Getty Imagesکُردوں کی پارٹی پی کے کے نے اپنی علیحدہ ریاست کے لیے سنہ 1984 میں مسلح جدوجہد کا آغاز کیا تھا
کُردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) نے اپنی جماعت کو تحلیل کرنے اور ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے جو ترکی کے ساتھ چار دہائیوں سے زائد جاری رہنے والے تنازع کے خاتمے کی علامت ہے۔ اس تنازع میں اب تک 40 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
یہ فیصلہ ان کے رہنما عبداللہ اوجلان کی جانب سے تنظیم کو تحلیل کرنے کی اپیل کے تین ماہ بعد سامنے آیا ہے۔ وہ سنہ 1999 سے قید میں ہیں۔
ترکی نے ابھی تک اس بارے میں کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے لیکن پی کے کے کی جانب سے یہ اعلان صدر رجب طیب اردوغان کے لیے ایک بڑی کامیابی سمجھا جا رہا ہے۔
اس کا خطے، بالخصوص ہمسایہ ملک شام میں گہرا اثر پڑے گا۔
بائيں بازو کے نظریات کے حامل اس گروپ کا قیام سنہ 1970 کی دہائی کے آخر میں عمل میں آیا تھا اور اس نے سنہ 1984 میں ترکی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ اس کا مقصد ترکی کے اندر ایک آزاد کرد ریاست کا قیام تھا۔
Getty Imagesبہت سے کردوں نے پہلی عالمی جنگ کے دوران ترکی کا ساتھ دیا تھاکُرد کون ہیں اور ان کی اپنی ریاست کیوں نہیں ہے؟
کُرد قوم میسوپوٹامیا کے پہاڑوں اور میدانوں میں بسنے والی قدیم اقوام میں سے ایک ہے۔ یہ علاقہ جنوب مشرقی ترکی، شمال مشرقی شام، شمالی عراق، شمال مغربی ایران، اور جنوب مغربی آرمینیا پر مشتمل ہے۔
اس علاقے میں اندازاً ڈھائی کروڑ سے ساڑھے تین کروڑ کرد آباد ہیں۔ وہ (عرب، ایرانی، اور ترک کے بعد) مشرق وسطیٰ کی چوتھی بڑی نسلی اکثریت ہیں، لیکن ان کی اپنی کوئی قومی ریاست نہیں ہے۔
صدیوں تک کرد سلطنتِ عثمانیہ کے تحت آباد رہے۔ جب پہلی عالمی جنگ کے بعد سلطنت عثمانیہ ختم ہو گئی تو بہت سے کردوں نے اپنی علیحدہ ریاست ’کردستان‘ کے قیام پر غور و خوض شروع کیا۔ مغربی اتحادیوں نے سنہ 1920 کے سیورے معاہدہ میں اس کے امکان پر غور کیا۔
لیکن پھر سنہ 1923 میں ہونے والے معاہدۂ لوزان سے پہلے والے معاہدے کو بدل دیا گيا۔ اس کے تحت جدید ترکی کی سرحدیں طے کر دی گئیں اور اس میں کرد ریاست کے لیے کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی۔
کرد جن ممالک میں آباد تھے، وہاں وہ اقلیت میں رہ گئے۔ اگلے 80 سال میں کردوں کی ہر کوشش کو طاقت سے دبایا گیا۔
Getty Images2015 میں جنگ بندی کے بعد سے کم از کم 7000 کرد جھڑپوں میں مارے گئے ہیںترکی پی کے کے کو خطرہ کیوں سمجھتا ہے؟
کرد ترکی کی کل آبادی کا 15 سے 20 فیصد کے درمیان ہیں۔
سنہ 1920 اور 1930 کی دہائیوں میں ترکی میں کردوں کی بغاوتوں کے جواب میں بہت سے کردوں کو ملک کے دوسرے علاقوں میں منتقل کر دیا گیا، کرد ناموں اور لباس پر پابندی لگا دی گئی، کرد زبان کے استعمال کو محدود کر دیا گیا، اور کردوں کے نسلی وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا، اور انھیں ’پہاڑی ترک‘ کہا گیا۔
سنہ 1978 میں جنوب مشرقی ترکی سے تعلق رکھنے والے بائیں بازو کے سیاسی کارکن عبداللہ اوجلان نے پی کے کے قائم کیا جس کا مقصد ترکی کے اندر ایک آزاد ریاست کا قیام تھا۔ سنہ 1984 میں انھوں نے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔
اس کے بعد سے اب تک ترکی، شام اور عراق کے سرحدی علاقوں میں پی کے کے اور ترکی سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں تقریباً 40,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ لاکھوں افراد بے گھر ہوئے ہیں۔
پی کے کے کو ترکی، امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کی جانب سے دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا ہے۔
30 کلومیٹر طویل مجوزہ بفرزون: صدر اُردوغان شمالی شام کے کُرد گروہوں سے نمٹنے کے کس منصوبے پر کام کر رہے ہیں؟ترکی کی ’دہشت گردوں کے خلاف جنگ‘ اور بمباری: ’یہاں پینے کا پانی سونے سے زیادہ قیمتی ہے‘کُرد مسلح تنظیم کی دہائیوں بعد ترکی کے ساتھ جنگ بندی: جیل میں قید باغی رہنما جن کے حکم پر یہ ممکن ہواگرے وولوز: پوپ پر قاتلانہ حملہ کرنے والی تنظیم جس پر ترکی کی ’ڈیپ سٹیٹ کی حمایت‘ کا الزام لگاGetty Imagesعبداللہ اوجلان کی سنہ 1992 کی تصویر جس میں وہ پی کے کے جنگجوؤں کے ساتھ لبنان میں نظر آ رہے ہیںپی کے کے کے ترکی میں مقاصد کیا ہیں؟
سنہ 1990 کی دہائی میں پی کے کے نے آزاد ریاست کے مطالبے سے پیچھے ہٹ کر کردوں کے لیے زیادہ خودمختاری کا مطالبہ کرنا شروع کیا۔
سنہ 2016 میں بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں پی کے کے کے فوجی رہنما جمیل بائیک نے کہا: ’ہم ترکی سے علیحدہ ہو کر ریاست بنانا نہیں چاہتے۔ ہم ترکی کی سرحدوں کے اندر، اپنے علاقوں میں، آزادی کے ساتھ جینا چاہتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا: ’جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کردوں کے فطری حقوق کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔‘
تاہم ترکی کا مؤقف یہ رہا ہے کہ پی کے کے ’ترکی کے اندر ایک علیحدہ ریاست قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
سنہ 1990 کی دہائی کے وسط میں ترکی کی سکیورٹی فورسز اور پی کے کے کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔ جنوب مشرقی اور مشرقی ترکی کے کرد اکثریتی علاقوں میں ہزاروں دیہات تباہ کر دیے گئے، جس کے باعث لاکھوں کرد دوسرے شہروں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔
Getty Imagesترکی کی سرحد پر عراقی کردستان میں پی کے کے جنگجوکیا پی کے کے نے ماضی میں امن معاہدے کی کوشش کی؟
پی کے کے نے ترکی کی سیاست میں شمولیت، ملک میں وسیع پیمانے پر کردوں کے ثقافتی حقوق کو تسلیم کیے جانے اور اپنے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
ترکی نے پی کے کے سے مذاکرات سے انکار کیا اور صرف محدود معافی کی پیشکش کی۔
سنہ 2009 سے 2011 کے درمیان پی کے کے اور ترکی حکومت کے درمیان ناروے میں خفیہ مذاکرات ہوئے، لیکن وہ ناکام ہو گئے۔
مارچ 2013 میں اوجلان نے حکومت کے ساتھ بات چیت کے بعد نئی جنگ بندی کا اعلان کیا اور پی کے کے نے اپنے جنگجوؤں کو ترکی سے انخلا کا حکم دیا۔ لیکن پھر جولائی 2015 میں یہ جنگ بندی ختم ہو گئی۔
تحقیقی تنظیم کرائسس گروپ کے مطابق سنہ 2015 سے اب تک ترکی اور عراق میں پی کے کے اور ترک سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں 7,000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
سنہ 2015 اور 2016 میں لڑائی نے بہت زیادہ شدت اختیار کر لی تھی اور یہ لڑائی زیادہ تر جنوب مشرقی ترکی میں ہوئی۔
سنہ 2019 تک، ترک فورسز نے زیادہ تر پی کے کے کے جنگجوؤں کو ملک سے نکال دیا، اور لڑائی کا مرکز عراق کے شمالی خودمختار کردستان کے علاقے اور شمالی شام کی طرف منتقل ہو گیا۔
شام میں ترک افواج (اپنے اتحادی ملیشیا سیرین نیشنل آرمی کے ساتھ) کردوں کی قیادت میں قائم پیپلز ڈیفنس یونٹس (وائے پی جی) سے بھی برسر پیکار رہی ہیں۔ ترکی اسے پی کے کے کی شامی شاخ سمجھتا ہے۔
لیکن اکتوبر سنہ 2024 سے ترک حکومت اور دائیں بازو کی قوم پرست تحریک پارٹی کے رہنما دولت باہجلی پی کے کے کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔
مذاکرات میں اوجلان کو بھی شامل کیا گیا ہے اور انھوں نے اوجلان سے بات کرنے کے لیے بحیرہ مرمرہ میں موجود امرالی جزیرے کی ہائی سکیورٹی جیل کا دورہ بھی کیا ہے۔
گرے وولوز: پوپ پر قاتلانہ حملہ کرنے والی تنظیم جس پر ترکی کی ’ڈیپ سٹیٹ کی حمایت‘ کا الزام لگاحلب کے بعد حما پر بھی باغیوں کا قبضہ: شام میں کون سا علاقہ کس کے کنٹرول میں ہے؟عراق کا وہ علاقہ جہاں کے باسی ’ہر لمحہ موت کے خوف میں‘ گزارتے ہیں30 کلومیٹر طویل مجوزہ بفرزون: صدر اُردوغان شمالی شام کے کُرد گروہوں سے نمٹنے کے کس منصوبے پر کام کر رہے ہیں؟کُرد مسلح تنظیم کی دہائیوں بعد ترکی کے ساتھ جنگ بندی: جیل میں قید باغی رہنما جن کے حکم پر یہ ممکن ہواترکی کی ’دہشت گردوں کے خلاف جنگ‘ اور بمباری: ’یہاں پینے کا پانی سونے سے زیادہ قیمتی ہے‘