"میں نے ایک ڈرامے میں عثمان پیرزادہ کی دوسری بیوی کا کردار ادا کیا تھا، لیکن میرے لیے یہ کیفیت عجیب تھی کیونکہ وہ میرے والد کے بہت قریبی دوست ہیں۔ مجھے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ انہیں انکل کہہ کر پکاروں یا کردار کے مطابق بیوی کا روپ نبھاؤں۔"
اداکارہ تارا محمود نے احمد علی بٹ کے پوڈکاسٹ میں گفتگو کے دوران اپنے فنی سفر، ذاتی تجربات اور شوبز کے کڑوے سچ بے جھجک بیان کیے۔ انہوں نے بتایا کہ کیریئر کے آغاز میں مواقع کم ملتے تھے، اس لیے کبھی کبھار سال بھر میں صرف ایک یا دو ڈرامے ہی میسر آتے۔ اس زمانے میں اگر کسی پروجیکٹ کی ادائیگی میں تاخیر ہوجاتی تو زندگی مشکل ہوجاتی کیونکہ وہ کراچی میں تنہا مقیم تھیں اور اخراجات برداشت کرنا بڑا امتحان تھا۔
تارا محمود کا کہنا تھا کہ سب سے کڑوا لمحہ وہ ہوتا تھا جب اپنی ہی محنت کی کمائی کے لیے بار بار یاد دہانی کرانی پڑتی۔ لیکن وقت کے ساتھ حالات بدلے اور اب وہ بیک وقت کئی منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔ اس لیے اگر ایک آدھ پروجیکٹ کی فیس لیٹ بھی ہو جائے تو زیادہ دباؤ محسوس نہیں ہوتا۔
انہوں نے شوبز انڈسٹری کے ایک اور پہلو پر کھل کر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہاں معاون اداکاروں کو اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی کامیاب ڈرامے یا فلم کی ریڑھ کی ہڈی یہی کردار ہوتے ہیں۔ ان کے بغیر کہانی ادھوری رہتی ہے مگر انہیں وہ مقام نہیں ملتا جس کے وہ حقدار ہیں۔
ذاتی زندگی سے متعلق بات کرتے ہوئے تارا محمود نے بتایا کہ پانچ برس پہلے شادی کے بارے میں کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن اب وہ سمجھتی ہیں کہ اگر کوئی اچھا اور موزوں ساتھی مل گیا تو وہ ضرور شادی کرنا چاہیں گی۔
تارا محمود کی یہ گفتگو نہ صرف ان کے فنی سفر کی مشکلات کو اجاگر کرتی ہے بلکہ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ انڈسٹری کے پردے کے پیچھے معاون کردار کس قدر جدوجہد کرتے ہیں، اور ایک فنکار ذاتی و پیشہ ورانہ زندگی کے درمیان کس طرح توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔