در در بھاگا، منتیں کیں لیکن۔۔ سوات سانحے میں آنکھ کے سامنے اپنی اولاد کو ڈوبتا دیکھنے والے باپ کی دہائی ! ذمہ دار کون؟

ہماری ویب  |  Jul 04, 2025

"ریسکیو والوں سے منتیں کیں، بس ایک رسا لے کر آئے اور واپس چلے گئے… میں اپنے بچوں کو پانی میں ڈوبتا دیکھتا رہا اور کچھ نہ کر سکا"

"میرے بچوں کی حالت بہت خراب تھی، میں نے بار بار ریسکیو والوں سے فریاد کی، آنکھوں میں آنسو تھے، دل میں امید باقی تھی۔ وہ صرف ایک رسا لے کر آئے، میں نے پوچھا، ’اس ایک رسی سے کیا ہو گا؟‘ کہنے لگے، ’یہی ہے، اور کچھ نہیں‘۔ پھر وہ رسی وہیں چھوڑ کر واپس چلے گئے۔ آدھے گھنٹے بعد ایک اور گاڑی آئی، میں نے کہا، ’اگر کچھ سامان نہیں ہے تو آئے کیوں؟‘ مگر وہاں بھی کچھ نہیں تھا۔ میں دوپہر 12 بجے تک اپنی اولاد کو پانی کی بے رحم لہروں میں ڈوبتا دیکھتا رہا۔ کچھ نہیں کر سکا… بس دیکھتا رہا…!"

26 جون کو سوات کے دریا نے صرف قیمتی جانیں ہی نہیں نگلیں، بلکہ ریاستی نااہلی، بے حسی اور ریسکیو کے کھوکھلے دعوؤں کا بھانڈا بھی بیچ چوراہے پھوڑ دیا۔ مردان سے تعلق رکھنے والے نصیر احمد، جن کے بچے سیلابی پانی میں بہہ گئے، ریسکیو ٹیموں کی "کارکردگی" کے سامنے مکمل طور پر بے بس نظر آئے۔

نصیر احمد، جن کی آنکھیں اپنے بچوں کی تلاش میں پتھرا گئیں، درد میں ڈوبی آواز میں بتاتے ہیں کہ انہوں نے زندگی بچانے کے لیے ریسکیو اداروں سے بار بار فریاد کی، ان کے سامنے ہاتھ جوڑے، مگر جو مدد آئی وہ صرف "ایک رسی" تھی، وہ بھی بے سود۔ دوسری جانب، وقت گزرنے کے ساتھ ایک اور گاڑی ضرور پہنچی، لیکن وہ بھی صرف تماشائی بن کر رہ گئی۔

ریاستی سطح پر اس بے عملی کا اعتراف بھی ہوچکا ہے۔ چیئرمین انسپیکشن ٹیم نے عدالت میں تسلیم کیا کہ مختلف محکموں کی غفلت اور ناقص تیاری اس سانحے کی بنیادی وجہ بنی۔

یہ دکھ صرف نصیر احمد کا نہیں تھا۔ سیالکوٹ سے آنے والے ایک اور شخص کی سسکیاں بھی ان دریا کی لہروں میں دفن ہو گئیں جب اس کے بچے ایک ایک کرکے پانی کی بےرحم گہرائیوں میں غائب ہوتے گئے۔ کسی نے ان کی فریاد نہ سنی، اور نہ ہی کوئی مدد وقت پر پہنچی۔

اس دن، 17 افراد دریا کی بپھری ہوئی موجوں کی نذر ہوئے، جن میں سے صرف 4 کو بچایا جا سکا۔ 12 لاشیں نکالی جا چکی ہیں، اور ایک شخص تاحال لاپتہ ہے۔

یہ سانحہ سوال اٹھاتا ہے: کیا ہماری ریاستی مشینری صرف وی آئی پیز کو بچانے کے لیے متحرک ہوتی ہے؟ کیا ڈرون یا رسی لے جانے والا عملہ صرف کاغذوں میں ہے؟ اور کیا عام شہریوں کی جانیں محض اعداد و شمار ہیں جنہیں فائلوں میں دفنا دیا جاتا ہے؟

سوات کا یہ واقعہ ایک المیہ نہیں، ایک آئینہ ہے جس میں ہم سب کو جھانکنے کی ضرورت ہے۔ ریاست، ریسکیو اور ہم سب، کہیں نہ کہیں اس خاموشی کے مجرم ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More