بنگلہ دیش میں احتجاج کے باعث حکومت کی تبدیلی کے بعد ایک اہم سفارتی تبدیلی سامنے آ رہی ہے اور وہ چین کے قریب ہوتا دکھائی دے رہا ہے جبکہ انڈیا اپنی ’پرانی اتحادی‘ حسینہ واجد کو نکالے جانے پر برہم ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پُرتشدد مظاہروں کے ایک سال بعد بھی جہاں پولرائزیشن بڑھنے کا خطرہ ہے وہیں بیرونی مداخلت کے خدشات بھی موجود ہیں جبکہ سیاسی جماعتیں اگلے سال ہونے والے الیکشن سے قبل اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے تگ و دو کر رہی ہیں۔
ملک کی نگران حکومت کے لیے ایک چیلنج یہ بھی ہے کہ 17 کروڑ کی آبادی والے ملک میں جمہوری اداروں کی بحالی کے لیے ملکی سطح پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔
انٹرنیشنل کرائسز گروپ سے تعلق رکھنے والی تجزیہ کار پروین ڈونتھی کا کہنا ہے کہ ’بنگلہ دیش اور انڈیا کے تعلقات میں شاید اتنا تناؤ پہلے کبھی پیدا نہیں ہوا۔‘
ڈھاکہ میں سابق وزیراعظم حسینہ واجد کے لیے شدید برہمی پائی جاتی ہے جو اگست 2024 میں شدید احتجاج کے دوران اس وقت ہیلی کاپٹر کے ذریعے انڈیا روانہ ہو گئی تھیں جب مظاہرین نے ان کے محل پر دھاوا بول دیا تھا۔
بنگلہ دیش کے نگران رہنما محمد یونس کا کہنا ہے کہ مسلم اکثریت رکھنے والے بنگلہ دیش کی ’برہمی کا رخ انڈیا کی طرف ہو گیا ہے کیونکہ ہندو قوم پرست حکومت نے ان کو پناہ دی ہے۔‘
بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ امور کے سربراہ توحید حسین کا کہنا ہے کہ ’تعلقات اس وقت ری ایڈجسٹمنٹ کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔‘
پچھلے سال اگست میں شدید احتجاج کے باعث بنگلہ دیش میں قائم حکومت ختم ہو گئی تھی (فوٹو: اے ایف پی)
نوبیل انعام یافتہ یونس نے چین کا پہلا سرکاری دورہ مارچ میں کیا تھا، جس میں ان کو دو اعشاریہ ایک ارب ڈالر، قرضے اور گرانٹس حاصل ہوئیں۔
بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے سینیئر رہنما مرزا فخرالاسلام کے بارے میں امید کی جا رہی ہے کہ وہ آنے والے انتخابات میں سبقت لے سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’چین اگلی منتخب حکومت کے ساتھ خلوص اور محبت کے ساتھ کام کرنے کا خواہش مند ہے۔‘
انڈیا طویل عرصے سے خطے میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور بہت بڑی آبادی رکھنے والے دونوں ممالک جنوبی ایشیا میں اپنے اثر و رسوخ کے آمنے سامنے ہیں۔
دوسری جانب بنگلہ دیش انڈیا کے روایتی اور سخت دشمن پاکستان کے بھی قریب آ گیا ہے۔
22 اپریل کو انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں شدید کشیدگی پیدا ہوئی۔
انڈیا کی جانب سے اس کا الزام پاکستان پر لگایا گیا جبکہ پاکستان نے انکار کرتے ہوئے شفاف تحقیقات کی پیشکش کی۔
تاہم چند روز بعد سات مئی کو انڈیا نے پاکستان کے مختلف مقامات پر حملے کیے جس کے جواب میں 9 مئی کو پاکستان نے انڈیا کے مختلف مقامات کو نشانہ بنایا، تاہم بعدازاں امریکہ کی مداخلت سے دونوں کے درمیان جنگ بندی ہو گئی۔
اس سے اگلے ماہ ڈھاکہ اور اسلام آباد کے حکام نے چین میں ملاقات کی۔
مظاہرین کے محل میں داخل ہونے کے بعد حسینہ واجد ہیلی کاپٹر کے ذریعے انڈیا روانہ ہو گئی تھیں (فوٹو: اے ایف پی)
جس کے بعد چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان گاؤ جیکون کا کہنا تھا کہ تینوں ممالک نے باہمی تعاون کے منصوبوں پر اتفاق کا اظہار کیا ہے جن میں تجارت، صنعت، تعلیم اور زراعت کے شعبے شامل ہیں۔
ڈھاکہ یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ریلشینز کے پروفیسر عبیداللہ حق کہتے ہیں کہ بیجنگ کے ساتھ بات چیت ثمر آور ثابت ہوئی ہے، جن میں صحت کے حوالے سے باہمی اقدامات شامل ہیں، جبکہ انڈیا نے بنگلہ دیش کے ساتھ طبی سیاحت پر پابندی لگائی تھی۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’چین نے اس وقت تین ہسپتال بنگلہ دیش کے مریضوں کے لیے مخصوص کر دیے تھے جب انڈیا نے اپنے ہاں مریضوں کی آمد پر پابندی لگائی تھی۔‘
1971 میں پاکستان سے الگ ہونے والے بنگلہ دیش نے پچھلے برس پاکستان کے ساتھ سمندر کے راستے تجارت اور براہ راست پروازیں شروع کیں۔
ان اقدامات نے انڈیا میں تشویش کو جنم دیا۔
پروین ڈونتھی کہتی ہیں کہ ’انڈیا کی موجودہ سیاسی قیادت اپنے نظریات کی وجہ سے ڈھاکہ کی ایسی حکومت کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہے جسے وہ اسلام پسند اور انڈیا کے خلاف سمجھتی ہے۔‘