BBC
گذشتہ دو مہینوں سے امریکی فوج بحیرہ کریبین میں بحری جنگی جہاز، لڑاکا طیارے، مرینز، ڈرونز اور جاسوس طیاروں کی ایک بڑی کھیپ جمع کر رہی ہے۔ یہ بحیرہ کریبین میں دہائیوں میں ہونے والی سب سے بڑی تعیناتیاں ہیں۔
امریکی بمبار طیارے بی 52 وینزویلا کے ساحل پر ’بمبار حملوں کے مظاہرے‘ کر چکے ہیں۔ تناؤ بڑھنے کے سبب امریکی صدر ٹرمپ نے وینزویلا میں سینٹر انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) کی تعیناتی کی منظوری بھی دے دی ہے۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے وینزویلا سے آنے والی چھوٹی کشتیوں پر حملوں میں درجنوں افراد کو ہلاک کیا ہے۔ بغیر کوئی ثبوت پیش کیے اور کشتیوں میں سوار افراد کی شناخت کے بارے میں تفصیلات مہیا کیے بنا امریکہ کا کہنا ہے کہ ان کشتیوں میں نہ صرف ’منشیات‘ بلکہ ان میں ’منشیات فروش دہشتگرد‘ بھی سوار تھے۔
ان امریکی حملوں پر نہ صرف خطے میں تنقید کی گئی بلکہ ماہرین ان کارروائیوں کی قانونی حیثیت پر بھی سوالات اُٹھا رہے ہیں۔
امریکی ان حملوں کو مشیات کی سمگلنگ کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کے طور پر پیش کر رہا ہے لیکن ان کارروائیوں سے یہ اشارے بھی مل رہے کہ یہ ایک امریکی مہم ہے جس کا مقصد وینزویلا کے صدر نکولس مدورو کو اقتدار سے نکالنا ہے۔ 
چیٹھم ہاؤس سے منسلک سینیئر فیلو ڈاکٹر کرسٹوفر سباتینی کہتے ہیں کہ: ’یہ سب حکومت کی تبدیلی کے لیے ہو رہا ہے۔ وہ (امریکی) شاید حملہ نہ کریں، امید ہے کہ وہ صرف اشارے دے رہے ہیں۔‘
ان کا ماننا ہے کہ بحیرہ کریبین میں فوج کی موجودگی صرف طاقت کا مظاہرہ ہے جس کا مقصد وینزویلا کی فوج اور صدر مدورو کے قریبی حلقے میں ’خوف پیدا‘ کرنا ہے تاکہ وہ صدر کے خلاف ہو جائیں۔
بی بی سی ویریفائی خطے میں امریکی بحری جہازوں اور لڑاکا طیاروں کو ظاہری طور پر موجود معلومات اور سیٹلائٹ کے ذریعے ٹریک کر رہا ہے تاکہ پتا کیا جا سکے کہ صدر ٹرمپ کی فورسز موجود کہاں ہیں۔
ہم اس صورتحال کی روزانہ کی بنیاد پر نگرانی کر رہے ہیں کیونکہ یہاں تبدیلیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔
23 اکتوبر تک ہم نے اس نے خطے میں 10 امریکی فوجی بحری جہاز کی شناخت کی تھی جن میں گائیڈڈ میزائل ڈسٹروئرز، جنگی جہاز اور آئل ٹینکرز شامل ہیں۔
BBCقریبی حلقے کی وفاداری جانچنے کے لیے 5 کروڑ ڈالر کا انعام
یہ کوئی راز نہیں ہے کہ امریکی انتظامیہ اور خصوصاً امریکی سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو صدر مدورو کی حکومت کا تختہ پلٹتے ہوئے دیکھنا چاہیں گے۔
رواں برس جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ وینزویلا کے صدر کو اقتدار سے جاتا ہوا دیکھنا چاہیں گے تو انھوں نے فوکس نیوز کو بتایا تھا کہ مدورو ایک ’بُرے آمر‘ ہیں اور ’ہم اس پالیسی پر کام کرنے جا رہے ہیں۔‘
لیکن مدورو کے روبیو جیسے ناقدین کے لیے بھی وینزویلا میں فوج کی حمایت یافتہ حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ کرنا آسان نہیں ہے۔ وینزویلا میں اپوزیشن برسوں سے اس کا مطالبہ کرتی آ رہی ہے۔
نایاب معدنیات: کیا چین کے ہاتھ ڈونلڈ ٹرمپ کی دُکھتی رگ لگ چکی ہے؟طاقت اور فتح کا جشن: ’ٹرمپ کی تقریر سے تاثر ملا جیسے کام مکمل ہو چکا، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے‘’فلائنگ کریملن‘ اور ہنگری تک محض چند گھنٹوں کا سفر، لیکن پوتن کے لیے یہ اتنا طویل کیوں؟’خوشامد نہیں آرٹ‘
سنہ 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے حکومتوں کی تبدیلی کے خلاف مہم چلائی تھی اور وعدہ کیا تھا کہ „بیرونی حکومتوں کا تختہ الٹنے‘ سے گریز کیا جانا چاہیے۔ حالیہ دنوں میں انھوں نے ’ہمیشہ جاری رہنے والی جنگوں‘ کی بھی مذمت کی تھی۔
سنہ 2024 میں وینزویلا میں ہونے انتخابات کو بین الاقوامی سطح پر مسترد کیا تھا اور اپوزیشن نے بھی غیر شفاف قرار دیا تھا۔ امریکہ بھی مدورو کو وینزویلا کا صدر تسلیم نہیں کرتا۔
صدر ٹرمپ کے پہلے دورِ اقتدار میں سنہ 2019 میں وینزویلا کے دارالحکومت کاراکاس میں امریکی سفارتخانے کو بند کر دیا گیا تھا۔
Reutersرواں برس جولائی میں وینزویلا میں ہونے والا ایک احتجاجی مظاہرہ
امریکہ نے مدورو کی گرفتاری کے لیے معلومات دینے والوں کے لیے انعام پانچ کروڑ ڈالر تک بڑھا دیا ہے، یہ ان کے قریبی حلقے کو دی گئی ایک لالچ ہے تاکہ وہ مدورو کو امریکہ کے حوالے کردیں۔ لیکن اس امریکی کوشش کے باوجود بھی مدورو کے قریبی حلقے میں کوئی پھوٹ پڑتی ہوئی نہیں نظر آئی ہے۔
قانون کے پروفیسر اور سی ایس آئی ایس نیشنل سکیورٹی تھنک ٹینک سے منسلک سینیئر ایسوسی ایٹ ہوزے ہرنینڈس کہتے ہیں کہ وینزویلا کی اشرافیہ کے لیے پانچ کروڑ ڈالر 'کچھ بھی نہیں' ہیں۔
تیل کی دولت سے مالا مال ملک میں کرپشن کے ذریعے بہت پیسہ کمایا جا سکتا ہے۔ محکمہ خرانہ کے سابق سربراہ نے قصوروار ثابت ہونے سے قبل رشوت کے ذریعے ایک ارب ڈالر کمائے تھے۔
متعدد تجزیہ کار اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ حکومت میں کسی بھی قسم کی ممکنہ تبدیلی میں مرکزی کردار وینزویلا کی فوج کا ہوگا۔ مدورو کے خلاف جانے اور انھیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے ممکنہ طور پر وہ کسی بھی قسم کی کارروائی سے استثنا کے وعدے چاہیں گے۔
ہرنینڈس وینزویلا کے فوجی رہنماؤں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ’وہ یہ سوچیں گے کہ کسی نہ کسی طرح وہ بھی جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔‘
یونیورسٹی آف شکاگو سے منسلک سیاسیات کے پروفیسر مائیکل البرٹس سمجھتے ہیں کہ مدورو کے قریبی حلقے کو ان کی مخالفت پر قائل کرنے کے لیے شاید 50 کروڑ ڈالر بھی ناکافی ہوں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’آمر رہنما ہمیشہ اپنے قریبی حلقے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اسی لیے وہ ان کی نگرانی اور وفاداری کو یقینی بنانے کے لیے کوئی طریقہ تیار کرتے ہیں۔‘
وینزویلا پر اقتصادی پابندیاں بڑھا دی گئی ہیں اور ملک کو شدید اقتصادی بحران کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود بھی اہم شخصیات اپنے صدر کی مخالفت کرنے پر راضی نہیں ہیں۔
کیا امریکی کارروائیاں واقعی منشیات کے خلاف آپریشن کا حصہ ہیں؟
صدر ٹرمپ نے منشیات فروشوں کے خلاف اعلانِ جنگ کر رکھا ہے اور انھوں نے 16 اکتوبر کو ایک امریکی حملے کا نشانہ بننے والی کشتی کے بارے میں کہا تھا کہ وہ 'فینٹانل سے لدی ہوئی تھی۔'
لیکن فینٹانل جنوبی امریکہ نہیں بلکہ زیادہ تر میکسیکو میں بنائی جاتی ہے اور جنوبی سرحد کے ذریعے امریکہ میں داخل ہوتی ہے۔ 
ڈاکٹر سبتینی کہتے ہیں کہ: ’یہ معاملہ منشیات کا نہیں ہے۔ ٹرمپ نے وینزویلا کی اپوزیشن کی زبان اپنا لی ہے کہ یہ صرف آمریت نہیں ہے بلکہ مجرم حکومت ہے۔‘
سنہ 2020 سے امریکی محکمہ خارجہ یہ الزام عائد کر رہا ہے کہ صدر مدورو منشیات کی سمگلنگ اور نارکو دہشتگردی کرنے والی تنظیم کی قیادت کر رہے ہیں۔ مدورو اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انھوں نے سی آئی اے کو وینزویلا میں خفیہ کارروائیاں کرنے کا اختیار دے دیا ہے کیونکہ منشیات وینزویلا سے ’آ رہی ہے۔‘ 
وینزویلا بڑے پیمانے پر کوکین نہیں بناتا بلکہ یہ زیادہ تر کولمبیا، پیرو اور بولیویا میں تیار کی جاتی ہے۔ کچھ کوکین وینزویلا کے ذریعے ضرور سمگل کی جاتی ہے لیکن ملک کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ خود اس کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے۔
امریکی ڈرگ انفورسمنٹ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ میں ضبط کی جانے والی 84 فیصد کوکین کولمبیا سے آتی ہے۔ اس رپورٹ میں کچھ اور ممالک کے نام بھی شامل ہیں لیکن وینزویلا ان میں شامل نہیں ہے۔
امریکہ نے اپنے پہلے سات حملے کریبین میں کیے تھے جو بحرہ الکاہل کے مقابلے میں سمندر کے ذریعے منشیات کے سمگلنگ کا زیادہ استعمال ہونے والے راستہ نہیں ہے۔ تاہم اس کے بعد امریکہ نے بحرہ الکاہل میں بھی کارروائیاں کی ہیں۔
امریکہ نے اب تک اس بات کے کوئی تفصیلی ثبوت مہیا نہیں کیے ہیں کہ مدورو کسی منشیات کی سمگلنگ کرنے والی تنظیم کی قیادت کرتے ہیں۔
مدورو متعدد مرتبہ ان الزامات کی تردید کر چکے ہیں اور الزام عائد کرتے ہیں کہ امریکہ پابندیوں کے ذریعے وینزویلا کے اقتصادی بحران کو مزید بگاڑ رہا ہے۔
لیکن یہاں ایسے بھی کیسز ہیں جن میں مدورو سے قریب سمجھی جانے والی شخصیات پر فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔
سنہ 2016 میں نیو یارک کی ایک وفاقی عدالت نے مدورو کی اہلیہ کے دو بھانجوں کو امریکہ میں کوکین درآمد کرنے کا قصوروار ٹھہرایا تھا۔ اس مقدمے میں بتایا گیا تھا کہ وہ اس سے حاصل ہونے والی کمائی کے ذریعے مدورو کی اہلیہ کی سیاسی مہم کو فائدہ پہنچانا چاہتے تھے۔ تاہم ان دونوں افراد کو بعد میں رہا کر دیا گیا تھا۔
کیا منشیات کی سمگلنگ روکنے کے لیے اتنی بڑی فوج کی ضرورت ہے؟
عسکری تجزیہ کاروں کے مطابق سمندر میں منشیات کا پیچھا کرنے کے لیے اتنی بڑی فورس کی ضرورت نہیں ہوتی جتنے بڑی امریکی فورس اس خطے میں موجود ہے۔
پورٹو ریکو میں امریکی فوجی اڈہ ہے اور سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر کی مدد سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو سے 123 کلومیٹر دور مشرق میں بھی دو امریکی بحری جہاز موجود ہیں۔
ان میں سے ایک گائیڈڈ میزائل کروزر ہے جسے یو ایس لیک ایری بھی کہا جاتا ہے۔
امریکی بحریہ کے سابق کپتان اور رانڈ کارپوریشن کے سینیئر پالیسی ریسرچر بریڈلے مارٹن کہتے ہیں کہ ظاہری طور پر دوسرا جہاز ایم وہ اوشن ٹریڈر معلوم ہوتا ہے۔
یہ ایک کارگو شپ ہے جسے سپیشل فورسز کی مدد کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس میں ڈرونز، ہیلی کاپٹرز اور چھوٹی کشتیاں رکھی جا سکتی ہیں۔
BBCسیٹلائٹ سے لی گئی تصویر میں کہ ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو کے قریب بظاہر ایک امریکی بحری جہاز کو دیکھا جا سکتا ہے
یہ جہاز متعدد مشنز کے لیے استعمال ہو سکتا ہے جیسے کہ کسی حملے سے قبل جاسوسی کے لیے۔
لیکن مارٹن اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ’اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں ایسی کارروائیاں کی جا رہی ہیں یا اس کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔‘ 
امریکہ نے اس خطے میں اپنی موجودگی کو بڑھایا ہے۔ بی بی سی ویریفائی نے پورٹو ریکو بھر میں متعدد امریکی طیاروں کی شناخت کی ہے۔
مکنزی انٹیلیجنس سروس کے سینیئر اینلسٹ سٹو رے کہتے ہیں کہ 17 اکتوبر کو سیٹلائٹ سے لی گئی ایک تصویر میں ایف 35 طیارہ بھی دیکھا گیا تھا۔
BBCسیٹلائٹ سے کی گئی تصاویر میں ایف 35 طیاروں کو دیکھا جا سکتا ہے
یہ بہت جدید طیارے ہیں جو جلدی ٹیک آف کرنے اور مختصر جگہ پر اُترنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ایک پرائیویٹ طیارے کے ایک پائلٹ نے ویڈیو شیئر کی تھی جس میں پورٹو ریکو کے رافیل ہرنینڈس ایئرپورٹ پر ایم کیو نائن ریپر ڈرون کو دیکھا گیا تھا۔
یہ ڈرونز امریکہ نے افغانستان، شام، لیبیا اور مالی میں نگرانی کے لیے استعمال کیے ہیں۔
اکتوبر کے اوائل میں بی بی سی ویریفائی نے کریبین اور وینزویلا کے ساحل کے قریب پرواز کرنے والے تین بی 52 بمبار طیاروں کو ٹریک کیا تھا۔
BBC
امریکی فوج نے بعد میں تصدیق کی تھی کہ ان جہازوں نے ایک ’بمبار حملوں کے مظاہرے‘ میں حصہ لیا تھا۔
جہازوں کی ٹریکنگ کرنے والے پلیٹ فارمز پر بی ون بمبار طیاروں اور پوزیڈن جاسوس طیاروں کی پروازوں کے نشان بھی ملتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر نظر آنے والی تصاویر میں ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو کے ساحل پر فوجی ہیلی کاپٹروں کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
ان میں سے کچھ بوئنگ ایم ایچ سکس ایم لٹل برڈز ہیں جنھیں ’کِلر ایگز‘ بھی کہا جاتا ہے اور ان کا استعمال سپیشل فورسز بھی کرتی ہیں۔
BBCسی آئی اے وینزویلا میں کیا کر سکتی ہے؟
جب ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا سی آئی اے کو مدورو کو ہلاک کرنے کے اختیارات دے دیے گئے ہیں تو انھوں نے سوال سے بچنے کی کوشش کی اور کہا کہ اس کا جواب دینا 'مضحکہ خیز' ہوگا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ ’زمین کی طرف دیکھ رہا ہے۔‘ ان کا اشارہ وینزویلا کی سرزمین پر فوجی آپریشن کی طرف تھا۔
لاطینی امریکہ میں سی آئی اے کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جس کی وجہ اس کی خفیہ کارروائیوں، حکومت کی تبدیلوں، خصوصاّ برازیل اور چلّی میں دائیں بازوں کے آمروں کی حمایت کی لمبی تاریخ ہے۔
اقوامِ متحدہ میں امریکی نمائندے کے نائب اور سی آئی اے کے سابق سینیئر اینلسٹ اور محکمہ خارجہ کے سابق مشیر نیڈ پرائس کہتے ہیں کہ سی آئی اے کی خفیہ کارروائیوں کی 'متعدد اشکال' ہو سکتی ہیں۔
’یہ انفارمیشن آپریشز ہو سکتے ہیں۔ یہ سبوتاژ آپریشنز ہو سکتے ہیں۔ یہ اپوزیشن جماعتوں کی فنڈنگ بھی ہو سکتی ہے۔ یہ حکومت کا تختہ پلٹنے تک بھی جا سکتے ہیں۔ یہاں بہت سارے آپشنز موجود ہیں۔‘ 
ڈاکٹر سباتینی کہتے ہیں کہ وینزویلا منشیات بنانے کا کوئی بڑا مرکز نہیں ہے، یہاں کوکین یا فینٹانل کی لیبارٹریاں نہیں ہیں جنھیں 'تباہ' کیا جا سکے، لیکن یہاں ہوائی پٹیاں اور بندرگاہیں ہیں جنھیں امریکہ اپنا ہدف بنا سکتا ہے۔
’اگر امریکہ جارحانہ رویہ اختیار کرنا چاہتا ہے وہ فوجی بیرک پر میزائل داغ سکتا ہے۔ یہاں ایسی معلومات موجود ہے کہ فوج کے کچھ حلقے کوکین کی سمگلنگ میں ملوث ہیں۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ یہاں کوئی ’پکڑ دھکڑ کی صورتحال‘ بھی بن سکتی ہے، جیسے کہ مدورو یا اس کے قریبی ساتھیوں کو اپنے قبضے میں لیا جائے اور انھیں امریکہ میں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
ڈاکٹر سباتینی کہتے ہیں کہ یہاں بڑا سوال یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کب تک بحیرہ کریبین میں اپنے عسکری اثاثے رکھ سکتے ہیں۔
اگر فوج کی اس خطے میں موجودگی بڑھانے کا مقصد مدورو کو دھمکانا ہے تو یہ غیر واضح ہے کہ یہ ان کے قریبی حلقے میں پھوٹ ڈالنے کے لیے کافی ہوگا یا نہیں۔
پروفیسر البرٹوس کہتے ہیں یہ سب معاملہ مدورو کی حکومت ختم کرنے تک جائے گا یا نہیں یا جاننا مشکل ہے۔
دو سالہ جنگ، زیرِ زمین سرنگوں کا جال اور بکھری ہوئیقیادت: کیا غزہ پر آہنی گرفت رکھنے والی حماس واقعی اقتدار چھوڑ دے گی؟ٹرمپ کا سفر درحقیقت منزل نہیں بلکہ عارضی پڑاؤ کی جانب تھا: امریکی صدر کے ساتھ گزرے 24 گھنٹوں کی روداد صدر ٹرمپ کو ’پاکیزگی اور ابدیت‘ کی علامت سمجھا جانے والا تمغہِ نیل کیوں دیا گیا؟امریکہ نے قطر کو اپنی سرزمین پر فضائیہ کا مرکز بنانے کی اجازت کیوں دی ہے؟پاکستان کی امریکہ سے قربت اور فیلڈ مارشل عاصم منیر ’ڈرائیونگ سیٹ‘ پر: ’ٹرمپ انھیں پسند کرتے ہیں جو وعدے پورے کریں‘ذاتی تعلق، پس پردہ دباؤ اور دھمکی: ٹرمپ نے نتن یاہو کو غزہ امن معاہدے پر کیسے مجبور کیا؟