Getty Images
20 دسمبر 1971 کو جب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں اقتدار سنبھالا تو مزدوروں کو لگا کہ اب اُن کے دن بدلنے والے ہیں کیوںکہ مبصرین کے مطابق بھٹو کی جماعت پیپلز پارٹی مزدوروں، طلبہ اور بائیں بازو کی حمایت سے اقتدار میں آئی تھی۔
نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن سے منسلک ناصر منصور کے ایک مضمون کے مطابق صنعتی ترقی (خاص طور پر کراچی کے علاقوں میں) کے نتیجے میں مزدوروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا مگر اکثریت کم اُجرتوں، کام کی جگہ پر خراب حالات، تنخواہوں میں تاخیر، برطرفیوں اور یونینز کی کمی کا شکار تھی۔
ان کے مطابق ’صنعتی علاقوں کے ساتھ آباد مزدور بستیاں پانی، بجلی، رہائش، ٹرانسپورٹ اور دیگر بنیادی سہولتوں سے محروم تھیں۔‘
محقق زینت حِسام اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ ایوب خان کے دورِ اقتدار میں ٹریڈ یونین ایکٹ 1926 کی منسوخی سے مزدور یونینز غیر فعال ہو گئی تھیں، بڑی تعداد میں مزدور فارغ کر دیے گئے تھے اور بہت سے مزدور رہنماؤں کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔
’پھر ایوب خان کے زوال میں مزدوروں نے فعال کردار ادا کیا۔ لیکن اُن کے جانشین جنرل یحییٰ خان نے ایک ایسا قانون بنایا جس میں سخت شرائط پوری کرنے پر ہی یونین رجسٹر ہو سکتی تھیں۔‘
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے چیئرپرسن اسد اقبال بٹ کے مطابق سنہ 1970 کے عام انتخابات میں مغربی پاکستان میں بھٹو نے ’روٹی، کپڑا اور مکان‘ کا نعرہ دے کر کامیابی حاصل کی تو مزدور بہتر مستقبل کے وعدوں سے پُرجوش تھے۔
مزدور تحریک اور اشرافیہ خوفزدہ: ’مِل مالکان کو اپنے ہی دفاتر میں قید کیا جاتا تھا‘
انسانی اور سیاسی حقوق کے کارکن اور صحافی حسین نقی دعویٰ کرتے ہیں کہ ’بھٹو صاحب نے وعدے تو بہت کر لیے تھے لیکن غالباً ان کا ارادہ (انھیں پورا کرنے کا) نہیں تھا۔‘
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایک طرف تو انھوں نے کہا کہ وڈیرے اس میں شامل نہیں ہوں گے، لیکن یہ میری معلومات کا حصہ ہے کہ دوسری طرف انھی سے کہا کہ میں جیت رہا ہوں، تم شامل ہو جاؤ۔ پھر انھوں نے مشرقی پاکستان کی اکثریتی پارٹی کے رہنما شیخ مجیب الرحمٰن کو حکومت دینے میں رکاوٹ ڈالی۔‘
کراچی سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اسد اقبال بٹ کا کہنا تھا کہ بھٹو نے بہت سے کارخانوں، فیکٹریوں اور بینکوں کو قومی ملکیت میں لینے کا اعلان کر کے مزدورں کی توقعات کو مزید بڑھاوا دیا۔
انھوں نے بتایا کہ ’1967 میں طالب علمی کے دَور سے میں چین نواز کمیونسٹ پارٹی سے منسلک تھا جو قومی مزدور محاذ کے نام سے کام کرتی تھی۔ اس کے جنرل سیکریٹری طفیل عباس نے پیپلز پارٹی کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ گو کہ الیکشن سے چند ماہ پہلے انھوں نے یہ کہہ کر پیپلز پارٹی سے اچانک کنارہ کشی کر لی تھی کہ وہ اس طرح کی پارلیمانی سیاست کی بجائے مزدور انقلاب پر یقین رکھتے ہیں۔‘
پیپلز پارٹی کی حکومت 20 دسمبر 1971 کو قائم ہوئی تو مزدوروں کے مطالبات میں شدت آ گئی۔
یونیورسٹی آف ٹیکساس، آسٹن سے منسلک کامران اصدر علی کی تحقیق کے مطابق ’ایک مزدور دوست حکومت کی توقع میں، 1972 کے ابتدائی مہینوں میں کراچی کے دو بڑے صنعتی علاقوں میں وقفے وقفے سے ہڑتالیں، تالا بندیاں اور فیکٹریوں کا گھیراؤ کرتے ہوئے، انھوں نے اپنے مطالبات کی تحریک تیز کر دی۔‘
اصدرعلی کا یہ مطالعہ ’دی سٹرینتھ آف دی سٹریٹ میٹس دی سٹرینتھ آف دی سٹیٹ: دی 1972لیبرسٹرگل ان کراچی‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔
اسد اقبال بٹ یاد کرتے ہیں کہ طفیل عباس نے ’2 فروری 1972 کوہمارے ذریعے پیپلز پارٹی سینٹرل سیکریٹریٹ پر قبضہ کروایا۔ اس پر مجھ سمیت 14 لوگوں کو وطن دشمن انتہا پسند کیمونسٹ قرار دے کر پارٹی سے نکال دیا گیا۔‘
زینت حِسام کے مطابق اس مزدور تحریک میں مختلف پیشوں، قومیتوں اور نظریات سے تعلق رکھنے والی مزدور یونینیں اور فیڈریشنز، سرکاری اور نجی دونوں شعبوں سے، متحد ہو گئیں۔
اسد اقبال بٹ بتاتے ہیں کہ مزدوروں نے ملوں پر قبضے شروع کر دیے جس سے ایک انارکی کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ ’مل مالکان کو مارنا پیٹنا اور انھیں ان کے دفاتر میں قید کرنا ایک معمول بن گیا۔‘
Getty Imagesانسانی اور سیاسی حقوق کے کارکن اور صحافی حسین نقی کے مطابق ’بھٹو نے مشرقی پاکستان کی اکثریتی پارٹی کے رہنما شیخ مجیب الرحمٰن کو حکومت دینے میں رکاوٹ ڈالی‘
نویدہ خان کی تدوین کی گئی کتاب ’بیانڈ کرائسز: ری ایویلیوٹینگ پاکستان‘ میں لکھا ہے کہ ’مزدوروں نے اُن (45000) ساتھیوں کی بحالی کا مطالبہ کیا جنھیں مارشل لا کے زمانے میں برطرف کیا گیا تھا۔ اُن فیکٹریوں کو دوبارہ کھولنے کا کہا جنھیں انتظامیہ نے بغیر اطلاع یا معاوضے کے بند کر دیا تھا اور بونس، مزدوروں کے شراکتی فنڈز اور بعض صورتوں میں واجب الادا تنخواہوں کا مطالبہ کیا۔‘
’مختلف فیکٹریوں کے مزدور، حتیٰ کہ بعض اوقات حریف یونینوں کے کارکن بھی، وہاں جا کر احتجاج کرتے جہاں تنازع ہوتا تاکہ اُن کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا جا سکے۔‘
’اس اتحاد کی ایک نمایاں مثال 28 مارچ 1972 کی اچانک ہڑتال تھی جب دو لاکھ مزدوروں نے کام چھوڑ دیا جس کے نتیجے میں پورا سائٹ صنعتی علاقہ بند ہو گیا۔‘
انھوں نے مزید لکھا: ’یہ ہڑتال زیب تن ٹیکسٹائل مل کے مالکان کی جانب سے مسلسل لاک آؤٹ کے خلاف تھی جنھوں نے فیکٹری بند کر کے دو ہزار مزدوروں کو فارغ کر دیا تھا۔‘
’انتظامیہ اور مزدور یونین کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ 24 مارچ کو پیداوار دوبارہ شروع ہو گی لیکن 28 مارچ کی صبح تک فیکٹری بند رہی۔ اس پر زیب تن کے مزدور دیگر فیکٹریوں میں گئے اور وہاں بھی کام بند کروا دیا۔ یوں پورے علاقے میں ہڑتال پھیل گئی۔‘
اسد اقبال بٹ کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ مزدوروں کو موقع ملا تھا کہ وہ شکاگو کے ’مزدور شہیدوں‘ کی یاد منائیں۔
’وہ لاکھوں کی تعداد میں یکم مئی کو فیکٹریوں سے بغیر کسی ریاستی خوف کے سڑکوں پر نکلے اور ایم اے جناح روڈ پر مرکزی جلوس میں شامل ہو کر یکم مئی کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا۔‘
’ہر گلی اور سڑک پر مزدور سرخ جھنڈے اٹھائے سرمایہ داری نظام کے خلاف فلک شگاف نعرے لگاتے پھر رہے تھے، جس نے اشرافیہ کو خوف زدہ کر دیا۔‘
بھٹو کی لیبر پالیسی اور مزدوروں کو تنبیہ
10 فروری 1972 کو صدر بھٹو نے نئی لیبرپالیسی میں مزدوروں کے لیے بڑھاپے کی پنشن، طبی سہولتیں، رہائش، مزدور بچوں کی مفت تعلیم اور گروپ انشورنس جیسی مراعات اور انجمن سازی، اجتماعی سودے بازی، منافع میں شراکت جیسے حقوق کا اعلان کیا۔
منصور کے مطابق مزدوروں نے محسوس کیا کہ وعدے عملی شکل میں جلد پورے نہیں ہو رہے۔ توقعات بلند تھیں، سو مایوسیوں نے مزدور طبقے کو گھیر لیا۔
بھٹو نے لیبر پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے مزدوروں کو خبردار بھی کیا تھا کہ ’اپنی گھیراؤ، جلاؤ کی سیاست چھوڑ دیں ورنہ سٹریٹ کی طاقت کا مقابلہ ریاست کی طاقت سے کیا جائے گا۔‘
تاہم حِسام لکھتی ہیں کہ مزدوروں، ریاست اور مالکان کے مابین ٹکراؤ جاری رہا اور بالآخر ایک المناک انجام پر ختم ہوا۔
Getty Imagesہڑتال کے نتیجے میں پاکستان میں ملیں بند ہونے لگیں، یہاں کراچی کی ایک ٹیکسٹائل مل (یہ تصویر 1956 میں لی گئی تھی) کو دیکھ سکتے ہیں
لال خان اپنی تحقیق ’پاکستانز ادر سٹوری‘ میں بتاتے ہیں کہ کراچی میں 6 جون 1972 کو سائٹ ٹاؤن کی فیروز سلطان ملز میں مزدوروں نے اجرتوں اور ورکرز پارٹسپیٹری فنڈ میں اپنے حصے کے لیے احتجاج شروع کیا۔ 7 جون کوپولیس فائرنگ کے نتیجے میں تین مزدور مارے گئے۔ اصدر علی کے مطابق پولیس نے کہا کہ ان پر فائرنگ کی گئی تھی جس کے جواب میں انھوں نے فائر کھول دیا۔
مارے جانے والے مزدوروں میں متحدہ مزدور فیڈریشن کے نمایاں رہنما محمد شعیب خان بھی شامل تھے۔
اگلے روز شعیب خان کے جنازے کے موقع پر جلوس جلد ہی بڑے عوامی احتجاج میں تبدیل ہو گیا۔ پولیس نے دوبارہ فائرنگ کی، جس سے 10 مزید مزدور ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔
اصدر علی کے مطابق ایک انگریزی روزنامے نے اپنے اداریے میں اس واقعے کی مذمت کی اور لکھا کہ پولیس کی فائرنگ نہ صرف طویل بلکہ اندھا دھند تھی کیونکہ کئی افراد اس مقام سے کافی دُور مارے گئے یا زخمی ہوئے جہاں مزدوروں اور پولیس میں جھڑپ ہوئی تھی۔
’اس واقعے کا اثر پورے ملک میں محسوس کیا گیا۔ حیدرآباد، سندھ کے دیگر صنعتی مراکز میں مزدوروں نے ہڑتالیں کیں، جبکہ پنجاب میں ٹریڈ یونین رہنماؤں نے احتجاجی جلوس نکالے اور اپنے دفاتر پر سیاہ پرچم لہرا کر کراچی کے مزدوروں سے اظہارِ یکجہتی کیا۔‘
ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا کیوں سنائی گئی اور اس فیصلے کو ’عدالتی قتل‘ کیوں قرار دیا جاتا ہے؟وہ دباؤ جس کے بعد بھٹو بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئےعمران کے ساتھ جو ہو رہا ہے کیا یہ وہی بھٹو والا سکرپٹ ہے؟پاکستان کے غدار محبِ وطن
حسین نقی بتاتے ہیں کہ معراج محمد خان سٹیٹ منسٹر فار پبلک افیئرز تھے۔ وہ کراچی کے تھے اور بہت مقبول تھے، طالب علموں میں بھی مزدوروں میں بھی۔ ’چونکہ یہ پیپلزپارٹی کی حکومت تھی جس میں کافی مزدور مارے گئے تھے تو انھوں نے سوچا کہ انھیں وہاں جانا چاہیے۔‘
اقبال جعفری بی بی سی سے منسلک تھے۔ حیسن نقی کے مطابق ’چونکہ ہم سب ساٹھ کی دہائی کی طلبہ تحریک میں بھی شامل تھے اور جمہوری تحریک میں بھی، اس لیے معراج محمد خان نے اقبال جعفری سے کہا کہ انھیں وہاں جانا ہے۔‘
’وہ رات کی فلائٹ سے آئے اور مزدوروں کی بستی میں جا کر تعزیت کی۔ لیکن پیپلز پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچ چکا تھا، ایک دورے سے کیا فرق پڑتا۔‘
’نبی احمد، عثمان بلوچ، واحد بشیر، اور چاچا علی جان احمد آباد سے آئے تھے۔ یہ لوگ ٹیکسٹائل کے بڑے اہم لیڈر تھے۔‘
گذشتہ سال وفات پانے والے کرامت علی، جو پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائلر) کے ساتھ منسلک رہے، اپنی کتاب ’راہ گزر تو دیکھو‘ میں لکھتے ہیں کہ جب مزدور رہنما اگلے اقدامات کی حکمتِ عملی طے کرنے میں مصروف تھے، عام مزدوروں نے خود ہی زمامِ کار سنبھال لی۔
وہ لکھتے ہیں کہ سائٹ، لانڈھی، کورنگی اور کوٹری حیدرآباد کے تمام صنعتی علاقے مزدوروں کی خود رو ہڑتال سے مکمل طور پر بند ہو گئے تھے۔
Getty Imagesمزدوروں نے بڑے پیمانے پر کام بند کر دیے
اصدر علی کے مطابق اس بڑے پیمانے پر ہڑتال کے نتیجے میں 900 سے زائد صنعتی یونٹس بند ہوگئے اور کراچی کے صنعتی علاقے مفلوج ہو گئے۔ ہڑتال 18 جون کو حکومتکے ایک تحقیقاتی ٹربیونل قائم کرنے پر ختم ہوئی۔ تاہم سخت کارروائیاں پھر بھی جاری رہیں اور تقریباً 1200 مزدور گرفتار کیے گئے۔
مزدوروں کی بدامنی لانڈھی ٹاؤن تک پھیل گئی، جہاں ہڑتالی مزدوروں نے کارخانوں پر قبضہ کر لیا اور کام پر واپس آنے سے انکار کر دیا۔
18 اکتوبر کو احتجاج ختم کرنے کے لیے فیکٹری کی دیواریں گرا دی گئیں، جس کے نتیجے میں کئی مزدور ہلاک ہوئے۔
اگلے روز انگریزی روزنامے ’ڈان‘ کی خبر کے مطابق، لانڈھی میں گل احمد ٹیکسٹائل مل کے مزدوروں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی فائرنگ سے چار افراد، جن میں ایک 12 سالہ بچہ بھی شامل تھا، مارے گئے۔ مزدوروں نے ہلاکتوں کی تعداد اس سے زیادہ بتائی۔ خبر کے مطابق، تصادم میں 50 سے زائد افراد زخمی ہوئے جن میں 13 پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔
’حکومت نے داؤد کاٹن ملز اور گل احمد ملز کے 150 مزدوروں کی گرفتاری کا اعلان کیا، جبکہ لانڈھی کورنگی لیبر آرگنائزنگ کمیٹی نے تمام صنعتی یونٹوں میں 32 گھنٹے کی علامتی ہڑتال کا اعلان کیا۔ مزدور گذشتہ چار دن سے ملوں کے اندر موجود تھے اور وہ تین مطالبات پر قائم تھے: اجرت کی ادائیگی، گرفتار ساتھیوں کی رہائی اور مقدمات کے خاتمے کا اعلان۔ پولیس کے داخل ہونے کی کوشش پر مظاہرین نے مزاحمت کی، جس کے نتیجے میں فائرنگ ہوئی اور جانی نقصان ہوا۔‘
بٹ بتاتے ہیں کہ ’اس وقت کی سب سے طاقتور مزدور لیڈر کنیز فاطمہ تھیں۔ طفیل عباس، ڈاکٹر شمیم زین الدین، منظور رضی، میجر اسحاق بھی اہم مزدور رہنما تھے۔
مزدور رہنما اور 1999 میں ریلوے ورکرز یونین کے مرکزی صدر بننے والے منظور رضی نے بی بی سی کو بتایا کہ اس سے پہلے ہی مزدورتحریک منظم تھی۔
’مرزا ابراہیم نے ملک کی پہلی یونین، ریلوے ورکرز یونین کی بنیاد رکھی اور پہلی ملک گیر مزدوروں کی فیڈریشن، پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن بنائی۔ مرزا ابراہیم اس کے بانی صدر تھے۔ سینیئر نائب صدر شاعر فیض احمد فیض تھے، جنرل سیکریٹری عبدالمالک بنے جو بعد میں مشرقی پاکستان کے گورنر مقرر ہوئے۔ سی آر اسلم، عابد حسن منٹو اور ایرک سپرین بھی اس کا حصہ تھے۔‘
’بھٹو صاحب نے مزدوروں کو کافی مراعات دیں۔ لیبر کورٹ بنائی، این آئی آرسی بنائی، سوشل سیکیورٹی دی اور یہ بھی کہا کہ جہاں بھی گیارہ ملازمین کام کرتے ہوں، یونین بن سکتی ہے۔ تو ہم لوگوں نے یونین بھی بنائی، ہڑتالیں بھی کیں، مظاہرے بھی کیے۔‘
’ملوں اور کارخانوں پر مزدوروں کا قبضہ ہو گیا۔ مزدوروں نے عزیز الحسن اور ریاض احمد کی قیادت میں داؤد مل پر قبضہ کر لیا۔ مزدور مل چلاتے تھے، سیٹھ باہر ہوتا تھا۔ اسی طرح ولیکا میں بھی ہوا۔‘
’سائٹ ایریا میں عثمان بلوچ، ایس پی لودھی، ایوب، زین الدین لودھی متحرک تھے۔ پاکستان شپ یارڈ میں محترمہ کنیز فاطمہ کی یونین تھی اور وہ ایوب خان کے دور میں بھی اور بھٹو صاحب کے دور میں بھی تھی۔ انھیں کراچی بدر کیا گیا، پہلے ٹھٹھہ، پھر حیدرآباد اور پھر لاہور بھیجا گیا۔‘
Getty Images1977 میں ہونے والے ایک تصادم کا منظرمزدور تحریک کیوں دم توڑ گئی؟
ٹریڈ یونین رہنما کرامت علی نے بعد میں وضاحت کی کہ یہ مظاہرے اس لیے پھوٹے کیونکہ مزدور، بھٹو کی انتخابی مہم کے وعدوں سے متاثر ہو کر، فروری 1972 کی مزدور پالیسی سے کہیں زیادہ جامع اصلاحات کی توقع کر رہے تھے۔ جب پالیسی ان توقعات پر پوری نہ اتری تو مزدور بڑی تعداد میں متحرک ہوئے، جس کے جواب میں بھٹو حکومت نے طاقت کا سہارا لیا۔
آئندہ برسوں میں بھٹو حکومت نے ملک بھر میں مزدور تحریکوں پر کریک ڈاؤن جاری رکھا۔
باوَر خان، طفیل عباس اور معراج محمد خان جیسے نمایاں مزدور رہنماؤں کو قید، تشدد اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اکتوبر 1974 میں بھٹو نے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ٹریڈ یونینز پر مزید پابندیاں عائد کیں، جسے صنعت کار طبقے نے مزدور سرگرمیوں پر قابو پانے کے مؤثر اقدام کے طور پر سراہا۔
منصور کے مطابق لیبر پالیسی جزوی طور پر نافذ ہوئی۔ اگرچہ ہڑتال کے دوران مزدور اتحاد مضبوط تھا، لیکن طویل مدت تک برقرار نہ رہ سکا۔ مختلف فیڈریشنز اور صنعتی علاقوں میں لسانی، علاقائی اور تنظیمی تقسیم مزدور اتحاد کی راہ میں ایک مستقل رکاوٹ بن گئی۔
اپنی کتاب میں کرامت علی بیان کرتے ہیں کہ کس طرح مل مالکان اور محکمہ محنت نے مزدوروں کی سرگرمیوں کو دبانے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا۔ مزدور رہنماؤں کی تصاویر تقسیم کی گئیں تاکہ خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا جا سکے۔ یہ جبر ایسے وقت میں ہوا جب معیشت سخت مشکلات سے گزر رہی تھی۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’ٹیکسٹائل کے بحران نے اُن شعبوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا جہاں مزدور تحریکیں مضبوط تھیں۔ اس کے فوراً بعد تیل کا بحران آیا، جس کے نتیجے میں کئی صنعتیں بند ہو گئیں۔‘
’جب مقامی صنعتیں مفلوج ہو گئیں تو سرگرم مزدور رہنما، خصوصاً سوات کے علاقے سے تعلق رکھنے والے، اپنے آبائی علاقوں کو لوٹنے یا روزگار کی تلاش میں خلیجی ممالک کا رخ کرنے پر مجبور ہوئے۔ یہ ہجرت، جو 1975 کے اوائل تک جاری رہی، کراچی کی مزدور قوت کو بُری طرح کمزور کر گئی اور تحریک اپنے بنیادی اور فعال حصے سے محروم ہو گئی۔‘
بٹ کا کہنا تھا کہ ’یوں لگتا تھا جیسے مزدور اب ان کی منشا کے خلاف اپنی اپنی ملوں یا فیکٹریوں کو اپنے مرضی سے چلانا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے مزدوروں میں اندرونی طور پر آہستہ آہستہ تقسیم شروع ہو گئی جو بعد میں مزدور تحریک کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی جسے آج تک ہم بھگت رہے ہیں۔‘
دانشور عامر ریاض کے مطابق ’جنوری میں صنعتوں، بینکوں، انشورنس کمپنیوں کو قومیانے کے آرڈیننس کو سرمایہ داروں، جن کی اکژیت کراچی ہی میں تھی، نے اپنے لیے چیلنج سمجھا۔ نیشنلائزیشن کے بعد سرمایہ داروں نے لیبر انریسٹ (بے اطمینانی) میں کافیسرمایہ لگایا۔ نیشنلائزیشن کا تو جنوری میں اعلان ہوا تھا اور یہ موومنٹ جون میں شروع ہوئی۔‘
’لیبر اس تحریک سے پیچھے ہی گئی، آگے نہیں گئی۔ سب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے۔ اگر ملک میں جمہوری حکومت مستحکم نہیں ہے تو پھر لیبر کو بھی کچھ نہیں ملے گا، آپ جو مرضی کر لیں۔‘
لال خان کے مطابق سنہ 1975 تک مزدور تحریکوں کی رفتار مدھم پڑ گئی کیونکہ یونینز مختلف قانونی مقدمات میں الجھ گئیں۔
سنہ 1977میں جنرل محمد ضیا الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا، جس کے ساتھ ہی مزدور حقوق کے لیے ایک اور تاریک دور شروع ہوا، ٹریڈ یونینوں پر دباؤ اور سختیاں مزید بڑھا دی گئیں۔
زینت حسام کہتی ہیں کہ ’سبق تو بے شمار ہیں، مگر تاریخ سے کون سبق لیتا ہے؟‘
ان کے مطابق آج تک مزدور اور آجر جیسے غیر مساوی فریقوں کے درمیان تعاون کے لیے موثر سہ فریقی نظام یا بامعنی سماجی مکالمے کے کوئی شواہد نہیں ملتے۔
عمران کے ساتھ جو ہو رہا ہے کیا یہ وہی بھٹو والا سکرپٹ ہے؟جمی کارٹر کا پاکستان کے جوہری پروگرام پر دباؤ اور ’مرجھائے تعلقات‘ سے اولین دوست بننے تک کا سفر’پانی یا خون‘: سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر بلاول بھٹو سمیت پاکستانی سیاستدانوں کی انڈیا کو وارننگ اور مودی کے وزرا کا ردعملجب ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ امریکہ وہ ہاتھی ہے جو نہ بھولتا ہے، نہ چھوڑتا ہےبھٹو کی ’بلامقابلہ منتخب ہونے کی خواہش‘، انتخابات میں دھاندلی کے الزامات اور وہ ’غلطیاں‘ جو فوجی بغاوت کا باعث بنیںذوالفقار علی بھٹو: ’مجھے داڑھی کاٹنے دیں، میں مولوی کی طرح اس دنیا سے نہیں جانا چاہتا‘