Getty Images
کیا زچگی اور ماں بننا کسی خاتون کے پیشہ ورانہ سفر میں رکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو شاید بہت سی نوجوان خواتین کے ذہنوں میں رہتا ہے۔ ان کے لیے یہ ایک مشکل فیصلہ ہو سکتا ہے کہ کیا انھیں اس بارے میں فوری طور پر دفتر کو آگاہ کر دینا چاہیے یا نہیں۔
مگر اب پاکستان میں خواتین کو ورک پلیس ہراسمنٹ سے تحفظ دینے کے لیے ایک فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 'ماں بننا کسی عورت کے کیریئر کے لیے رکاوٹ نہیں ہونا چاہیے۔ زچگی کے دوران نوکری کا تحفظ خواتین کا بنیادی حق ہے اور محفوظ زچگی ہر عورت کا بنیادی حق ہے۔'
یہ بات سال 2024 کی ہے جب درخواست گزار زینب زہرہ اعوان ماں بننے کے بعد میٹرنٹی لیو (زچگی کی رخصت) پر تھیں۔ زینب کے مطابق نجی کمپنی نے 20 جولائی 2022 کو انھیں ایچ آر مینیجر کے عہدے پر تعینات کیا۔ بعد ازاں 2024 میں انھوں نے زچگی کی چھٹی کے لیے درخواست دی جو باقاعدہ طور پر 8 مارچ 2024 کو 14 مارچ سے 14 جون 2024 تک کے لیے منظور کر لی گئی۔ مگر ان کے بقول دورانِ رخصت انھیں 24 اپریل 2024 کو برطرفی کا نوٹس موصول ہو گیا۔
یعنی زینب کو زچگی کی چھٹی کے دوران ملازمت سے برخاست کیا گیا جس پر انھوں نے وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی سے رجوع کیا۔
اس کیس کے فیصلے میں وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی فوزیہ وقار نے نہ صرف نجی کمپنی پر 10 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا بلکہ متاثرہ خاتون کو ملازمت پر بحال کرنے کا بھی حکم دیا۔ فیصلے کے مطابق جرمانے کی رقم میں سے آٹھ لاکھ روپے خاتون کو ادا کیا جائے گا جبکہ دو لاکھ قومی خزانے میں جمع کروا یا جائے گا۔
زینب جیسی کئی نوکری پیشہ خواتین موجود ہیں جنھیں زچگی اور ماں بننے کے بعد امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بی بی سی نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ پیشہ ورانہ سفر کے دوران خواتین کو خصوصاً زچگی اور ماں بننے کے دوران کن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
’روزانہ اپنی بہن سے پوچھتی ہوں کہ دفتر میں بتاؤں یا نہیں‘
33 سالہ عالیہ ایک نجی میڈیا چینل میں پانچ سال سے کام کر رہی تھیں۔ شادی کے بعد جب وہ حاملہ ہوئیں تو 'تین ماہ تک تو میں نے کسی سے ذکر نہیں کیا۔ پھر اچانک میری طبیعت کچھ خراب ہونے لگی جس کی وجہ سے مجھے سستی اور کمزوری بھی محسوس ہوتی تھی۔'
'میرے اردگرد لوگوں نے پوچھنا شروع کر دیا کہ کیا مسئلہ ہے؟ میں نے بتا دیا کہ میں امید سے ہوں، اس لیے آج طبیعت ٹھیک نہیں۔'
وہ بتاتی ہیں کہ کچھ روز بعد 'میرے مینیجر نے پوچھا ہ کیسی طبیعت ہے؟ مجھے اچھا لگا کہ یہ میرا احساس کر رہے ہیں۔ لیکن اگلے ہی لمحے مجھے کہا گیا کہ عالیہ کیا آپ کام کر پائیں گی؟'
عالیہ کے مطابق ان کے کام میں کوئی کمی نہیں آئی تھی مگر یہ سوال ان سے بار بار پوچھا جانے لگا تھا کہ 'آپ کا فلاناں اسائنمنٹ لگا دیں آپ کر لیں گی؟ اس سوال نے میری خود اعتمادی کو نقصان پہنچایا۔ مجھے لگنے لگا کہ شاید میں کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہی یا پھر اگر کوئی کام کروں گی تو وہ مجھ سے ٹھیک نہیں ہوگا۔'
تنقید کے بعد افغان طالبان کی انڈیا میں دوبارہ پریس کانفرنس اور خواتین صحافیوں کی شرکت، امیر متقی کو سخت سوالوں کا سامناکم عمری کے سفید بالوں کا علاج غذا سے ممکن ہے؟1500 سے 5000 لیٹر تک: خسارے میں چلنے والے پٹرول پمپ کو خواتین نے منافع بخش کیسے بنایا؟ سکول کے خلاف ہرجانے کی قانونی جنگ جیتنے والی طالبہ: ’اس درخت نے میرا ہاتھ اور سہیلی کی جان لے لی‘
ان کے بچے کی پیدائش سے دو ماہ قبل انھیں ایچ آر میں بلا کر کہا تھا کہ انھیں نوکری سے برخاست کیا جا رہا ہے۔ 'جب میں نے پوچھا کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا میرے کام میں کوئی کمی آئی ہے؟'
مگر انھیں یہ جواب دیا گیا کہ 'ہم اپنا سٹاف کم کر رہے ہیں۔'
عالیہ کہتی ہیں کہ ان کے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ مینیجر نے 'اس لیے نکالا کیونکہ دو تین مہینے بعد چھٹی دینی پڑے گی۔'
'بوس نے خود ایک کولیگ سے کہا کہ پیچھے ہمارے پاس کوئی بندہ ہوگا۔'
انھیں یہ جان کر مزید افسوس ہوا کہ ان کی جگہ کسی اور کو بھرتی کر لیا گیا تھا۔
کئی خواتین کے لیے یہ ایک مشکل فیصلہ ہوتا ہے کہ کیا انھیں اپنے دفتر میں فوراً بتا دینا چاہیے کہ وہ حاملہ ہیں یا پھر اس بات کو اپنے تک رکھنا چاہیے کیونکہ اس سے ان کی ملازمت متاثر ہو سکتی ہے۔
رابعہ ایک نجی پرائیوٹ کمپنی میں کام کرتی ہیں۔ وہ بی بی سی کو بتاتی ہیں کہ 'حال ہی میں مجھے ایک اور کمپنی سے بہت اچھی آفر آئی۔ میں نے اس نوکری کے لیے گذشتہ چھ ماہ تیاری کر کے کئی انٹریو دیے تھے جس کے بعد میری سیلیکشن ہوئی۔'
لیکن رابعہ چار ماہ سے حاملہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ 'مجھے اب یہ سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ میں نئی کمپنی کو یہ بات بتاؤں یا نہیں۔'
وہ کہتی ہیں کہ 'مجھے خوف ہے کہ اگر میں نے انھیں بتا دیا تو وہ مجھے نوکری پر نہیں رکھیں گے کیونکہ جوائن کرنے کے چند ماہ بعد ہی انھیں مجھے زچگی کی لیے چھٹی دینی پڑے گی۔'
رابعہ کے بقول ان کے اندر 'یہ خوف بیٹھ گیا ہے کہ بچے کی پیدائش میرے کیریئر میں ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔'
'میں روزانہ اپنی بہن سے پوچھتی ہوں کہ میں کیا کروں، کیا انھیں بتاؤں یا نہیں؟ وہ مجھے حوصلہ دیتی ہے کہ یہ چھٹی تمھارا بنیادی حق ہے اور تم ایسا کیوں سوچتی ہو۔'
انھوں نے اپنے اردگرد ایسی کئی خواتین کو دیکھا ہے کہ جنھوں نے ماں بننے کے بعد دفاتر میں اضافی مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ 'بے شک ہمارے ملک میں قوانین موجود ہیں لیکن یہاں مسئلہ قانون سے زیادہ ہے۔ ہمارا مسئلہ معاشرتی رویے بھی ہیں۔ بیشتر کمپنیاں یہ جانتی ہیں کہ انھوں نے اپنے آپ کو ایسے کیسز میں قانون کی گرفت میں آنے سے کیسے بچانا ہے۔'
کیا ورکنگ خواتین کو زچگی سے متعلق قانونی تحفظ حاصل ہے؟
زینب کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے خواتین کے امور کی ماہر وکیل سیدہ کشمالہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا 'یہ فیصلہ کافی خوش آئند ہے کیونکہ اس کیس میں صنفی امتیاز کے بارے میں بات کی گئی ہے۔'
انھوں نے میٹرنٹی لا کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ہمارے اس قانون میں کچھ مسائل ہیں جیسے ضنفی امتیازی سلوک اور زچگی کا معاملہ ایک ساتھ دیکھا جا سکتا ہے یا کیا اس مسئلے کو قانونی طور پر کیسے دیکھا جائے۔ اس فیصلے کے بعد ایک چیز اچھی ہوگی کہ ہمارے پاس ایک مثال موجود ہو گی کہ اگر کوئی آپ کو کوئی بہانا بنا کر نوکری سے نکالے تو آپ اسے چیلنج کر سکیں گے۔'
پاکستان میں میٹرنٹی کے حوالے سے قوانین موجود ہیں جیسے میٹرنٹی آرڈیننس 1958 کے مطابق کوئی بھی خاتون جو زچگی کے لیے چھٹی پر ہوگی، اسے برخاست کرنے کا نوٹس نہیں دیا جائے گا۔ یعنی حاملہ خواتین کو یہ اجازت ہے کہ وہ مخصوص مدت کے لیے اپنے کام سے غیر حاضر رہ سکتی ہے۔
اسی طرح میٹرنٹی ایکٹ 2023 کے مطابق ہر نوکری کرنے والی عورت کو پہلے بچے کی پیدائش کے وقت 180 دن کی چھٹی دی جائے گی جبکہ دوسرے بچے کی پیدائش پر 120 دن جبکہ تیسرے بچے کی پیدائیش پر 90 دنوں کی چھٹی ملے گی۔
ایکٹ کے مطابق یہ چھٹی کسی بھی نوکری پیشہ عورت کا بنیادی قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے والوں کو چھ ماہ قید، جرمانہ یا پھر دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
قانونی معاملات کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور ٹیکنکل معاملات پر بات کرتے ہوئے پروگرام ڈائیریکٹر رابعہ رزاق کا کہنا تھا کہ 'ہمارے ہاں ایچ آر کا نظام بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہے اور ہم مواقع اور روزگار تک رسائی کی خلاف ورزیاں ہوتے دیکھتے ہیں۔'
انھوں نے مزید کہا کہ خواتین لیبر فورس کی شرکت 2024-2025 میں 21 سے بڑھ کر 24 فیصد ہو گئی ہے جو یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ زیادہ خواتین رسمی ملازمت اختیار کر رہی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ان میں سے زیادہ لوگ اجرت پر کام کر رہے ہیں۔
کم عمری کے سفید بالوں کا علاج غذا سے ممکن ہے؟’پیچھے مڑ کر کچھ بدلنا نہیں چاہوں گی‘: ملالہ یوسفزئی کی بی بی سی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں غزہ، تعلیم اور ذاتی زندگی پر گفتگوتنقید کے بعد افغان طالبان کی انڈیا میں دوبارہ پریس کانفرنس اور خواتین صحافیوں کی شرکت، امیر متقی کو سخت سوالوں کا سامنا’ایگزیما‘ سے بالی وڈ سٹار بھومی پڈنیکر بھی پریشان، جِلد کی وہ حالت جس میں خشکی اور خارش پیدا ہوتی ہے1500 سے 5000 لیٹر تک: خسارے میں چلنے والے پٹرول پمپ کو خواتین نے منافع بخش کیسے بنایا؟