یورپی یونین کے مشہور زمانہ ماسٹرز سکالرشپ پروگرام ایراسمس منڈس میں پاکستانی طلبہ مسلسل سب سے زیادہ سکالرشپ حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔دنیا کے تقریباً 160 ممالک کے طلبہ اس سکالرشپ کے لیے اہل ہوتے ہیں، تاہم گزشتہ چار برسوں سے پاکستان ہر بار اس فہرست میں پہلے نمبر پر آ رہا ہے۔اردو نیوز کو دستیاب اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی طلبہ نے سال 2022، 2023، 2024 اور اب چوتھی مرتبہ سال 2025 میں بھی ایراسمس منڈس سکالرشپ حاصل کرنے میں دنیا بھر کے طلبہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق سال 2025 میں پاکستان کے 114 طلبہ نے یہ سکالرشپ حاصل کی جن میں 66 خواتین شامل ہیں۔
دنیا بھر کے 137 ممالک کے 2176 طلبہ کو یہ سکالرشپ دی گئی جن میں پاکستانی طلبہ کی تعداد سب سے زیادہ رہی۔سال 2024 میں بھی پاکستان سرفہرست رہاگزشتہ سال یعنی 2024 میں بھی پاکستانی طلبہ نے یہ اعزاز اپنے نام کیا تھا۔ اس سال 137 ممالک میں پاکستان سرفہرست رہا اور 189 پاکستانی طلبہ نے ایراسمس منڈس سکالرشپ حاصل کی جن میں 88 خواتین شامل تھیں۔سال 2023 میں بھی پاکستان اس دوڑ میں سب سے آگے رہا۔ اس سال دنیا بھر میں 2835 طلبہ کو سکالرشپ ملی، جن میں سے 192 کا تعلق پاکستان سے تھا، ان میں 89 طالبات شامل تھیں جو کہ خواتین کی شمولیت کے لحاظ سے بھی ایک مثبت اشارہ تھا۔سال 2022 اور پاکستانی طلبہیہ سلسلہ 2022 میں شروع ہوا، جب پاکستان پہلی بار اس فہرست میں سب سے آگے رہا۔ اس سال 133 ممالک سے مجموعی طور پر 3013 طلبہ کو سکالرشپ دی گئی، جن میں سے 166 پاکستانی تھے۔ ان میں 86 مرد اور 80 خواتین شامل تھیں۔اردو نیوز نے اس رپورٹ میں یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر پاکستان مسلسل چار سال سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ ایراسمس منڈس سکالرشپس حاصل کرنے والا ملک بن گیا ہے؟ایراسمس پروگرام کے لیے اہلیت کا معیارایراسمس منڈس سکالرشپ کے لیے اہلیت کا معیار کافی جامع ہے جس میں دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے طلبہ درخواست دے سکتے ہیں۔درخواست گزار کے پاس کم از کم بیچلر ڈگری ہونی چاہیے اور تعلیمی کارکردگی شاندار ہو۔ انگریزی زبان میں مہارت ضروری ہے، جس کے لیے عام طور پر IELTS، TOEFL یا دیگر بین الاقوامی ٹیسٹ کی شرط رکھی جاتی ہے، البتہ کچھ پروگراموں کے لیے کچھ اضافی مہارتیں طلب کی جاتی ہیں۔اس پروگرام کے تحت طلبہ کی مکمل ٹیوشن فیس ختم کر دی جاتی ہے اور انہیں ہر مہینے معقول وظیفہ دیا جاتا ہے (فائل فوٹو: برٹس کونسل)ہر ماسٹر پروگرام کا الگ معیار ہوتا ہے جس میں متعلقہ فیلڈ کی ڈگری، پیشہ ورانہ تجربہ، اور موٹیویشن لیٹر کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں امیدوار کی عالمی سطح پر سیکھنے اور مختلف ثقافتوں میں کام کرنے کی صلاحیت بھی دیکھی جاتی ہے۔طلبہ کو کون سی سہولیات ملتی ہیں؟ایراسمس منڈس سکالرشپ حاصل کرنے والے طلبہ کو مکمل فنڈڈ تعلیم کے ساتھ کئی اہم سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ اس پروگرام کے تحت طلبہ کی مکمل ٹیوشن فیس ختم کر دی جاتی ہے اور انہیں ہر مہینے معقول وظیفہ دیا جاتا ہے جو ان کی رہائش، کھانے پینے اور دیگر ضروری اخراجات کے لیے کافی ہوتا ہے۔اس کے علاوہ یورپ میں آمد و رفت کے سفری اخراجات، مکمل میڈیکل انشورنس اور بعض اوقات رہائش کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے۔اس پروگرام کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ طلبہ کو مختلف یورپی ممالک میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے جس سے نہ صرف ان کی تعلیمی قابلیت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ انہیں مختلف ثقافتوں کو سمجھنے اور عالمی سطح پر نیٹ ورکنک کرنے کا موقع بھی ملتا ہے۔پاکستان کی مسلسل برتری کی وجوہات کیا ہیں؟اس سوال کا جواب جاننے کے لیے اردو نیوز نے چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر مختار احمد سے رابطہ کیا۔انہوں نے کہا کہ ’یہ اعداد و شمار اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ پاکستانی طلبہ میں کسی بھی قوم سے کم باصلاحیت نہیں اور انہیں اگر درست رہنمائی اور تربیت فراہم کی جائے تو یہ دنیا کے کسی بھی تعلیمی یا پیشہ ورانہ میدان میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔‘ڈاکٹر مختار احمد کا کہنا تھا کہ ’اس سکالرشپ پروگرام کے لیے چین اور انڈیا جیسے بڑے ممالک کے طلبہ بھی سخت مقابلہ کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستانی طلبہ کا مسلسل سب سے زیادہ سکالرشپس حاصل کرنا ان کی صلاحیتوں اور قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’اس کامیابی کا کریڈٹ کسی حکومت یا صرف ایچ ای سی کو نہیں جاتا بلکہ اصل کریڈٹ ان طلبہ، ان کے تعلیمی اداروں اور ان کے والدین کی محنت کو جاتا ہے جنہوں نے اپنی قابلیت اور محنت سے یہ مقام حاصل کیا۔‘ڈاکٹر مختار احمد نے کہا کہ پاکستانی طلبہ کسی بھی تعلیمی یا پیشہ ورانہ میدان میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)انہوں نے کہا کہ ’اس سلسلے کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے تعلیمی معیار کو مزید بہتر بنائیں تاکہ آئندہ بھی پاکستانی طلبہ دنیا بھر میں اپنی قابلیت کا لوہا منواتے رہیں۔‘تعلیمی شعبے میں دو دہائیوں سے زائد تجربہ رکھنے والی ماہرِ تعلیم، ادیب اور افسانہ نگار پروفیسر ڈاکٹر فوزیہ سحر ملک کا ماننا ہے کہ ’پاکستان کے تعلیمی نظام میں اگرچہ کئی خامیاں ہیں اور طلبہ پر غیرضروری تعلیمی بوجھ ڈال دیا جاتا ہے مگر اسی بوجھ کی بدولت ہمارے طلبہ میں سخت محنت کرنے اور مسلسل مطالعہ کرنے کی عادت پیدا ہو جاتی ہے جو عالمی سطح کے مقابلوں میں ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس بات کو بظاہر منفی سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں پریکٹیکل یعنی عملی کام پر اتنی توجہ نہیں دی جاتی اور تھیوری یا رٹنے والے مضامین پر زیادہ زور دیا جاتا ہے لیکن اسی تھیوریٹیکل سسٹم کی وجہ سے طلبہ کو علمی مواد کو واضح انداز میں پیش کرنے کی مہارت حاصل ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بین الاقوامی مقابلوں میں تھیوری کی بنیاد پر اپنی قابلیت اور علم کو پیش کرنے کی باری آتی ہے تو پاکستانی طلبہ اکثر نمایاں کامیابیاں حاصل کرتے ہیں، جیسا کہ ایراسمس منڈس جیسے سکالرشپ پروگراموں میں نظر آتا ہے۔‘ڈاکٹر فوزیہ سحر نے کہا کہ ’پاکستانی طلبہ بیچلرز کے دوران ہی یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ماسٹرز کے لیے یورپ یا دیگر ممالک جانا ہے (فائل فوٹو: ایڈوائس ہب)ڈاکٹر فوزیہ سحر ملک نے ایک اور دلچسپ پہلو پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ترقی پذیر ممالک کے زیادہ تر طلبہ بچپن یا نوجوانی میں ہی یہ ہدف طے کر لیتے ہیں کہ انہوں نے اعلیٰ تعلیم بیرونِ ملک حاصل کرنی ہے تاکہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی بہتر بنا سکیں۔‘’پاکستانی طلبہ بھی بیچلرز کے دوران ہی یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ انہوں نے ماسٹرز کے لیے یورپ یا دیگر ممالک جانا ہے، سکالرشپ حاصل کرنی ہے اور وہیں جا کر اپنی زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ یہی عزم اور ذہنی تیاری اُنہیں ایسے مقابلوں میں کامیابی حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے۔‘