
ان کے مطابق ’دونوں ممالک نے اپنے اپنے مفاد کو بہت بہتر انداز میں پیش کیا اور ہم دونوں ایک متوازن تجارت میں دلچسپی رکھتے ہیں اور امریکہ اسی سمت میں آگے بڑھے گا۔‘
اس موقع پر سکاٹ بیسینٹ کے ساتھ امریکہ کے نمائندہ برائے تجارت جمیسن گریر موجود تھے۔ اتوار کو ہونے والی بات چیت کے بعد دونوں ممالک نے اتفاق رائے کے ساتھ آگے بڑھنے اور اختلافات میں کمی کو سراہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوبارہ اقتدار میں آتے ہی بہت سے ممالک پر ٹیرف لگانے کا اعلان کیا تھا جس کے جواب میں کچھ ممالک کی جانب سے بھی امریکی مصنوعات پر ٹیکس لگائے۔ تاہم کچھ روز بعد صدر ٹرمپ نے ٹیرف کے سلسلے کو 90 دن کے لیے معطل کر دیا تھا مگر چین کو اس فہرست سے باہر رکھا تھا۔
انہوں نے چینی مصنوعات پر ٹیکس کو 100 فیصد تک بڑھا دیا تھا جس کے جواب میں چین نے بھی امریکی مصنوعات پر بھاری ٹیکس عائد کر دیے۔
یہ تجارتی لڑائی وہاں تک پہنچی کہ چینی مصنوعات پر ٹیکس 145 فیصد تک جا پہنچا جبکہ چین نے امریکی سامان پر ٹیرف کو 125 فیصد تک بڑھایا۔
اس کے بعد عالمی مارکیٹ میں شدید بھونچال دیکھنے میں آیا تھا اور دو بڑی معیشتوں کو تجارتی جنگ میں اترتے ہوئے دیکھ کر دنیا کے کئی ممالک پریشان تھے، تاہم اب ماہرین کا خیال ہے کہ تجارتی جنگ ٹل گئی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد چین پر بھاری محصولات لگائے تھے جس کے جواب میں چین نے بھی ٹیرف عائد کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
ٹیرف عائد کرنے کی اس لڑائی میں چھ سو 60 ارب ڈالر کی تجارت میں تعطل پیدا ہوا، سپلائی چینز میں خلل پڑا جبکہ بعض اداروں نے ملازموں کو نکالنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا تھا اور اس ساری صورت حال سے جمود کے شدید خدشات پیدا ہو گئے تھے۔
تاہم بعدازاں مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی اور امریکی و چینی حکام ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد پہلی بار جنیوا میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے اور بات چیت کی۔
حوصلہ افزا پیش رفت کے اثرات عالمی مالیاتی منڈیوں میں بھی نظر آنا شروع ہوئے اور پیر کو ڈالر کی قیمت میں استحکام دیکھا گیا اور یہ امید پختہ ہوئی کہ عالمی کساد بازاری سے بچا جا سکتا ہے۔
سکاٹ بیسینٹ نے مذاکراتی دور کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ ’مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان ہونے والے تجارتی مذاکرات میں ہم کافی ٹھوس پیشرفت کر لی ہے۔‘