Getty Images
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں اس سال مون سون سیزن کی سب سے شدید بارش کے نتیجے میں گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کم سے کم 63 افراد ہلاک اور 290 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔
گذشتہ روز شروع ہونے والے بارشوں کا یہ سلسلہ بدھ کی رات شدت اختیار کر گیا اور جمعرات کی صبح تک چکوال، منڈی بہاؤالدین، راولپنڈی اور اسلام آباد سمیت متعدد شہروں میں برقرار رہا۔
چکوال میں صرف 10 گھنٹوں کے دوران 430 ملی میٹر تک بارش ریکارڈ کی گئی جس کے باعث وہاں موصول ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شہر کے مختلف حصوں میں پانی کھڑا ہے۔
اسی طرح راولپنڈی میں نالہ لئی میں پانی کی سطح کے حوالے سے ضلعی انتظامیہ کو کچھ دیر کے لیے ہنگامی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اور ایک موقع پر تو مساجد میں اعلانات کے ذریعے نالے کے اطراف کی آبادی کو نقل مکانی کا بھی کہہ دیا گیا تھا تاہم اس کے بعد بارش تھمنے سے صورتحال بتدریج بہتر ہونے لگی۔
سوشل میڈیا پر دریائے سواں میں پانی کے بہاؤ کی ویڈیوز بھی شیئر کی جاتی رہیں اور ایسے میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ چکوال میں ہونے والی شدید بارشوں کی وجہ ’کلاؤڈ برسٹ‘ ہے۔
ہم نے محکمہ موسمیات سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا بارشوں کا یہ سلسلہ غیر معمولی نوعیت کا تھا اور آئندہ اس حوالے سے کیا پیشگوئی ہے۔
چکوال میں کیا صورتحال رہی؟
چکوال میں ضلعی انتظامیہ کے مطابق یہاں 430 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی جس سے کم سے کم دو افراد ہلاک ہوئے اور ایک ابھی تک لاپتہ ہے۔
چکوال میں موجود صحافی نبیل انور ڈھکو کو ضلعی انتظامیہ نے بتایا کہ چکوال کے اطراف میں متعدد دیہات زیرِ آب آئے، سٹرکوں کے متعدد حصے بہہ گئے اور زرعی زمین کٹاؤ کا شکار ہو گئی جس کے بعد ڈپٹی کمشنر چکوال سارہ حیات نے چکوال میں فلڈ ایمرجنسی نافذ کر دی تھی۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق ’شدید بارش کی وجہ سے مشرقی چکوال کے متعدد دیہات زیرِ آب آئے ہیں۔ بارش کا پانی لوگوں کے گھروں میں داخل ہو گیا جس کی وجہ سے کئی گھروں کی دیواریں ٹوٹ گئیں۔‘
صحافی نبیل انور ڈھکو کے مطابق ضلع چکوال خطہ پوٹھوہار میں واقع ہے۔ البتہ دریائے سواں چکوال کے کچھ رقبے سے گزرتا ہے تاہم چکوال کے ایکو سسٹم میں اس کے برساتی نالوں کا اہم کردار ہے۔ مشرقی چکوال کے تین بڑے نالے سرولی، کلہیاں اور بھناؤ دریائے جہلم میں گرتے ہیں جبکہ شمالی اور مغربی چکوال کے چند اہم نالے، گھبیر، دھراب، سوج، بھگنائے اور کھنہالہ دریائے سواں میں گرتے ہیں۔
ان کے مطابق ’مشرقی چکوال کے نالوں کے کناروں اور ان کے قریب واقع دیہات حالیہ بارشوں سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔‘
چکوال کے اے ڈی سی جی بلال بن عبد الحفیظ کے مطابق ابھی تک ضلع چکوال میں ہونے والے حتمی نقصان کا تعین نہیں کیا جا سکا کیونکہ بارش نے سروے کا موقع ہی نہیں دیا۔
Getty Imagesبارشوں کا یہ سلسلہ بدھ کی رات شدت اختیار کر گیا اور جمعرات کی صبح تک چکوال، منڈی بہاؤالدین، راولپنڈی اور اسلام آباد سمیت متعدد شہروں میں برقرار رہا
بڈھیال گاؤں سے تعلق رکھنے والے پروفیسر سید علی رضا نے صحافی نبیل ڈھکو کو بتایا کہ انھوں نے اپنی زندگی میں اتنی بارش نہیں دیکھی۔
انھوں نے بتایا کہ ’بڈھیال گاؤں تک پہنچنے والی مرکزی سڑک پر پل ٹوٹنے کی وجہ سے گاؤں کا رابطہ بھی باقی علاقے سے کٹ گیا تھا جس کی وجہ سے ریسکیو آپریشن بروقت نہ ہو سکا۔‘
سید علی رضا کے مطابق کل شام کو تین بھینسیں بھی سیلابی ریلے میں بہہ گئیں جن کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
انھوں نے کہا کہ ’لوگوں کے گھروں میں پانچ سے چھ فٹ تک پانی جمع ہو گیا، جس کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں سے نکل کر گاؤں کی اونچی جگہ پر منتقل ہو گئے ہیں۔‘
ضلعی انتظامیہ کے ایک افسر کے مطابق خانپور سے ڈھوک ٹاہلیاں روڈ بھی ٹوٹ گئی جبکہ متعدد دیہات کی سڑکیں بھی پانی سے بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔
محکمہ سمال ڈیمز کے ایگزیکٹیو انجینیر نعیم الحسن نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’چکوال میں چودہ جبکہ تلہ گنگ میں دس چھوٹے ڈیمز ہیں جن کو ابھی تک کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں۔‘
’تمام ڈیمز اپنے ڈھانچے کے مطابق ٹھیک چل رہے ہیں۔ طویل خشک سالی کی وجہ سے چکوال اور تلہ گنگ کے ڈیمز میں پانی ڈیڈ لیول سے بھی نیچے چلا گیا تھا تاہم حالیہ بارش کی وجہ سے تمام ڈیمز اسی فیصد تک بھر چکے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’کئی چھوٹے ڈیمز جو لوگوں نے اپنی زمینوں میں خود سے بنائے ہوئے تھے وہ ٹوٹے ہیں۔‘
’چکوال میں کلاؤڈ برسٹ نہیں مون سون کی شدید بارشیں ہوئیں‘دریائے سوات کے سیلابی ریلے میں بہہ جانے والا خاندان: ’میں پاگلوں کی طرح فون ملاتا رہا لیکن بیوی بچوں سے رابطہ نہ ہوسکا‘جب سیلابی ریلے نے عطا آباد جھیل کنارے ہوٹل کا رُخ کیا: ’راستے میں موجود گاڑیاں پھنس گئیں، لوگ اندر محصور ہو گئے تھے‘پاکستان میں مون سون کی ’قبل از وقت‘ بارشوں اور سیلاب سے درجنوں ہلاکتیں، سیاحوں کو محتاط رہنے کی ہدایتسوات میں سیاحوں کے ڈوبنے کا واقعہ: ریسکیو اہلکار کتنی دیر میں پہنچے اور اب سوات میں کیا ہو رہا ہے؟
پاکستان میں محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر ظہیر بابر نے بی بی سی کے محمد صہیب کو بتایا کہ مون سون بارشوں کا موجودہ سلسلہ کل سے ختم ہو رہا ہے اور اس کے بعد سے چند روز تک بارش کا امکان نہیں تاہم 21 جولائی سے دوبارہ ایک سلسلہ پنجاب میں داخل ہو رہا ہے جس کے بعد مون سون پھر ایکٹو ہو جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ ’موجودہ سلسلہ غیر معمولی اس لیے تھا کیونکہ اس میں منڈی بہاؤالدین، چکوال اور راولپنڈی میں طویل دورانیے تک شدید بارشیں ہوئیں۔‘
خیال رہے کہ چکوال میں 400 سے زیادہ ملی میٹر بارشوں کے باعث یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا تھا کہ شاید ایسا کلاؤڈ برسٹ کی وجہ سے ہوا۔
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل بلال بن عبد الحفیظ نے صحافی نبیل انور ڈھکو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس غیر معمولی بارش کی دو ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہی یا تو کلاؤڈبرسٹ کی وجہ سے چکوال میں اتنی زیادہ بارش ہوئی یا اب تک بارش برسانے والی ہواؤں کا سنگم جو اب تک کلر کہار کے قریب سمجھا جاتا تھا وہ چکوال شہر کی طرف منتقل ہوا تاہم اس پر حتمی رائے محکمہ موسمیات کے سائنسدان ہی دے سکتے ہیں۔‘
اس پر محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر ظہیر بابر نے کہا کہ ’یہ بارشیں اس سال مون سون سیزن کی سب سے شدید بارشیں ضرور تھیں تاہم چکوال میں ایسا ’کلاؤڈ برسٹ‘ کی وجہ سے نہیں ہوا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’مون سون کی بارشوں کا خاصا یہی ہے کہ ان کے دوران کم دورانیے میں بہت زیادہ بارش ہو جاتی ہے اور عموماً لوگ اسے کلاؤڈ برسٹ کا نام دیتے ہیں لیکن یہاں ایسا نہیں تھا۔ چکوال اور منڈی بہاؤالدین ان بارشوں کا مرکز ضرور تھا لیکن یہ کلاؤڈ برسٹ نہیں۔‘
’لوگوں سے نقل مکانی کا کہا تو اکثر افراد نے انکار کیا‘
آج صبح سے ہی سوشل میڈیا پر نالہ لئی میں پانی کی سطح کی صورتحال کے حوالے سے ویڈیوز شیئر کی جاتی رہیں اور اس ایک اہلکار کی جانب سے خودکار آلے سے سائرن بجانے کی ویڈیو بھی منظرِ عام پر آئی۔
ایسے میں کچھ افراد کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ کیونکہ نالہ لئی میں نصب پیشگی وارننگ سسٹم کی بیٹریاں چوری کر لی گئی تھیں اس لیے اہلکاروں کو اس طرح سائرن بجانے پڑ رہے ہیں۔
تاہم ضلعی انتظامیہ کے اہلکار نے بی بی سی کے شہزاد ملک کو بتایا ہے کہ گذشتہ برس نالہ لئی سے جو پیشگی وراننگ سسٹم کی بیٹریاں چوری ہوئی تھیں انھیں تبدیل کر دیا گیا تھا جس کے بعد سے یہ نظام مکمل طور پر فعال ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس نظام کا سائرن سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ یہ ہمیں سیلابی صورتحال سے پہلے خبردار کر دیتا ہے۔
ضلعی انتظامیہ کے اہلکار نے بتایا کہ عام حالات میں بھی پہلے سائرن بجائے جاتے ہیں اور پھر جب پانی ایک سطح سے زیادہ بلند ہو جائے تو مساجد میں اعلانات کیے جاتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم نے گوالمنڈی میں پانی 20 فٹ سے بلند ہونے پر مساجد میں اعلان کروائے اور لوگوں سے نقل مکانی کا کہا تو اکثر افراد نے انکار کیا اور کہا کہ وہ یہاں 40 سال سے قیام پذیر ہیں اس لیے یہ جگہ نہیں چھوڑ سکتے۔‘
انھوں نے بتایا کہ بارش تھمنے کے بعد اب صورتحال کنٹرول میں ہے۔
سوات میں سیاحوں کے ڈوبنے کا واقعہ: ریسکیو اہلکار کتنی دیر میں پہنچے اور اب سوات میں کیا ہو رہا ہے؟پاکستان میں مون سون کی ’قبل از وقت‘ بارشوں اور سیلاب سے درجنوں ہلاکتیں، سیاحوں کو محتاط رہنے کی ہدایتجب سیلابی ریلے نے عطا آباد جھیل کنارے ہوٹل کا رُخ کیا: ’راستے میں موجود گاڑیاں پھنس گئیں، لوگ اندر محصور ہو گئے تھے‘دریائے سوات کے سیلابی ریلے میں بہہ جانے والا خاندان: ’میں پاگلوں کی طرح فون ملاتا رہا لیکن بیوی بچوں سے رابطہ نہ ہوسکا‘مقامی لوگوں نے مدد کے لیے رسیاں پھینکیں ’لیکن وہ خوفزدہ تھے‘سوات میں دریا کنارے غیر قانونی تعمیرات کیسے خطرہ بنیں؟