قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں ہونے والی پاکستان اور افغانتسان کے درمیان جنگ بندی سے وقتی طور پر بندوقیں خاموش تو ہوئی ہیں تاہم بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جہاں باہمی عدم اعتماد زیادہ ہو وہاں ایسے معاہدوں کی پائیداری ہمیشہ مشکوک رہتی ہے۔
عرب نیوز میں شائع ہونے والے ایک تجزیادتی مضموں میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ بہت سے لوگ سکیورٹی ڈاکٹرائنز اور سخت سیاسی انداز اپنانے کا رکھتے ہیں تاہم اس سے بڑا نقصان اقتصادی ہی ہے۔
اس بارے میں سب سے اہم دلیل یہ دی جاتی ہے کہ دونوں ہی ایشیا کے غریب ممالک ہیں اور ایک دوسرے کی معاشی تباہی میں مصروف ہیں جبکہ ان کو طویل مدت تک تجارت اور معاشی معاملات کی تباہی کا سامنا بھی رہا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کا سب سے اہم اور فوری معاشی اثر ٹزانزٹ ٹریڈ میں رکاوٹ بنا ہے کیونکہ جھڑپوں کے بعد روزانہ اوسطاً 15 ملین ڈالر کی تجارت بند ہے جو کہ طورخم اور چمن بارڈرز کے ذریعے ہوتی تھی۔
اس سے ضروری اشیا کی روانی رک گئی ہے، تجارتی طور پر افغانستان کی زرعی اشیا کی سپلائی اور کوئلہ جنوب کی طرف جاتا ہے جبکہ پاکستان کی ادویات، سیمنٹ، میڈیکل آلات اور ٹیسکٹائل کے شعبے کی اشیا شمال کی طرف بھیجی جاتی ہیں، تاہم راستے بند ہونے کی وجہ سے ٹرکوں میں جانے والی ایسی اشیا پھنس گئی ہیں، جس سے دونوں ممالک میں اشیا کی مانگ پوری نہیں ہو رہی اور گاڑیوں میں پڑی اشیا خراب بھی ہو رہی ہیں۔
اس تجارتی رکاوٹ کے انسانی زندگی پر اثرات فوری طور پر سامنے آئے ہیں، ایک بار بارڈر بند ہونے سے تقریباً 11 ہزار دیہاڑی دار مزدوروں کی براہ راست آمدنی منقطع ہو جاتی ہے جن میں گاڑیوں پر سامان چڑھانے اور اتارنے والے، ریڑھیوں سے ذریعے ایک سے دوری جگہ پہنچانے والے، ڈرائیورز اور بھی ہینڈلرز شامل ہیں ان لوگوں کا کام تبھی چلتا ہے جب بارڈر کے آر پار اشیا کی نقل و حمل ہوتی رہے۔
اس صورت حال کے باعث مذکورہ کاموں سے منسلک سرحدی علاقوں میں رہنے والے دونوں ممالک کے 55 ہزار افراد کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس سے ان کے معاشی مسائل مزید بڑھے ہیں۔
اسی طرح اس بندش سے پاکستان کے بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے جانے والی برآمدات کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے جبکہ دوسری جانب افغانستان میں بھی ضروری اشیا نہیں پہنچ رہیں اور کسٹم کی مد میں آنے والی رقم سے بھی محروم ہو گیا ہے۔
دونوں ملکوں میں جنگ بندی کا معاہدہ ہو چکا ہے تاہم تجارت بحال نہیں ہوئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
ان حالات میں یہ بات کچھ زیادہ حیرت کا باعث نہیں کہ ایسے علاقوں میں رہنے والے نوجوان بے روزگاری کی وجہ سے سماجی برائیوں کا شکار بھی ہو جایا کرتے ہیں۔
تجارت اور عام لوگوں کے معاشی مسائل کے علاوہ بھی کشیدگی دونوں ممالک پر کافی اقتصادی بوجھ ڈالتی ہے جن میں باڑ لگانے، فوجی اخراجات میں اضافے اور سرحدی انفراسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصان سے متعلق معاشی معاملات شامل ہیں جن کے بارے میں ابھی تک اعداد و شمار سامنے نہیں آئے ہیں تاہم بھی کافی اہم معاملہ ہے۔
ایسی صورت حال میں فنڈز کا رخ ترقیاتی پروگراموں کے بجائے دوسرے اطراف میں جانے کے خدشات پیدا ہوتے ہیں اور ایسے ممالک میں یہ صورت حال زیادہ شدید اس لیے ہے کہ دونوں ہی شدید مالی مشکلات کا شکار ہین۔
ایسی صورت حال معاملات کو براہ راست انسانی بحران کی طرف کی لے جاتی ہے، سرحد کے قریب واقع کلینکس اور سکولوں کو نقصان پہنچتا ہے یا پھر ان کو طویل مدتی بندش پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔
ان حالات میں پہلے ہی اپنے تعلیمی سلسلے میں رکاوٹوں کا سامنا کرنے والے بچوں کی نسل پروان چڑھ رہی ہے، جس سے مستقبل میں ان کی پیداواری صلاحیت بھی مجروح ہو رہی ہے۔
بارڈرز کی بندش سے دونوں اطراف کا دیہاڑی دار طبقہ بھی بری طرح متاثر ہوا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کی جانب سے افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں خوراک کے سامان کے عدم تحفظ کے بارے میں بارہا خبردار کیا گیا ہے اور سرحد کی بندش سے امدادی سامان کی فراہمی میں رکاوٹ پڑتی ہے اور انسانی بحران مزید شدید ہو جاتا ہے۔
یہ تنازع ایک ایسے ٹیکس کے طور پر کام کر رہا ہے، جس سے غریب اور کمزور لوگ ہی متاثر ہوتے ہیں کیونکہ وہ ایسی صورت حال سے نمٹنے یا نکلنے کے لیے کوئی متبادل کا فرار کا راستہ نہیں ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی جنگ بندی پہلا ضروری قدم ہے تاہم یہ آخری نہیں ہو سکتا، اس کو صرف سکیورٹی انتظام اور دوبارہ مسلح ہونے اور پوزیشن سنبھالنے کے وقفے کے طور پر دیکھنا ایک اہم موقع کو ضائع کر دینے کے مترادف ہو گا۔
ضروری ہے کہ بات چیت کا مرکز و محور فوجوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے سے لے کر اقتصادی امور اور دونوں ملکوں کے عوام کے تعلقات کی بحالی ہونا چاہیے۔