سنہ 1980 کی دہائی کے اواخر اور 1990 کی دہائی کے اوائل میں لاکھوں مصریوں نے ٹیلی ویژن سیریز ’رافت الہجان‘ دیکھی جس میں اسرائیل میں ’ڈیوڈ چارلس سمحون‘ کے نام سے جانے جانے والے ایک مصری جاسوس کی مہم جوئی کو دکھایا گيا ہے جنھوں نے ملک بھر میں آزادانہ طور پر سفر کیا تاکہ معلومات اپنے آبائی ملک مصر کو واپس بھیج سکیں۔
رافت الہجان کا اصل نام رفعت علی سلیمان جمال تھا۔ یہ مصری انٹیلیجنس کی تاریخ کی سب سے دلچسپ اور پراسرار کہانیوں میں سے ایک ہے۔ یہ کہانی صالح مرسی کی کتاب ’آئی واز اے سپائی ان اسرائیل‘ یعنی ’میں اسرائیل میں جاسوس تھا‘ میں قلمبند کیا ہے۔
اس کتاب کو رفعت جمال کی زندگی کے بارے میں معلومات کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اس میں ایک ایسے شخص کی کہانی بیان کی گئی ہے جو اسرائیل میں 17 سال تک غلط شناخت کے ساتھ مقیم رہا اور مصری انٹیلیجنس سروس کو اہم معلومات فراہم کرتا رہا۔
صالح مرسی نے اس کہانی کو سب سے پہلے مصری میگزین ’المصور‘ میں قسط وار شائع کیا۔ اس کی پہلی قسط 3 جنوری سنہ 1986 کو شائع ہوئی اور اسی دن سے یہ کہانی بڑی تعداد میں قارئین کی توجہ مبذول کرنے میں کامیاب رہی اور لوگ اس کی اگلی قسطوں کا بے صبری سے انتظار کرنے لگے۔
مرسی نے 1988 میں اس کہانی کو یکجا کیا اور اور اسے ’آئی واز اے سپائی ان اسرائیل‘ کے نام سے شائع کیا۔ پھر اس کتاب کو ’رافت الہجان‘ کے نام سے ٹی وی سیریز میں ڈھالا گيا اور اسے تین قسطوں میں پیش کیا گيا۔
جہاں یہ سیریز اور کتاب رفعت جمال کو ایک مصری قومی ہیرو کے طور پر پیش کرتی ہے وہیں اسرائیل کی طرف سے ایسی داستانیں شائع کی گئیں جو مصر کے ساتھ جمال کی وفاداری پر سوال اٹھاتی ہیں اور دعوی کرتی ہیں کہ وہ درحقیقت ایک ڈبل ایجنٹ تھے۔
جاسوسی کی ابتدا
صالح مرسی کے مطابق رفعت جمال یکم جولائی سنہ 1927 کو مصر کے شہر دمیاط میں پیدا ہوئے اور غربت میں پلے بڑھے۔
ان کے والد کوئلے کے تاجر تھے۔ سنہ 1936 میں والد کی موت کے بعد رفعت کے بڑے سوتیلے بھائی سمیع نے، جو ایک استاد تھے، خاندان کو دمیاط سے قاہرہ منتقل کرنے کا فیصلہ کیا، جہاں رفعت نے کامرس سکول میں داخلہ لیا۔
گریجویشن کے بعد رفعت نے بحیرہ احمر کے علاقے میں ایک آئل کمپنی میں اکاؤنٹنٹ کی نوکری کے لیے درخواست دی لیکن کچھ عرصے بعد غبن کے الزام میں انھیں نوکری سے نکال دیا گیا۔
اس واقعے کے بعد انھیں اس وقت تک کوئی مستقل ملازمت نہیں مل سکی جب تک کہ انھوں نے مختلف یورپی بندرگاہوں کا سفر کرتے ہوئے ایک جہاز پر اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ کی خدمات حاصل نہ کر لیں۔
جمال ایک حوصلہ مند نوجوان تھے جنھوں نے مختلف حالات سے ہم آہنگ ہونے میں اپنی زبردست صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے چھوٹی عمر میں ہی انگریزی اور فرانسیسی زبان پر عبور حاصل کر لیا تھا جو بعد میں ان کے کام آیا۔
رفعت جمال کا مصری انٹیلیجنس سروس کے ساتھ تعاون جولائی سنہ 1952 کے انقلاب کے بعد شروع ہوا، جب مصری جنرل انٹیلیجنس سروس ابھی زکریا محی الدین کی سربراہی میں تشکیل دی جا رہی تھی۔
یورپ میں اپنے سفر کے دوران جمال دھوکہ دہی اور دستاویزات کی جعلسازی میں ملوث پائے گئے، جس کی وجہ سے 1952 میں مصر میں ان کی گرفتاری عمل میں آئی۔
اس وقت مصری انٹیلی جنس سروس نے ان کی جعل سازی کی صلاحیتوں اور متعدد شناخت بنانے کی صلاحیت کو پہنچانا اور انھیں ایک جاسوس کے طور پر بھرتی کرنے کے موقع کے طور پر دیکھا۔
مصری انٹیلیجنس نے رفعت کو دو آپشنز دیے: ’جیل یا ایجنٹ کے طور پر تعاون۔‘ مؤخر الذکر کو منتخب کرنے کے بعد انھوں نے انتہائی سخت تربیت کا ایک کورس شروع کیا جس میں جاسوسی کی تکنیکیں سیکھنا، نہ نظر آنے والی سیاہی کا استعمال، ڈی کوڈنگ، ریڈیو کے ساتھ کام کرنا، اور خفیہ کیمروں سے تصاویر لینا شامل تھا۔
انھوں نے اس دوران یہودی رسم و رواج کی تربیت بھی حاصل کی۔ انھوں نے یہودی فرقے اشکنازی اور سیفارد کے درمیان کے فرق اور اختلافات کے بارے میں بھی علم حاصل کیا تاکہ انھیں اسرائیلی معاشرے کے مطابق ڈھلنے میں مدد ملے۔
اس کے بعد انھیں ’جیکس بیٹن‘ کے نام سے ایک نئی شناخت دی گئی۔ وہ مصری یہودی کے طور پر سنہ 1955 میں اسرائیل چلے گئے۔
اس طرح اسرائیلی معاشرے کے قلب میں ایک جاسوس کے طور پر انھوں نے اپنے مشن کا آغاز کیا۔ ٹیلی ویژن سیریز میں صالح مرسی نے ’جیکس بیٹن‘ کا نام بدل کر ’ڈیوڈ چارلس سمحون‘ رکھ دیا۔
اسرائیل کے دل میں
صالح مرسی کے مطابق رفعت جمال اسرائیل میں رابطوں کا ایک وسیع نیٹ ورک قائم کرنے میں کامیاب رہے۔ انھوں نے وہاں ’سی ٹورز‘ کے نام سے ایک سیاحتی کمپنی کی بنیاد رکھی جو ان کی جاسوسی کی سرگرمیوں کے لیے ایک کور کے طور پر کام کرتی تھی۔
کمپنی نے انھیں اسرائیلی معاشرے کی اہم شخصیات سے روابط قائم کرنے کا موقع بھی دیا جن میں کچھ سیاستدان اور فوجی اہلکار بھی شامل تھے۔
جمال کرشماتی شخصیت کے مالک تھے جس کی وجہ سے وہ اسرائیلی معاشرے میں داخل ہو سکے۔ اپنے قیام کے دوران انھوں نے مصری انٹیلیجنس کو اہم معلومات فراہم کیں، خاص طور پر اسرائیل کی فوجی تیاریوں کے بارے میں۔
مصری ذرائع کے مطابق جمال کی سب سے اہم کامیابیوں میں سے ایک اکتوبر 1973 کی جنگ میں ان کا کردار تھا۔ انھوں نے مصر کو برلیو لائن (بارلیف لائن) کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کی جس نے اس جنگ کے آغاز میں مصری فوج کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
مرسی کی کتاب میں رفعت جمال کو ایک محب وطن شخص کے طور پر پیش کیا گیا ہے جنھوں نے اپنی یکسر متضاد زندگی کے باوجود اپنے ملک کے لیے قربانیاں دیں۔ انھوں نے دوہری زندگی گزاری، اسرائیل میں ایک کامیاب یہودی تاجر کے طور پر زندگی گزاری، لیکن خفیہ طور پر وہ مصر کو معلومات بھیجتے رہے۔
انھوں نے کہا کہ وہ 23 اگست 1929 کو مصر کے منصورہ میں ایک فرانسیسی تاجر کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کی نئی شناخت کے مطابق ان کے والد مصر میں کام کرتے تھے اور انھوں نے ایک مصری خاتون سے شادی کی تھی جس سے اس کے دو بیٹے تھے۔جیکس بڑا تھا جبکہ اس کے چھوٹا بیٹے رابرٹ نے خودکشی کر لی تھی۔
1967 کی چھ روزہ جنگ: جب اسرائیل نے آدھے گھنٹے میں ’مصری فضائیہ کا وجود ختم کر دیا‘’اسلام قبول کر کے‘ مکہ پہنچنے والے وہ یورپی ’جاسوس‘ جنھوں نے کعبہ کی ابتدائی تصاویر لیں اور تلاوت کی ریکارڈنگ کیسیف الاعظم: پاکستانی فضائیہ کے وہ پائلٹ جنھوں نے چھ روزہ جنگ میں اسرائیلی طیاروں کو مار گرایا1971 میں انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے دو جاسوس کراچی بندرگاہ تک کیسے پہنچے
ان کی کہانی کے مطابق جیکس کی والدہ کے انتقال کے بعد ان کے والد نے ایک فرانسیسی خاتون سے شادی کی جس کی سابقہ شادی سے دو بیٹیاں تھیں۔ جیکس کو اپنے نئے خاندان کے ساتھ رہنا ناگوار گزرا اور بالآخر اس نے گھر سے بھاگ جانے کو بہتر جانا۔
اپنے شوہر کی موت کے بعد والٹروڈ بیٹن نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح رفعت جمال نے ایک اسرائیلی جاسوس ایلی کوہن کی شناخت کرنے میں کامیاب حاصل کی تھی جو شام میں 'کامل امین ثابت' کے نام سے کام کر رہا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ جمال نے کوہن سے 1954 میں قاہرہ میں ملاقات کی تھی۔ اس وقت دونوں کو اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ پھر جمال نے ایک عربی اخبار میں کوہن کی تصاویر دیکھی جو اسے شامی افسران کے ساتھ نظر آ رہا تھا۔ انھوں نے اس کی اطلاع مصری انٹیلیجنس کو دی، جس نے شام کو اطلاع دی، اور کوہن کو گرفتار کر کے پھانسی دے دی گئی۔
اسرائیل کا بیانیہ
مصری بیانیے کے برعکس اسرائیل رفعت جمال کے بارے میں بالکل مختلف کہانی پیش کرتا ہے۔
ہارتز اور ییدیوتھ اہرونوتھ جیسے اسرائیلی اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق، رفعت جمال نے 1955 میں اسرائیل میں شناخت اور گرفتار ہونے کے بعد ’ڈبل ایجنٹ‘ کے طور پر کام کیا۔
اسرائیل کے مطابق جب وہ جیکس بیٹن کے نام سے اسرائیل پہنچے تو اسرائیل کی انٹرنل سکیورٹی سروس شاباک کو جمال کی جاسوسی سرگرمیوں کا علم اپنے کاروباری پارٹنر، ایمری فرید کے ذریعے ہوا، جو تنظیم کے لیے کام کرتا تھا۔
اس کے مطابق سکیورٹی فورسز نے تل ابیب میں ان کے گھر پر چھاپہ مارا اور تفتیش کے دوران اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنٹ موردچائی شیرون نے آزادی کے بدلے اسرائیل کے لیے کام کرنے پر آمادہ کیا۔
اسرائیلیوں کا دعویٰ ہے کہ جمال نے یہ درخواست قبول کر لی اور پھر مصری انٹیلیجنس کو گمراہ کن معلومات بھیجنا شروع کر دیں۔ ان معلومات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی بھیجی ہوئی معلومات نے 1967 کی جنگ میں اسرائیل کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
ان اطلاعات کے مطابق انھوں نے مصریوں کو آگاہ کیا کہ اسرائیل مصری فضائیہ پر حملہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا جبکہ اسرائیل مصری ہوائی اڈوں پر حملے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں زمین پر موجود مصری طیارے کا ایک بڑا حصہ تباہ ہو گیا۔
اس اکاؤنٹ کے مطابق جمال کو بطور انٹیلیجنس ایجنٹ بھرتی کرنے کے آپریشن کی کامیابی موساد کی کامیاب ترین کارروائیوں میں سے ایک تھی۔ کچھ اسرائیلی ذرائع یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ بعد میں موساد نے جمال کی یورپ میں سرمایہ کاری میں مدد کی، جو ان کے بقول 1973 میں اسرائیل چھوڑنے کے بعد جرمنی جانے کی وضاحت کرتا ہے۔
اسرائیل کے بیانیے اور مصر کے ردعمل میں تضاد
تاہم اس واقعے کے بارے میں اسرائیل کے بیانات میں تضادات پائے جاتے ہیں۔
جہاں کچھ اسرائیلی اخبارات نے دعویٰ کیا تھا کہ رفعت جمال ڈبل ایجنٹ تھے وہیں شن بیٹ کے سابق نائب سربراہ گیڈون عذرا نے جیکس بیٹن نامی جاسوس کے وجود سے یکسر انکار کیا ہے۔
موساد کے سابق سربراہ اسر ہیرل نے بھی کہا کہ اسرائیلی حکام نے اس وقت محسوس کیا کہ انھیں سکیورٹی کی سنگین خلاف ورزی کا سامنا ہے، لیکن انھوں نے کبھی جیکس بیٹن پر شبہ نہیں کیا۔
ان تضادات نے بعض اسرائیلی میڈیا اکاؤنٹس کی درستگی کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیا اور بعض مبصرین نے ان دعوؤں کو عرب دنیا میں ٹی وی سیریز ’رافت الہجان‘ کی وسیع پیمانے پر کامیابی کے ردعمل کے طور پر دیکھا۔
دوسری طرف، مصری انٹیلی جنس سروس نے اکتوبر سنہ 1973 کی جنگ میں الہجان کے کردار کے بارے میں اپنے اکاؤنٹ کی تصدیق کی ہے۔
مصری حکام کا مؤقف ہے کہ اگر جمال واقعی ڈبل ایجنٹ تھا تو اسرائیل کو 1973 میں مصر کی جانب سے حملے کے لیے فوجی تیاریوں سے آگاہ ہونا چاہیے تھا اور اس کے بعد جنگ شروع ہونے پر اسرائیل کو حیران نہیں ہونا چاہیے تھا۔
جمال کی ذاتی تحاریر، جو ان کی بیوی کو ان کی موت کے بعد ملی تھیں، بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ مصر کے وفادار تھے۔
سنہ 1982 میں جمال کی موت کے بعد والٹروڈ بیٹن نے جن تحاریر تک رسائی حاصل کی ان میں ایلی کوہن کی شناخت میں ان کے کردار سمیت ان کی خفیہ سرگرمیوں کی تفصیلات سامنے آتی ہیں۔
Getty Imagesمصری اداکار محمود عبدالعزیز نے 1988 میں رفعت جمال کا کردار ادا کیاموت اور میراث
رفعت جمال 30 جنوری سنہ 1982 کو فرینکفرٹ کے جنوب میں واقع جرمن شہر ڈرمسٹڈٹ میں انتقال کر گئے۔ موت کی وجہ پھیپھڑوں کا کینسر تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ برسوں کی سگریٹ نوشی اور نفسیاتی تناؤ کی وجہ سے ہوا تھا۔
انھوں نے اکتوبر 1981 میں کیموتھراپی شروع کی لیکن ان کی حالت تیزی سے بگڑتی چلی گئی۔
مصری نقطہ نظر سے، جمال کو ایک قومی ہیرو سمجھا جاتا ہے جنھوں نے اپنے ملک کو اہم انٹیلیجنس فراہم کی اور اکتوبر 1973 کی جنگ میں مصر کی مدد کی۔
صالح مرسی کی کتاب میں جمال کے کردار کے انسانی پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، جن میں بچوں سے ان کی محبت اور جھوٹی شناخت کے ساتھ زندگی گزارنے کے نفسیاتی دباؤ شامل ہیں۔
اس کے برعکس، اسرائیلی بیانیہ جمال کو ایک موقع پرست کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے جسے موساد نے اسرائیلی مفادات کی تکمیل کے لیے بھرتی کیا تھا۔
کتاب ’آئی واز اے سپائی ان اسرائیل‘ جاسوسی ناول کی شکل میں لکھی گئی ہے اور صالح مرسی نے تاریخی حقائق اور خیالی عناصر کو ملا کر ایک دلچسپ اور دلفریب کہانی تخلیق کی ہے۔
صالح مرسی نے اس کہانی کو لکھنے کے لیے مصری انٹیلیجنس سروس کی طرف سے فراہم کردہ 70 صفحات پر مشتمل دستاویزات کا استعمال کیا ہے لیکن داستان کو مزید دلچسپ بنانے کے لیے افسانوی عناصر کا اضافہ کیا ہے۔
اس امتزاج نے کچھ لوگوں کو واقعات کی تاریخی درستگی پر سوال اٹھانے کی وجہ فراہم کی۔ خاص طور پر چونکہ کتاب ان سوالوں کا جواب نہیں دیتی ہے جیسے کہ جمال کی معلومات 1967 کی جنگ میں کیوں غیر موثر تھیں۔
کچھ قارئین اسے اس وقت مصری انٹیلیجنس کی ناقص کارکردگی کے طور پر دیکھتے ہیں، جبکہ دوسرے اسے جاسوسی کے کام کی پیچیدگیوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ثقافتی نقطہ نظر سے، کہانی نے عرب دنیا کی اجتماعی یادداشت پر گہرا اثر چھوڑا، خاص طور پر سنہ 1988 میں اسے تین حصوں پر مشتمل ٹیلی ویژن سیریز میں ڈھالنے کے بعد، جس کی ہدایت کاری یحییٰ العالمی نے کی تھی اور اس میں محمود عبدالعزیز نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
اس سیریز نے ناظرین کے درمیان بے مثال کامیابی حاصل کی اور رفعت جمال کو مصر میں حب الوطنی کی علامت بنا دیا۔ لیکن شاید بس اتنا کہا جا سکتا ہے کہ ان کی کہانی حقیقت اور فسانے کے درمیان ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔
1971 میں انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے دو جاسوس کراچی بندرگاہ تک کیسے پہنچے’اسلام قبول کر کے‘ مکہ پہنچنے والے وہ یورپی ’جاسوس‘ جنھوں نے کعبہ کی ابتدائی تصاویر لیں اور تلاوت کی ریکارڈنگ کیراجیو گاندھی کے دفتر کا وہ جاسوس جو پاکستان سمیت دیگر معاملات پر خفیہ معلومات برسوں تک فروخت کرتا رہاچار ملین ڈالر کا مکان، فراری اور ’خصوصی بطخ‘: امریکی عہدیدار جن پر چینی جاسوس ہونے کا الزام ہےعید کا دن، راولپنڈی کی فضا اور دو پائلٹس کی گرفتاری: جب پاکستانی فضائیہ نے پہلی بار انڈیا کا جاسوس طیارہ مار گرایاپانی میں بم کو ناکارہ بنانے کے ماہر وہ جاسوس جن کی پراسرار گمشدگی برسوں بعد بھی معمہ ہے