اوورسپیڈنگ پر جرمانے اور مقدمات، موٹروے پر نئے قانون سے فیملیز کو مشکلات کا سامنا

اردو نیوز  |  Jul 04, 2025

حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کی موٹرویز پر تیز رفتاری پر ڈرائیوروں کی گرفتاریوں سے حادثات کی شرح میں نمایاں کمی ہوئی ہے، تاہم بعض ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جہاں اس نئے قانون کی وجہ سے کچھ شہریوں کو غیرمتوقع مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس نے فروری 2025 میں اعلان کیا تھا کہ 150 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زائد رفتار سے گاڑی چلانے والوں کے خلاف نہ صرف جُرمانہ ہوگا بلکہ مقدمہ درج کر کے ڈرائیور کو گرفتار بھی کیا جائے گا۔

نیا قانون: اوور سپیڈنگ پر سخت کارروائیموٹروے پولیس نے رواں برس فروری میں 150 کلومیٹر فی گھنٹہ زائد رفتار پر گاڑی چلانے والوں کے خلاف پاکستانی پینل کوڈ کی دفعہ 279 کے تحت مقدمہ درج کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی گاڑی کو ضبط کر کے اوورسپیڈنگ کرنے والے ڈرائیورز کو گرفتار کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ 

ترجمان موٹروے پولیس سید عمران احمد شاہ نے بتایا کہ ’جدید گاڑیوں کے بڑھتے ہوئے استعمال اور شہریوں کی تیز رفتاری کے شوق نے موٹرویز پر حادثات میں اضافہ کیا۔ 

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’ہمارا مقصد قیمتی جانوں کو بچانا ہے۔ بعض ڈرائیور جُرمانوں کی پروا نہیں کرتے، اس لیے سخت کارروائی ناگزیر تھی۔‘

’موٹرویز پر کاروں اور ہلکی گاڑیوں کے لیے رفتار کی حد 120 کلومیٹر فی گھنٹہ، جبکہ بسوں اور بھاری گاڑیوں کے لیے 110 کلومیٹر فی گھنٹہ رکھی گئی ہے۔‘

ترجمان موٹروے پولیس کے مطابق ’150 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زائد رفتار پر گاڑی چلانے والوں کو اسی علاقے کی ضلعی پولیس کے حوالے کیا جاتا ہے جس علاقے میں گاڑی اوورسپیڈنگ کرتی ہوئی پکڑی جاتی ہے۔‘

موٹروے پولیس جہاں اس قانون پر سختی کے ساتھ عمل درآمد کر رہی ہے وہیں کچھ ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں جہاں فیملیز کو مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔لاہور کے رہائشی محسن علی نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ’وہ اپنے خاندان کے ساتھ موٹروے ایم 2 پر سفر کر رہے تھے اور دوران ان کا ڈرائیور تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے حد رفتار سے آگے چلا گیا۔‘ 

’موٹروے پولیس نے گاڑی کو روکا اور سپیڈ چیک کرنے والے کیمرے سے پتا چلا کہ گاڑی کی رفتار 160 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔ ڈرائیور کے خلاف مقدمہ درج کر کے اُسے گرفتار کر لیا گیا۔‘

مسافروں کا کہنا ہے کہ ’ڈرائیورز کی تیز رفتاری کی سزا اُن کے اہل خانہ کو گھنٹوں انتظار کی صورت میں بھگتنا پڑی‘ (فائل فوٹو: وِکی میڈیا)

اس دوران محسن علی، اُن کی اہلیہ، اور دو بچوں کو کئی گھنٹے تک قریبی ٹول پلازہ پر انتظار کرنا پڑا۔ 

محسن علی کے مطابق ’ہمارا ڈرائیور غلطی پر تھا اور ہمیں اِس کی سزا بھی ملی۔ ہمارے پاس واپسی کا کوئی انتظام نہ تھا اور رات کے وقت بچوں کے ساتھ موٹروے پر پھنسنا خوفناک تھا۔‘

انہوں نے اس حوالے سے مزید بتایا کہ ’اگرچہ پولیس نے ہماری مدد کی، لیکن گاڑی ضبط ہونے کی وجہ سے ہمیں گھر پہنچنے میں کافی تاخیر ہو گئی۔‘خرم خان راولپنڈی سے ملتان سفر کر رہے تھے کہ انہیں بھی اس قانون کے اثرات کا سامنا کرنا پڑا۔ اُن کے ڈرائیور نے موٹروے ایم 4 پر 155 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلائی، جسے سپیڈ چیکنگ کیمرے نے ریکارڈ کر لیا۔

موٹروے پولیس نے ڈرائیور کو گرفتار کر کے گاڑی ضبط کر لی۔ اس دوران خرم، اُن کی والدہ، اور ہمشیرہ کو قریبی پولیس سٹیشن پر کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔ 

خرم خان کہتے ہیں کہ ’غلطی ہمارے ڈرائیور نے کی، لیکن اِس کی سزا ہمیں بھگتنا پڑی۔ میری والدہ بیمار تھیں اور ہمیں گھر پہنچنے میں بہت مشکل پیش آئی۔

موٹروے پولیس کا موقف

ترجمان موٹروے پولیس سید عمران احمد شاہ نے ان واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے علم میں ایسی کوئی شکایت نہیں آئی کہ اس قانون کی وجہ سے فیملیز کو غیر ضروری پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہو۔

حکام کے مطابق ’ایسی شکایت سامنے نہیں آئی کہ نئے قانون سے فیملیز کو غیر ضروری پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہو‘ (فائل فوٹو: وِکی میڈیا)

’عام طور پر 150 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زائد رفتار سے گاڑی چلانے والے تنہا ہوتے ہیں، کیونکہ یہ رفتار خطرناک ہے اور خاندان کے ساتھ سفر میں ایسی بے پروائی کم ہی دیکھی گئی ہے۔‘

سرکاری اعداد و شمار: حادثات میں کمی

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ’جب سے یہ قانون نافذ ہوا ہے موٹرویز پر حادثات میں نمایاں کمی آئی ہے۔ جولائی 2023 سے اگست 2024 تک موٹرویز اور ہائی ویز پر 466 افراد ہلاک جبکہ 764 زخمی ہوئے۔‘’ان حادثات کی بنیادی وجوہات اوور سپیڈنگ، بے پروائی اور ٹائر پھٹنے جیسے واقعات تھے۔ نئے قانون کے نفاذ کے بعد موٹروے پولیس نے 950 سے زائد ایف آئی آرز درج کی ہیں۔‘سرکاری اعدادوشمار میں بتایا گیا ہے کہ ’زیادہ تر ایف آئی آرز 150 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زائد رفتار پر گاڑی چلانے کی وجہ سے درج کی گئیں۔موٹروے پولیس کے مطابق ’سپیڈ مانیٹرنگ کیمروں اور حفاظتی باڑوں کی تنصیب نے بھی حادثات کی روک تھام میں مدد کی ہے۔‘ماہرین کا کہنا ہے کہ ’قانون کے ساتھ ساتھ موٹرویز پر سفر کرنے والوں کے لیے آگاہی مہم چلانے، انفراسٹرکچر بہتر بنانے اور گاڑیوں کی فٹنس چیک کرنا بھی ضروری ہے۔‘عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق ’پاکستان میں سالانہ 35 سے 40 ہزار افراد ٹریفک حادثات میں ہلاک ہوتے ہیں جن میں اوور سپیڈنگ ایک بڑی وجہ ہے۔‘

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More