Nina Kutina
انڈیا کے سیاحتی قصبے میں گوکرنا کے جنگلات کے قریب سہنرے بالوں والی ایک بچی کو ننگے پاؤں گھومتے ہوئے دیکھا گیا۔
اس قصبے کی آبادی محض 25 ہزار افردا پر مشتمل ہے لیکن یہ علاقہ مذہبی لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہاں کچھ مقدس مقامات ہیں۔
مقامی پولیس جب علاقے کی چھان بین کر رہی تھی تو انھیں کچھ غیر معمولی دکھائی دیا۔
40 سالہ روسی خاتون نینا کوٹینا عرف موہی اپنی دو کم عمر بچیوں کے ساتھ غار میں رہائش پذیر تھیں۔
بی بی سی نے روسی خانون نینا کوٹینا کا انٹرویو کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ’ہم پہلے کبھی غار میں نہیں رہے۔‘
لیکن سوال یہ ہے کہ پھر وہ یہاں کیسے پہنچیں؟
انھوں نے بتایا کہ وہ اور اُن کی بیٹیاں اس غار میں نو ماہ تک رہیں اور اس دوران اُن کا بیٹا اُن کی دوست آرمبول کے پاس تھا جو اس غار سے چند گھٹنوں کی مسافت پر رہتی تھیں اور وہاں اُن کا بیٹا ایک سرکاری سکول بھی جاتا تھا۔
یہ غار گھنے جنگلوں میں تھی لیکن کوٹینا کے بقول یہ گوکرنا کے اتنی قریب تھی کہ وہاں جا کر پھل خریدے جا سکتے تھے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ گوشت نہیں کھاتی تھیں اور اُنکی بیٹیاں بھی پیدائش کے بعد سے ہی سبزی خور ہیں۔ انھوں نےکہا کہ اس طرح کی زندگی کی بدولت وہ کبھی بھی بیمار نہیں ہوئیں۔
کوٹینا نے بتایا کہ ’یہاں بہت سے لوگ زیارت کے لیے آتے ہیں اور یہ بہت دلچسپ جگہ ہے۔ ہم یہاں گھومنے آئے تھے۔ ہمیں قدرتی ماحول اچھا لگتا ہے اور ہم دنیا کے مختلف مقامات پر جنگلوں میں رہے ہیں۔ غار میں رہنا ایک نیا تجربہ ہے۔‘
مسز کوٹینا نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ چاہتی تھیں کہ اپنے بڑے بیٹے کی ٹریفک حادثے میں ہلاکت کے بعد غار میں رہ کر اُن کا غم منائیں۔ اُن کے بڑے بیٹے 2024 میں انڈیا کے سیاحتی مقام گوا میں ٹریفک حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ اس وقت وہ ’شدید غم‘ میں مبتلا تھیں۔
کوٹینا نے غار میں لکڑی کے تختوں سے بستر بنایا،کچھ میٹس غار کے فرش پر بچھا دیے اور آرائشی اشیا سے غار کو سجا دیا۔
انھیں تلاش کرنے والے پولیس اہلکاروں کے مطابق جب وہ غار میں پہنچے تو یہ خاندان آرام کے ساتھ وہاں رہ رہا تھا لیکن پولیس اہلکاروں نے انھیں سمجھایا کہ یہ جگہ اُن کے لیے محفوظ نہیں کیونکہ یہاں جنگلی جانوروں اور سانپوں کا خطرہ ہے جبکہ بارشوں کے موسم میں لینڈ سلائیڈنگ بھی ہوتی ہے۔
گھنے جنگل میں واقع قدرتی غار سے 40 سالہ روسی خاتون اور دو بچیاں بازیاب: ’خاتون نے بتایا کہ بھگوان نے مراقبے کے لیے انھیں یہاں بھیجا‘انڈیا کے جنگل میں ’40 دن تک بھوکی پیاسی‘ بندھیامریکی خاتون: شوہر نے نہیں بلکہ خاتون نے اپنے آپ کو خود باندھ کر رکھا، پولیسدس لاکھ ایکڑ کے جنگلات کی نگرانی کرنے والی ’کولوراڈو کی محافظ‘’جنگل کی ماں‘ کہلائے جانے والے باؤباب درخت ہزاروں سال تک کیسے زندہ رہے؟
کوٹینا نے اپنے ٹیلی گرام چینل پر لکھا کہ ’کسی سانپ نے اُن پر حملہ نہیں کیا نہ ہی کسی جانور سے انھیں خطرہ ہوا۔ ہمیں صرف انسانوں سے خطرہ تھا۔‘
پولیس کا کہنا ہے کہ مسز کوٹینا کی امیگریشن دستاویزات کی معیاد مدت ختم ہو گئی تھی اور اس لیے اس خاندان کو ایک امیگریشن سینٹر میں رکھا گیا۔
کوٹینا نے بی بی سی کو بتایا کہ اپنے بیٹے کی موت کے بعد اُن میں یہ ہمت نہیں تھی کہ وہ دستاویزات وغیرہ پر غور کرتیں۔
رواں سال ستمبر میں یہ خاندان واپس روس آ گیا۔
Nina Kutinaنینا کوٹینا نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے کئی سال قدرت کے قریب پرامن اور پرسکون گزارے
کوٹینا نے بتایا کہ وہ روس کے شہر لینن گارڈ میں پیدا ہوئیں جسے اب سینٹ پیٹرزبرگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انھوں نے سربیا میں آٹھ سال تک تعلیم حاصل کی اور پھر وہ پورے روس میں گھومی پھریں۔ جس کے بعد وہ یوکرین، تھائی لینڈ، ملائیشیا، انڈونیشیا، سری لنکا، کوسٹا ریکا، نیپال گئیں اور پھر انڈیا پہنچیں۔
اُن کی بنیادی تعلیم تو ایجوکیشن میں تھی لیکن ماسکو میں انھوں نے گھروں کی آرائش کے ڈیزائنر کے طور پر کام کیا۔ پندرہ سال قبل کوٹینا نے اپنے بڑے بیٹے دمیتری کو ساتھ لیا اور روس چھوڑ دیا۔
مسز کوٹینا نے بتایا کہ ’میں ماسکو میں بنے گھروں میں نہیں رہنا چاہتی تھی، میں سمندر کے کنارے رہنا چاہتی تھی تاکہ میرے بچے ریت پر چل سکیں، دنیا دیکھ سکیں تاکہ اُن کی زندگی دلچسپ اور صحت مند ہو۔‘
بیرون ملک میں انھوں نے ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کو جنم دیا۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کے بچے بغیر کسی طبی مدد کے گھر میں پیدا پیدا ہوئے۔
کوٹینا نے بتایا کہ ’میں چوبیس گھنٹے اپنے بچوں کے ساتھ گزارتی ہوں۔ میری ڈگری ایجوکیشن میں ہے اور میں ایک موسیقار ہوں۔‘
انھوں نے کہا کہ کئی سال تک انھوں نے کھلے آسمان کے نیچے پرامن زندگی گزاری۔
اپنے ٹیلی گرام چینل پر وہ سویٹر بننے کا کورس آفر کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ انڈیا میں حراستی مرکز میں بھی وہ ڈرائنگ اور مجسمہ سازی سکھاتی تھیں۔
انڈیا میں اُن کے دوست ویسلی کونڈراشیو انھیں کئی لحاظ سے ’لیجنڈری‘قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ گوان کے جنگلوں میں اپنے بچوں کے ساتھ دس سال تک رہیں۔
ویسلی کونڈراشیو نے شمالی گوان کے جنگلوں میں اُن کی گزر بسر کو دیکھا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’دو بڑے درختوں کی جڑوں کے درمیان کوٹینا نے دو کمرے بنائے تھے جن پر کپڑا لگا ہوا تھا۔ ایک رہنے کا کمرہ تھا جبکہ دوسرا بیڈ روم۔‘
انھوں نے بتایا کہ درخت کے نیچے ایک بہتی ندی سے تالاب بنتا تھا۔ جس کے گرد مٹی سے سیٹیں بنائی گئی تھیں، آگ جلانے کی جگہ تھی اور بچوں کے کھلونے تھے۔
میں نے اُن سے پوچھا کہ کیا انھیں سانپوں سے ڈر نہیں لگتا؟ جس پر انھوں نے کہا کہ ’دو سانپ اُن کے قریب رہتے تھے اور ہم ایک دوسرے کو بہت بہتر انداز میں جانتے تھے۔‘
Nina Kutinaپولیس کا کہنا ہے کہ غار میں کوٹینا کا خاندان آرام دہ زندگی گزار رہا تھا
کوٹینا نے بتایا کہ انھوں نے حکام سے کہا کہ انھیں ضمانت پر رہا کر دیں اور ایک مکان کرائے پر لینے کی اجازت دیں مگر اُن کے بقول حکام کا اصرار تھا کہ وہ اور اُن کی بیٹیاں بنگلور میں حراستی مرکز میں رہیں گی اور اُن کا بیٹا قریبی آشرم میں رہے گا جو اُن کے لیے پریشان کن تھا۔
انھوں نے بتایا کہ ان سینٹرز کی حالت غار سے زیادہ خراب تھیں۔
مسز کوٹینا نے بتایا کہ سینٹر کا عملہ خوراک چوری کرتا اور اُن کا سامان بھی چرایا گیا جبکہ اُن کے بیٹے کی آستھیاں (باقیات) جو غار میں موجود تھیں، انھیں کبھی واپس نہیں کی گئیں۔
بظاہر پولیس نے ہمیں جنگلی جانوروں سے بچایا لیکن حقیقت میں اس سینٹر میں رکھ کر ہمیں اُن بڑے کاکروچ (لال بیگ) کے سامنے چھوڑ دیا جو رات بھر گھومتے رہتے ہیں۔
’یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے میرے بچوں کو سردی اور بھوک سے بچایا لیکن میں غار میں اُن کے لیے مزیدار کھانا بناتی تھی اور یہاں سینٹر میں وہ بھوکے رہتے اور اُن میں وٹامن ڈی کی کمی ہو گئی۔‘
بی بی سی نے کوٹینا کے ان الزامات پر انڈیا میں حکام سے اُن کا موقف جاننے کی کوشش کی۔
کرناٹک حکومت کے ایک اہلکار نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ’روسی خاتون کے الزامات کو سنجیدگی سے نوٹ کیا گیا اور ہم نے علاقے کے ڈپٹی اور اسسٹنٹ کمشنر کو ان الزامات کی تحقیقات کر کے رپورٹ تیار کرنے کا حکم دیا۔اگر یہ الزامات درست ثابت ہوئے تو پھر فوری کارروائی کی جائے گی۔‘
ایک دوسرے افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’ابتدائی انکوائری میں یہ ثابت ہوا کہ سامان چوری کا الزام غلط ہے۔‘
Nina Kutinaنینا کوٹینا کا کہنا ہے کہ غار میں وہ اپنے بچوں کی بہتر دیکھ بھال کر رہی تھیں
انڈین حکام نے بی بی سی کو بتایا کہ کوٹینا نے مدد کے لیے روس کے سفارت خانے سے رابطہ کیا لیکن اُن کی روانگی میں تاخیر ہوئی کیونکہ گوا میں رہنے والے اسرائیلی بزنس مین گولڈسٹین نے کوٹینا کی بیٹی اما اور پریرنا کی حوالگی کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔
اُن کا دعویٰ تھا کہ وہ ان بچیوں کے والد ہیں اور انھیں روس نہ بھیجا جائے۔
گولڈسٹین نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’حالیہ برسوں میں وہ بچیوں سے رابطے میں نہیں رہ سکے۔ جب میں نے انھیں تلاش کر لیا تب بھی فاصلہ زیادہ تھا۔ انھوں نے کہا کہ پیدائش سے پہلے ہی میں نے انھیں چھوڑ دیا تھا لیکن میں اُن سے ہمیشہ محبت کرتا رہا۔‘
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ عدالت کے ذریعے بچیوں کی مشترکہ کفالت چاہتے تھے لیکن عدالت کو ڈی این اے کے شواہد درکار تھے اور لڑکیوں کے اپنی والدہ کے ساتھ چلے جانے کی وجہ سے ڈی این اے نہیں ہو سکا تھا۔‘
کوٹینا نے بی بی سی سے گفتگو میں گولڈسٹین کے بارے میں بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اُن کا کسی بھی ایسے شخص سے کوئی تعلق نہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ماسکو میں اپنے رشتے داروں کے ساتھ رہتی ہیں اور اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کے بجائے وہ انھیں خود گھر میں پڑھاتی ہیں۔
کوٹینا نے کہا کہ انھیں اپنے بچوں کے ساتھ جنگل میں چہل قدمی کرنا اچھا لگتا ہے لیکن مستقبل پر اُن کی نظر ہے۔ نئی دستاویزات کے بعد وہ اور ان کے بچے نئے مہمات اور نئی جگہ کا سفر دوبارہ شروع کریں گے۔
گھنے جنگل میں واقع قدرتی غار سے 40 سالہ روسی خاتون اور دو بچیاں بازیاب: ’خاتون نے بتایا کہ بھگوان نے مراقبے کے لیے انھیں یہاں بھیجا‘انڈیا کے جنگل میں ’40 دن تک بھوکی پیاسی‘ بندھیامریکی خاتون: شوہر نے نہیں بلکہ خاتون نے اپنے آپ کو خود باندھ کر رکھا، پولیسدنیا سے منقطع رہنے والا پیرو کا جنگلی قبیلہ جنگل سے باہر کیوں نکلا؟ایمازون جنگل میں کیڑے مکوڑے کھا کر زندہ رہنے والا لاپتہ شخص 31 دن بعد مل گیا’جنگل کی ماں‘ کہلائے جانے والے باؤباب درخت ہزاروں سال تک کیسے زندہ رہے؟