عالمی مارکیٹ کے بعد پاکستان میں بھی قیمتی دھاتوں کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔ سونا پہلے ہی تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو چکا ہے جبکہ اب چاندی کی قیمتوں نے بھی تیزی سے نئی حد عبور کر لی ہے۔ماہرین اس رجحان کو عالمی منڈی میں غیریقینی حالات روپے کی گرتی ہوئی قدر، صنعتی طلب اور مقامی سرمایہ کاری کے رجحان کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔
چیئرمین آل پاکستان جیولرز مینوفیکچررز ایسوسی ایشن محمد ارشد کے مطابق اکتوبر 2025 کے دوسرے ہفتے سے 24 قیراط سونے کی فی تولہ قیمت چار لاکھ روپے سے زائد ریکارڈ کی جا رہی ہے جبکہ عالمی سطح پر بھی سونا مضبوط پوزیشن میں ہے جہاں فی اونس سونے کی قیمت چار ہزار امریکی ڈالر سے زائد تک جا پہنچی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’دوسری جانب چاندی کی قیمتوں میں غیرمعمولی تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ملک بھر میں چاندی کی فی تولہ قیمت پانچ ہزار روپے سے زیادہ ریکارڈ کی جا رہی ہے جو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔ گذشتہ چار ماہ میں چاندی کی قیمت میں 40 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔‘
روپے کی کمزور قدر، ایک بڑا محرکماہرین کا کہنا ہے کہ سونے اور چاندی کی قیمتوں میں اضافے کا سب سے بڑا سبب روپے کی گرتی ہوئی قدر ہے۔پاکستانی روپے کی قیمت جب بھی امریکی ڈالر کے مقابلے میں کمزور ہوتی ہے تو عالمی منڈی سے درآمد کی جانے والی اشیا خصوصاً قیمتی دھاتیں مہنگی ہو جاتی ہیں۔کراچی کے مالیاتی تجزیہ کار اور سینیئر صحافی وکیل الرحمٰن نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سونے اور چاندی کی قیمتوں کا انحصار عالمی مارکیٹ پر ہے، اور یہ چوںکہ ڈالر میں طے ہوتی ہیں، اس لیے روپے کی قدر میں کمی براہِ راست ان کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ڈالر کی قدر میں معمولی اضافہ بھی سونے کی فی تولہ قیمت میں ہزاروں روپے کا فرق ڈال دیتا ہے۔عالمی سطح پر سونا اور چاندی ایک مرتبہ پھر سرمایہ کاری کے محفوظ ترین ذرائع بن چکے ہیں۔افراطِ زر میں اضافہ، بینکوں کی شرح سود میں غیریقینی اور جغرافیائی کشیدگی نے سرمایہ کاروں کو دوبارہ قیمتی دھاتوں کی طرف مائل کر دیا ہے۔عالمی سطح پر سونا اور چاندی ایک مرتبہ پھر سرمایہ کاری کے محفوظ ترین ذرائع بن چکے ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)شادیوں کا موسم اور مقامی طلبپاکستان میں قیمتی دھاتوں کی خرید و فروخت صرف سرمایہ کاری تک محدود نہیں بلکہ معاشرتی اور ثقافتی طور پر بھی اہم ہے۔ شادیوں کے موسم میں زیورات کی خریداری بڑھنے سے مارکیٹ میں طلب میں اضافہ ہوتا ہے۔کراچی کے صرافہ بازاروں کے مطابق سونے کی قیمت میں مسلسل اضافے کی وجہ سے اب خریداری کا رجحان بہت کم دیکھا جا رہا ہے۔دوسری جانب چاندی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے حوالے سے ایک نیا رجحان بھی سامنے آیا ہے۔ چاندی صرف زیورات کے لیے نہیں بلکہ صنعتی مقاصد جیسے سولر پینلز، میڈیکل آلات، بیٹریوں اور الیکٹرانک پرزہ جات میں بھی وسیع پیمانے پر استعمال ہوتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ چاندی کی قیمت میں اضافہ صرف مالیاتی رجحان نہیں بلکہ صنعتی ضرورت کا نتیجہ ہے۔ جیسے جیسے دنیا قابلِ تجدید توانائی کی طرف جا رہی ہے، چاندی کی عالمی طلب بڑھ رہی ہے۔ اس کے اثرات پاکستان جیسے درآمدی ملک پر براہِ راست پڑتے ہیں۔عام صارفین اور چھوٹے سرمایہ کار متاثرقیمتوں کے اس مسلسل اضافے نے عوام اور چھوٹے سرمایہ کاروں کے لیے مشکلات بڑھا دی ہیں۔کراچی کے رہائشی محمد شاہد کہتے ہیں کہ چاندی پہلے عام آدمی کی بچت ہوا کرتی تھی۔ اب یہ بھی اتنی مہنگی ہو گئی ہے کہ ہاتھ سے نکل رہی ہے۔ چھوٹے سرمایہ کار کے پاس اب محفوظ سرمایہ کاری کے زیادہ مواقع نہیں رہے۔چاندی صرف زیورات کے لیے نہیں بلکہ صنعتی مقاصد جیسے سولر پینلز اور الیکٹرانک پرزہ جات میں بھی وسیع پیمانے پر استعمال ہوتی ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)زیورات ساز صنعت بھی خام مال کی مہنگائی کے دباؤ میں ہے۔ کراچی جیولرز ایسوسی ایشن کے مطابق کام میں واضح کمی واقع ہوئی ہے، کیونکہ خام مال کی قیمت بڑھنے سے پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے جبکہ صارفین بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے کم خریداری کر رہے ہیں۔پاکستان میں سونے اور چاندی کی قیمتوں کا بڑھنا بظاہر سرمایہ کاروں کے لیے خوش آئند نظر آتا ہے، مگر مجموعی طور پر یہ معیشت کے لیے ایک نئی آزمائش ہے۔ یہ اضافہ نہ صرف عام صارفین کے بجٹ پر بوجھ ڈال رہا ہے بلکہ زیورات کی صنعت، درآمدی توازن اور مالیاتی پالیسی کے لیے بھی چیلنج بن چکا ہے۔ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر روپے کو استحکام اور مالیاتی نظم نہ ملا تو یہ رجحان آنے والے مہینوں میں مزید بڑھ سکتا ہے۔ پاکستان کی مارکیٹ میں سونا اور چاندی فی الحال دونوں اپنی تاریخی چمک برقرار رکھے ہوئے ہیں، مگر ان کی یہ چمک معیشت کے گہرے زخموں کی عکاسی بھی کر رہی ہے۔