صوبہ خیبر پختونخوا میں بارشوں کا سلسلہ تھمنے کے بعد مون سون کی بارشوں نے اب پنجاب، خاص طور پر وسطی علاقوں اور جڑواں شہروں راولپنڈی و اسلام آباد میں شدت اختیار کر لی ہے۔بدھ سے جاری موسلادھار بارشوں کے نتیجے میں نہ صرف معمولات زندگی متاثر ہوئے ہیں بلکہ ندی نالوں میں طغیانی اور اربن فلڈنگ کے باعث متعدد علاقوں میں شدید نقصان ہوا ہے۔این ڈی ایم اے کے اعدادوشمار کے مطابق حالیہ بارشوں سے اب تک مجموعی طور پر 170 سے 180 کے درمیان ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ان میں چھتیں گرنے، کرنٹ لگنے اور سیلابی پانی میں بہہ جانے کے واقعات شامل ہیں۔
تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس بار ہونے والی بارشیں غیرمعمولی تھیں اور حکومت نے کسی قسم کے پیشگی انتظامات کیے تھے؟ یا اس تباہی کی اصل وجوہات کچھ اور ہیں؟
ان سوالات کے جواب جاننے کے لیے اردو نیوز نے سب سے پہلے محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر فارکاسٹنگ عرفان ورک سے رابطہ کیا، جنہوں نے بتایا کہ ’حالیہ بارشیں غیرمتوقع نہیں تھیں بلکہ محکمہ موسمیات نے اس حوالے سے پیشگی الرٹ جاری کر رکھا تھا۔‘ان کے مطابق ’اس الرٹ میں واضح کیا گیا تھا کہ شدید بارشیں ہو سکتی ہیں اور شہری و ضلعی انتظامیہ کو مطلع بھی کیا گیا تھا۔‘جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا اس بار کی بارشیں گذشتہ برس کی نسبت زیادہ ہیں، تو عرفان ورک کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بالخصوص راولپنڈی اور اسلام آباد جیسے علاقوں میں ماضی میں بھی ایسی شدید بارشیں ہو چکی ہیں، بلکہ بعض مواقع پر اس سے زیادہ بارشیں بھی ریکارڈ کی گئی ہیں۔محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر فارکاسٹنگ عرفان ورک کا مزید کہنا تھا کہ ’مون سون کے دوران ٹورنشل رینز اور رین شاورز معمول کا حصہ ہوتے ہیں، اس لیے حالیہ بارشوں کو مکمل طور پر غیرمعمولی قرار دینا درست نہیں ہو گا۔‘بارشوں کے موجودہ سلسلے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ مون سون کا موجودہ سلسلہ جمعرات کی رات تک جاری رہ سکتا ہے، تاہم جمعے سے اس میں بتدریج کمی واقع ہو گی اور آئندہ دو سے تین دنوں میں بارشوں کا یہ سپیل خاصا کمزور پڑ جائے گا۔کیا حالیہ بارشیں موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہیں؟ماحولیاتی بہتری کے لیے کام کرنے والی ماہرِ موسمیات نورین حیدر کے مطابق ’حالیہ بارشوں کو فوری طور پر موسمیاتی تبدیلی کا شاخسانہ قرار دینا درست نہیں ہو گا۔‘اردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی سے مراد وہ حالات ہوتے ہیں جب کسی علاقے میں ایسا غیرمعمولی موسمی رجحان سامنے آئے جو ماضی میں وہاں دیکھنے میں نہ آیا ہو۔’تاہم پاکستان میں مون سون بارشیں ہمیشہ سے ایک معمول رہی ہیں اور اس سال بھی ان بارشوں کی شدت اور انداز کچھ ایسا مختلف نہیں جسے غیرمعمولی کہا جا سکے۔‘نورین حیدر کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان میں جب کسی برس درجہ حرارت غیرمعمولی طور پر بڑھ جاتا ہے تو اُس سال بارشیں بھی نسبتاً زیادہ ہوتی ہیں۔‘این ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق حالیہ بارشوں سے اب تک مجموعی طور پر 170 سے 180 کے درمیان ہلاکتیں ہوئی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)اس کی سائنسی وضاحت دیتے ہوئے نورین حیدر کا کہنا تھا کہ جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو زمین میں موجود نمی بخارات بن کر فضا میں چلی جاتی ہے اور اس سے شدید بارشوں کا امکان پیدا ہوتا ہے۔ لیکن ایسی صورت میں بارش کا پانی زمین میں جذب ہونے کے بجائے بہہ جاتا ہے، جس کے نتیجے میں سیلاب اور اربن فلڈنگ جیسی صورت حال جنم لیتی ہے۔ انہوں نے 2022 کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ اُس سال بلوچستان میں شدید گرمی کے باعث وہاں سے بہنے والا پانی پنجاب تک پہنچا اور بڑے پیمانے پر تباہی کا سبب بنا۔انہوں نے کہا کہ اربن فلڈنگ کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ زمین میں بارش کا پانی جذب کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے ذخیرے یا تالاب بنائے جائیں، تاکہ نہ صرف زمین کی زرخیزی میں اضافہ ہو بلکہ بارش کا پانی محفوظ بھی ہو سکے۔ اس طرح کے اقدامات سے بارش کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ماہرِ موسمیات نے یہ بھی واضح کیا کہ حالیہ بارشیں اپنی نوعیت کے لحاظ سے غیرمعمولی نہیں تھیں، بلکہ یہ پاکستان کے عمومی مون سون سسٹم کا ہی حصہ ہیں۔ اس طرح کی بارشیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں اور آئندہ بھی ہوتی رہیں گی، اس لیے انہیں براہِ راست موسمیاتی تبدیلی قرار دینا مناسب نہیں۔اربن فلڈنگ اور سیلاب کی اصل وجوہات کیا ہیں؟نورین حیدر کے مطابق اربن فلڈنگ اور سیلاب کی ایک بڑی وجہ انسانی تجاوزات ہیں۔’جب ہم دریاؤں اور نالوں کے قدرتی راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں، تو پانی کا بہاؤ رُک جاتا ہے اور وہ قریبی آبادیوں کی طرف رُخ کر لیتا ہے، جس سے تباہی پھیلتی ہے۔ حالیہ برسوں میں نالہ لئی پر دو نئے پل تعمیر کیے گئے ہیں، جن سے پانی کے بہاؤ کا راستہ محدود ہو گیا ہے۔ جب شدید بارش ہوتی ہے تو یہی تنگ راستہ پانی کو نالے میں سمیٹنے کے بجائے اطراف کے علاقوں میں پھیلا دیتا ہے۔‘نورین حیدر کے مطابق جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو زمین میں موجود نمی بخارات بن کر فضا میں چلی جاتی ہے اور اس سے شدید بارشوں کا امکان پیدا ہوتا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)ان کا کہنا تھا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں موجود قدرتی نالے اور چھوٹے دریا سال کے بیشتر حصے میں خشک دکھائی دیتے ہیں، جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ان کے آس پاس تعمیرات کی جا سکتی ہیں۔ مگر جب بارش ہوتی ہے اور وہ نالے فعال ہو جاتے ہیں، تو ان کا قدرتی راستہ مسدود ہونے کے باعث پانی رہائشی علاقوں میں داخل ہو جاتا ہے اور نقصان کا باعث بنتا ہے۔نورین حیدر نے تجویز دی کہ اگر حکومتی سطح پر قدرتی آبی گزرگاہوں کو تحفظ دیا جائے، غی قانونی تعمیرات روکی جائیں، اور پانی کی قدرتی نکاسی کو بحال رکھا جائے تو سیلاب اور اربن فلڈنگ جیسے خطرات کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔’اگر پانی کو بہنے کے لیے اس کا قدرتی راستہ دے دیا جائے تو چاہے بارش موجودہ شرح سے دو گنا یا 10 گنا زیادہ بھی ہو، وہ نقصان دہ ثابت نہیں ہو گی۔ ایسی صورت میں پانی تباہی مچائے بغیر اپنے راستے سے بہتا ہوا آخرکار سمندر تک جا پہنچے گا۔‘انہوں نے اربن فلڈنگ کی ایک اور اہم وجہ نالوں کی صفائی میں کوتاہی کو قرار دیا۔ اگرچہ اکثر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ صفائی مکمل کر لی گئی ہے، لیکن زمینی حقائق مختلف ہوتے ہیں۔انہوں نے راولپنڈی کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے خود مختلف نالوں کی ویڈیوز دیکھی ہیں جہاں صفائی نہ ہونے کی وجہ سے پانی کی روانی متاثر ہو رہی ہے۔ ان کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں پلاسٹک اور کچرے کو روکنے کے لیے نالوں اور دریاؤں پر لوہے کی جالیاں نصب کی جاتی ہیں تاکہ یہ اشیا پانی میں رکاوٹ نہ بنیں اور نہ ہی آبی حیات کو نقصان پہنچائیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ نظام یا تو موجود ہی نہیں یا اس پر عمل درآمد انتہائی ناقص ہے۔فارکاسٹنگ عرفان ورک نے کہا کہ حالیہ بارشیں غیرمتوقع نہیں تھیں بلکہ محکمہ موسمیات نے اس حوالے سے پیشگی الرٹ جاری کر رکھا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا زیادہ ڈیمز بنا کر سیلابی صورت حال سے بچا جا سکتا ہے، تو نورین حیدر نے کہا کہ دریا کا پانی آخرکار سمندر تک جانا ہوتا ہے۔ بلاشبہ ڈیمز ایک حد تک پانی کو ذخیرہ کرنے اور وقتی رکاوٹ پیدا کرنے کا کام کرتے ہیں، لیکن جب پانی کا بہاؤ بہت زیادہ ہو، تو ڈیم کے سپل ویز کھولنے پڑتے ہیں اور پانی بہرحال آگے نکل جاتا ہے۔’تربیلا اور منگلا ڈیمز جب بھر جاتے ہیں، تو ان سے پانی خارج کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ لہٰذا پانی کا قدرتی راستہ بند نہیں کیا جا سکتا، اور اگر دریا کا پانی سمندر تک نہ پہنچے تو سمندر کا پانی مزید کھارا ہو جاتا ہے، جس سے زمین کا کٹاؤ اور دیگر ماحولیاتی مسائل جنم لیتے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ زیادہ ڈیمز کی تعمیر اب ممکن بھی نہیں رہی، اور اس کا ایک مؤثر متبادل ’واٹر ہارویسٹنگ‘ ہے۔ یعنی چھوٹے چھوٹے تالاب یا ذخائر بنا کر بارش کے پانی کو زمین میں جذب ہونے کا موقع دیا جائے۔ اس سے نہ صرف زمینی پانی کی سطح بہتر ہو گی بلکہ خشک سالی اور سیلاب دونوں کے خطرات کم کیے جا سکتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر پانی زمین کے اندر جذب ہو تو وہ ماحول کو نمی فراہم کرتا ہے اور زرعی و ماحولیاتی لحاظ سے بھی انتہائی سودمند ہوتا ہے۔جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا انڈیا میں ہونے والی بارشوں کے باعث پاکستانی دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے، تو نورین حیدر کا کہنا تھا کہ انڈیا میں ہونے والی بارشیں اور گلیشیئرز کا پگھلنا ہمارے دریاؤں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بڑے دریا، خصوصاً سندھ اور جہلم، کشمیر کے علاقوں سے آتے ہیں جہاں درجنوں گلیشیئر موجود ہیں۔ جب ان گلیشیئرز کے پگھلنے کا عمل تیز ہو جاتا ہے، تو دریاؤں میں پانی کا بہاؤ بھی غیرمعمولی حد تک بڑھ جاتا ہے۔