انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی اتوار کے روز دو روزہ سرکاری دورے پر قبرص پہنچے تو قبرص کے صدر نیکوس کرسٹوڈولیڈس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری ایک پیغام میں انھیں خوش آمدید کہتے ہوئے اسے ایک ’تاریخی دورہ‘ قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سٹریٹجک شراکت داری کا ایک نیا باب ہے جس کی کوئی حد نہیں ہے۔‘ قبرص کے صدر کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم ایک ساتھ مل کر آگے بڑھنے اور مزید ترقی کا اعادہ کرتے ہیں۔‘
دوسری جانب نریندی مودی نے اس دورے کی تصاویر اپنے ایکس اکاؤنٹ پر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ یہ دورہ انڈیا اور قبرص کے درمیان تعلقات خاص طور پر تجارت، سرمایہ کاری اور دیگر شعبوں میں تیزی لائے گا۔
یاد رہے کہ نریندر مودی ایک ایسے وقت میں قبرص کا دورہ کر رہے ہیں جب انڈیا اور قبرص کے پڑوسی ملک ترکی کے درمیان تعلقات کافی کشیدہ ہیں۔
دوسری جانب ترکی اور قبرص کے تعلقات تنازعات کا شکار رہے ہیں۔ کچھ حلقے وزیرِ اعظم مودی کے دورہ قبرص کو پاکستان اور ترکی کے مضبوط تعلقات سے بھی جوڑ رہے ہیں۔ گذشتہ ماہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان تنازع کے دوران ترکی نے کھل کر پاکستان کی حمایت کی تھی۔
اس وقت انڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کی جانب سے انڈیا پر کیے جانے والے حملوں میں ترک ساختہ ڈرون استعمال کیے گئے تھے۔ تاہم پاکستان کے وزیر دفاع نے اس کی تردید کی تھی۔
اس تنازع کے دوران ترک صدر رجب طیب اردوان نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک پیغام میں لکھا تھا ’پاکستان-ترکی دوستی زندہ باد۔‘
تاہم، یہ پہلا موقع نہیں کہ ترکی نے انڈیا اور پاکستان کے مابین کسی مسئلے پر پاکستان کا ساتھ دیا ہو۔
ترکی نے کئی مواقع پر عالمی فورمز بشمول اقوام متحدہ میں پاکستان کی حمایت کی ہے۔ ترکی کئی سالوں سے مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کی حمایت کرتا آیا ہے۔ مئی کے آخر میں پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے ترکی کا دورہ بھی کیا تھا۔
انڈیا کی وزارتِ خارجہ کا کیا کہنا ہے؟
14 جون کو انڈیا کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے وزیرِ اعظم مودی کے غیر ملکی دوروں کے بارے میں جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ نریندر مودی کو دورے کی دعوت قبرص کے صدر نیکوس کرسٹوڈولیڈس نے دی تھی۔ بیان کے مطابق، دو دہائیوں میں کسی بھی انڈین وزیرِ اعظم کا قبرص کا یہ پہلا دورہ ہے۔
وزارت خارجہ کے مطابق نیکوسیا میں وزیرِ اعظم مودی قبرص کے صدر سے ملاقات کریں گے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس دورے سے نہ صرف دونوں ممالک کے دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے مشترکہ عزم کی توثیق ہوگی بلکہ یورپی یونین کے ساتھ انڈیا کے تعلقات کو بہتر بنانے میں بھی مدد ملے گی۔
اس دورے کے بعد انڈیا کے وزیرِ اعظم 16 اور 17 جون کو کینیڈا میں ہونے والی جی سیون G-7 کانفرنس میں شرکت کرنے جائیں گے۔
اپنے غیر ملکی دورے کے آخری مرحلے میں وزیرِ اعظم مودی 18 جون کو کروشیا کا دورہ کریں گے۔ یہ کسی بھی انڈیا کے وزیر اعظم کا کروشیا کا پہلا دورہ ہوگا۔
’انڈیا کو قبرص کی حمایت حاصل ہے‘
انڈیا کی خبر رساں ایجنسی اے این آئی سے بات کرتے ہوئے قبرص میں انڈیا کے ہائی کمشنر منیش کا کہنا تھا کہ ’برسوں سے انڈین شہری اس چھوٹے سے جزیرے پر آ رہے ہیں۔ وہ تمام شعبوں میں کام کر رہے ہیں جن میں شپنگ اور آئی ٹی کے شعبے سب سے نمایاں ہیں۔‘
ان کے مطابق تقریباً 11,500 انڈین قبرص میں آباد ہیں۔
’یہاں انڈیا اور انڈین شہریوں کا بہت احترام کیا جاتا ہے۔ یہاں انڈین ثقافت بھی بہت مشہور ہے۔ وزیر اعظم مودی کا دورہ ہمارے تعلقات کی حوصلہ افزائی کرے گا اور اسے مضبوط بنائے گا۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ قبرص کئی معاملات پر انڈیا کی حمایت کرتا آیا ہے۔
نقشے میں کشمیر کو ’پاکستان کا حصہ دکھانے‘ پر انڈین صارفین ناراض، اسرائیلی فوج کی معذرت’پاکستان کی حمایت کرنے پر برہم‘ انڈیا ترکی کو کیسے نشانہ بنا رہا ہے؟انڈیا میں ترکی اور آذربائیجان کے ’بائیکاٹ‘ کی بازگشت: ’انھوں نے پاکستان کا ساتھ دیا‘’پاکستانی عوام بھائیوں کی طرح ہیں‘: کیا انڈیا کے ’آپریشن سندور‘ کے بعد ترکی نے پاکستان کا ساتھ دیا؟
جب ان سے سوال پوچھا گیا کہ کیا قبرص اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں انڈیا کے دعوے کی حمایت کرتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’اس بارے میں پہلے بھی بات کی جا چکی ہے۔ گذشتہ دوروں اور مشترکہ بیانات میں بھی اس پر زور دیا گیا ہے اور دہرایا گیا ہے۔‘
’بین الاقوامی دہشت گردی یا سرحد پار دہشت گردی کے خلاف ہمیں ان کی حمایت حاصل ہے۔‘
انڈیا کے سفارت کار کا مزید کہنا تھا کہ ’قبرص یورپی یونین میں انڈیا کا ایک اچھا دوست ہے۔ قبرص یکم جنوری 2026 سے یورپی یونین کی صدارت سنبھالے گا۔ انڈیا اور یورپی یونین کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لئے کام جاری ہے۔‘
ترکی اور قبرص کے درمیان تنازع کیا ہے؟
قبرص بحیرہ روم میں ایک جزیرہ ہے۔ یہ ترکی کے جنوب، شام کے مغرب اور اسرائیل کے شمال مغرب میں واقع ہے۔
یہاں ترک اور یونانی برادری کے لوگ آباد ہیں جن کے درمیان طویل عرصے سے نسلی تنازع چلا آ رہا ہے۔
1974 میں یونانی جنگجوؤں کی بغاوت کے بعد ترک فوج نے قبرص کے مشہور شہر وروشا کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
کثیر المنزلہ عمارتوں والا یہ شہر، جو کسی زمانے میں سیاحوں سے بھرا ہوا کرتا تھا، گذشتہ 51 سالوں سے ویران پڑا ہے۔ ترکی نے اس علاقے میں 35 ہزار فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔
تب سے یہ جزیرہ دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ترک قبرصی باشندوں نے اپنے علاقے کو ایک خود ساختہ ریاست کا درجہ دے رکھا ہے جسے صرف ترکی تسلیم کرتا ہے۔
دوسری جانب، اقوام متحدہ اور امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک یونانی قبرص کی حکومت کو تسلیم کرتی ہیں۔
اقوام متحدہ ایک عرصے سے اس جزیرے کو متحد کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن تاحال کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔
Getty Images1974 میں ترک فوج نے قبرص کے مشہور شہر وروشا کا کنٹرول سنبھال لیا تھارجب طیب اردوغان کا قبرص منصوبہ اور اسرائیل
2021 میں ترک صدر رجب طیب اردوغان نے اراکینِ پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’قبرص کا مسئلہ آج آپ کے کندھوں پر ہے، مستقبل میں بھی یہ آپ کے کندھوں پر ہی ہو گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ قبرص کا مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہو سکتا جب تک یہ تسلیم نہ کر لیا جائے کہ یہاں دو قومیں اور دو ریاستیں ہیں جن کے مساوی حقوق ہیں۔
تاہم اسرائیل کی جانب سے اردوغان کے اس بیان کی مذمت کی گئی۔ اسرائیل قبرص کی مکمل حمایت کا اعادہ کرتا آیا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے قبرص کی حمایت کی وجہ سے اس کے اور ترکی کے درمیان تصادم کا خدشہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ انڈیا بھی قبرص سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کرتا آیا ہے، جس میں قبرص سے غیر ملکی فوجیوں کی واپسی کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ انڈیا نے متعدد مواقع پر شمالی قبرص میں ترکی کے اقدامات کی مذمت بھی کی ہے۔
Getty Imagesانڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی ایک ایسے وقت میں قبرص کے دورے پر پہنچے ہیں جب انڈیا اور ترکی کے درمیان تعلقات کافی کشیدہ ہیںقبرص میں انڈیا کی دلچسپی کی کیا وجہ ہے؟
تاہم ماہرین کے خیال میں وزیرِاعظم مودی کے دورہ قبرص کی وجہ محض ترکی نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دورے کی ایک وجہ انڈیا-مشرق وسطی-یورپ اکنامک کوریڈور (آئی ایم ای سی) بھی ہے۔
رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے ایسوسی ایٹ فیلو سیموئیل رامانی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر لکھتے ہیں کہ ’نریندر مودی کے جی سیون کانفرنس سے قبل قبرص کے دورے کو ترکی اور پاکستان کے تعلقات کے ردعمل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن یہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ انڈیا قبرص کے ساتھ اچھے تعلقات کو آئی ایم ای سی کی حمایت کے طور پر دیکھتا ہے۔ انڈیا اسرائیل اور قبرص سے توانائی حاصل کرنے کے امکان پر بھی غور کر رہا ہے۔‘
دریں اثنا، مشرقی بحیرہ روم اور آئی ایم ای سی پر نظر رکھنے والے صحافی پال اینٹونوپولس نریندر مودی کے دورہ قبرص کو انڈیا اور ترکی کے درمیان کشیدہ تعلقات کے لیے اہم قرار دیتے ہیں۔
وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر نریندر مودی کے قبرص کے دورے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ 1983 میں ’اندرا گاندھی اور 2002 میں اٹل بہاری واجپائی کے بعد یہ کسی انڈین وزیر اعظم کا قبرص کا پہلا دورہ ہے۔ انڈیا اور ترکی کے کشیدہ تعلقات کے بیچ یہ دورہ اہم ہے۔‘
بین الاقوامی سیاست کے ماہر گوکل ساہنی بھی قبرص کو انڈیا کا حامی ملک گردانتے ہوئے ایکس پر لکھتے ہیں کہ ’قبرص اور یونان دونوں نے دہشت گردی، کشمیر، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں انڈیا کی مستقل رکنیت، 1998 کے جوہری تجربات سمیت اہم مسائل پر انڈیا کی حمایت کی ہے۔‘
تاہم سیموئل رامانی کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم مودی کے قبرص کے دورے کو صرف ترکی کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے پسِ منظر میں نہیں دیکھا جا سکتا۔
سیموئل رامانی کہتے ہیں، ’یہ اسرائیل-قبرص-یونان سہ فریقی تعاون تک پھیل سکتا ہے۔ قبرص اور اسرائیل آئی ایم ای سی کے لیے بچھائی جانے والی زیر سمندر کیبلز کے لیے بجلی بھی فراہم کر سکتے ہیں۔‘
نقشے میں کشمیر کو ’پاکستان کا حصہ دکھانے‘ پر انڈین صارفین ناراض، اسرائیلی فوج کی معذرتعامر خان کی ’حب الوطنی‘ اور اردوغان کے ساتھ تصویر پر سوالات: ’میں ہمیشہ ہندوستان اور مسلح افواج کا ساتھ دوں گا‘انڈیا میں ترکی اور آذربائیجان کے ’بائیکاٹ‘ کی بازگشت: ’انھوں نے پاکستان کا ساتھ دیا‘’پاکستان کی حمایت کرنے پر برہم‘ انڈیا ترکی کو کیسے نشانہ بنا رہا ہے؟سکھ برادری کی مخالفت کے باوجود کینیڈا نے مودی کو جی سیون اجلاس میں شرکت کی دعوت کیوں دی؟’خوف کی فضا، فتح کا بیانیہ اور اسرائیلی پیغامات‘: ایران پر حملوں کے بعد اٹھنے والے سوال جن کے جواب اب تک نہیں مل پائے