Getty Imagesایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل رفعت مختار کا کہنا ہے کہ ادارہ اس معاملے کی باقاعدہ تحقیقات کر رہا ہے (علامتی تصویر)
حالیہ عرصے کے دوران پاکستان میں ایسی کئی اطلاعات سامنے آئیں کہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں کے ایئر پورٹس پر امیگریشن حکام نے بعض ایسے لوگوں کو بیرون ملک پروازوں پر سوار ہونے سے روکا جن کے پاسپورٹس پر ورک ویزا تھے۔
25 سالہ محمد اصغر (جن کی شناخت کے تحفظ کے لیے نام تبدیل کیا گیا ہے) صوبہ سندھ کے شہر حیدر آبادکے رہائشی ہیں اور ان کے کچھ رشتہ دار سعودی عرب میں رہتے ہیں۔
اپنے رشتے داروں کی مدد سے انھوں نے ایک سعودی کمپنی میں ملازمت اور ورک ویزا حاصل کیا تھا۔ مگر جب وہ ورک ویزا اور جدہ جانے والی پرواز کا ٹکٹ لے کر ایئرپورٹ پہنچے تو ان کے بقول امیگریشن حکام نے انھیں سعودی عرب سفر کرنے کی اجازت نہیں دی اور ان سے کہا گیا کہ ان کے کاغذات پورے نہیں ہیں۔
اصغر جیسے کتنے ایسے افراد ہیں جنھیں حالیہ عرصے کے دوران ورک ویزا ہونے کے باوجود بیرون ملک سفر سے روکا گیا، اس حوالے سے اعداد وشمار تو دستیاب نہیں۔ تاہم بی بی سی نے ایسے چند لوگوں سے رابطہ کیا ہے جنھیں مختلف وجوہات کی بنا پر سفر نہیں کرنے دیا گیا۔
یاد رہے کہ ان لوگوں کی اصل شناخت انھی کی درخواست پر چھپائی جا رہی ہے۔
اس بارے میں ایک بیان میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کا کہنا ہے کہ روکے جانے والے مسافروں میں سے کچھ کو انسانی سمگلنگ کا شکار بننے کے شک میں روکا گیا ہے۔
ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل رفعت مختار نے اپنے بیان میں ان خبروں پر تشویش کا اظہار کیا ہے جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بیرونِ ملک ملازمت کے لیے جانے والے متعدد پاکستانی ورکرز کو ہوائی اڈوں پر آف لوڈ کیا جا رہا ہے۔
ان کے مطابق ادارہ اس معاملے کی باقاعدہ تحقیقات کر رہا ہے۔
Getty Imagesامیگریشن حکام کی جانب سے روکے جانے کا ایسا ہی ایک واقعہ پہلے کراچی اور پھر لاہور ایئر پورٹ پر سرگودھا کے رہائشی 35 سالہ چوہدری حسیب کے ساتھ پیش آیا’قرض لے کر ٹکٹ خریدا‘
امیگریشن حکام کی جانب سے روکے جانے کا ایسا ہی ایک واقعہ پہلے کراچی اور پھر لاہور ایئر پورٹ پر سرگودھا کے رہائشی 35 سالہ چوہدری حسیب کے ساتھ پیش آیا۔
محمد اصغر کہتے ہیں کہ ’میرے والد بچپن میں فوت ہو گئے تھے۔ ہم چار بہن بھائیوں کی پرورش والدہ نے محنت مزدوری کر کے کی تھی۔ میرے کچھ رشتہ دار سعودی عرب میں تھے۔ میں نے ان کی ہدایات کے بعد گذشتہ برسوں کے دوران پاکستان میں پلمبنگ کا کام سیکھنا اور پھر اس میں تجربہ حاصل کرنا شروع کردیا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ عرصہ قبل مجھے میرا ویزا بھیجا گیا جس کے بعد میں نے ٹکٹ اور اخراجات کی مد میں تین لاکھ روپے قرضہ لیا۔
’مجھے کہا گیا کہ شروع کے چھ ماہ میری تنخواہ دو ہزار ریال ہو گی جبکہ کام تسلی بخش ہوا اور میں نے معاہدے پر عملدرآمد کیا تو یہ تنخواہ تین ہزار ریال ماہوار تک چلی جائے گی۔‘
محمد اصغر کا کہنا تھا کہ ’اس تنخواہ میں مجھے امید تھی کہ میں تین چار ماہ میں گھر کے اخراجات کے ساتھ یہ سارا قرضہ اتار دوں گا۔ مگر جب میں کراچی ایئر پورٹ پر گیا تو مجھے کہا گیا کہ میں جہاز میں سوار نہیں ہوسکتا۔ وہاں پر میں بہت رویا پیٹا مگر کسی نے میری نہ سنی اور مجھے کہا کہ میں واپس چلا جاؤں اورمجھے یہ بھی نہ بتایا کہ مسئلہ کیا ہے۔‘
چوہدری حسیب کہتے ہیں کہ ہمارے علاقے کے لوگ زیادہ تر چھتوں کی شیٹرنگ کا کام کرتے ہیں۔ ’ہمارے علاقے کے ایک ٹھیکیدار جو پہلے سرگودھا ہی میں کام کرتے تھے، کچھ عرصہ سے وہ دوبئی منتقل ہو گئے۔‘
انھوں نے مجھے بتایا کہ وہاں پر ان کو شیٹرنگ کے ماہر مزدوروں کی ضرورت ہے اور ’میری تنخواہ ساٹھدرہم روزانہ سے شروع ہو گی اور پھر زیادہ ہوجائے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ میرے لیے کافی زیادہ تنخواہ تھی۔ جب میرا ویزا آیا تو اس کے بعد میں نے قرض لے کر ٹکٹ کا انتظام کیا مگر لاہور ایئر پورٹ پر مجھے جہاز میں نہیں بیٹھنے دیا گیا اور واپس بھیج دیا گیا۔
چوہدری حسیب کہتے ہیں کہ ان پر اتنا قرض ہوگیا ہے جو پاکستان میں کئی سال کام کر کے بھی نہیں ادا کیا جا سکتا۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’مجھے دبئی میں مقیم ٹھیکیدار نے بتایا ہے کہ اس نے انھی کاغذات پر کئی لوگوں کو دبئی بلایا تھا۔‘
Getty Imagesبعض افراد کا دعویٰ ہے کہ انھیں دوسرے صوبے سے آنے کی بنا پر روکا گیا ’پنجاب کے رہائشی ہو کر کراچی سے سفرکیوں کر رہے ہو‘
جھنگ کے رہائشی نوشاد اختر (فرضی نام) کا کہنا تھا کہ ’میں نے اپنے مکمل کاغذات کے ساتھ کراچی ایئر پورٹ سے ریاض سعودی جارہا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ لاہور سے ٹکٹ مہنگا جبکہ کراچی سے کافی سستا مل رہا تھا۔ ہم غریب لوگ ہیں جہاں سے ٹکٹ سستا ملےگا وہاں ہی سے سفر کروں گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب میں کراچی ایئر پورٹ پہنچا ایئر لائن سے بورڈنگ کارڈ بنوایا او رجب میں پاسپورٹ چیکنگ کرنے والوں کے پاس گیا توانھوں نے میرے کاغذات کو دیکھ کر کہا کہ یہ تو ٹھیک ہے مگر میں لاہور کی جگہ کراچی سے کیوں سفر کررہا ہوں۔ میں نے سمجھانے کی کافی کوشش کی مگر انھوں نے ایک نہ سنی اور مجھے جہاز پر نہ جانے دیا۔‘
نوشاد اختر کا کہنا ہے کہ ’وہاں میرے سمیت چار، پانچ لوگ اور بھی موجود تھے جو کہہ رہے تھے کہ ان کے پاس ورک ویزا ہے مگر انھیں جہاز پر سوار نہیں ہونے دیا گیا۔ دو کا تعلق پنجاب سے تھا اور ان کو یہ ہی کہا گیا تھا کہ ’کراچی سے کیوں سفر کر رہے ہیں؟‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بورڈنگ کارڈ بننے کے بعد میرے ٹکٹ کے پیسے جو کہ تقریباً ساٹھ ہزار تھے، ضائع ہو گئے جبکہ میں نے جھنگ سے بھی سفر کیا تھا۔‘
ورک ویزا والوں کو آف لوڈ کرنے کی ممکنہ وجوہات
پاکستان اوورسیز امپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن کے سابق وائس چیئرمین محمد عدنان پراچہ کہتے ہیں کہ مکمل اعداد وشمار تو دستیاب نہیں ہیں کہ کتنے ورک ویزا والوں کو آف لوڈ کیا گیا ہے مگر یہ تعداد کافی زیادہ ہے اور ان کی معلومات کی حد تک اس کی دو ممکنہ وجوہات سامنے آئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پہلی وجہ یہ کہ ایسے کئی لوگوں کو آف لوڈ کیا گیا ہے جو اپنے آبائی صوبوں کے ایئر پورٹ کی جگہ پر دیگر صوبوں کے ایئر پورٹ سے سفر کررہے تھے۔ حالانکہ ایسے مزدور لوگ جو کہ قرض لے کر اپنے اخراجات پورے کررہے ہوں وہ عموما سستے ٹکٹ تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔
’یہ سستے ٹکٹ ان کو کسی بھی ایئر لائن کے کسی بھی ایئر پورٹ پر مل جاتے ہیں جہاں وہ اپنے چند ہزار بچانے کے لیے سفر کررہے ہوتے ہیں۔‘
محمد عدنان پراچہ کا کہنا تھا کہ ’دوسری وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ اکثر مزدور پیشہ لوگوں سے تجربے کے کاغذات مانگے گئے ہیں۔ اب پاکستان میں الیکٹریشن، پلمبر، راج مستری کے تجربے کے کاغذات تو موجود نہیں ہوتے اور یہ کام ایئر پورٹ پر امیگریشن حکام کا نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے ’صرف یہ چیک کرنے کا مجاز ہے کہ جو شخص ورک ویزا پر جا رہا ہے اس کے پاس ورک ویزا درست ہے جعلی تو نہیں۔ پروٹیکٹرموجود ہے یا نہیں اور ساتھ میں ٹکٹ چیک کر سکتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جب یہ تینوں چیزیں موجود ہوں تو اس وقت کسی کو بھی ایئر پورٹ پر نہیں روکا جا سکتا۔‘
حکام کا کیا کہنا ہے؟
اس حوالے سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے کےڈائریکٹر جنرل رفعت مختار نے ان خبروں پر تشویش کا اظہار کیا ہے جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بیرونِ ملک ملازمت کے لیے جانے والے متعدد پاکستانی ورکرز کو ہوائی اڈوں پر آف لوڈ کیا جا رہا ہے۔
ڈی جی ایف آئی اے کے مطابق ادارہ اس معاملے کی باقاعدہ تحقیقات کر رہا ہے اور ’اگر کسی اہلکار کے اختیارات کے غلط استعمال کی نشاندہی ہوئی تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔‘
اعلیٰ سطح کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے رفعت مختار نے کہا کہ ابتدائی رپورٹس لاہور اور کراچی ایئرپورٹس سے موصول ہوئی ہیں جہاں کچھ مسافروں کو مکمل سفری دستاویزات ہونے کے باوجود ملک سے باہر روانگی کی اجازت نہیں دی گئی۔
پاکستان نے ڈی پورٹ ہونے والے شہریوں پر سفری پابندی لگانے کا فیصلہ کیوں کیا؟’سٹیکر کی بجائے ای ویزا‘: کون سے پاکستانی برطانیہ کی نئی سہولت سے مستفید ہو سکیں گے؟خود امریکہ پہنچنے میں ناکامی پر ’انسانی سمگلنگ کا کاروبار چلانے والا‘ جوڑا گرفتارجب ہائی جیکروں کو دھوکہ دینے کے لیے پاکستان کا حیدرآباد انڈیا کا بھوج بن گیا
ان کا کہنا تھا کہ ’ایف آئی اے نے ورکرز کے لیے کوئی نیا سفری ضابطہ یا اضافی شرط متعارف نہیں کرائی اور نہ ہی کسی قسم کے نئے حلف نامے کا تقاضہ کیا گیا ہے۔‘
اجلاس کی صدارت وفاقی وزیر برائے اوورسیز پاکستانی چوہدری سالک حسین نے کی۔ وزیر نے ہدایت کی کہ بیرونِ ملک جانے والے ورکرز کو غیر ضروری طور پر روکنے کی شکایتیں ناقابلِ قبول ہیں اور مستند دستاویزات رکھنے والے مسافروں کی روانگی کو ہر صورت یقینی بنایا جائے۔
ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ ادارہ ایک ڈیجیٹل امیگریشن سسٹم پر بھی کام کر رہا ہے جس کے بعد ورکرز بیرونِ ملک روانگی سے قبل اپنے کاغذات کی آن لائن تصدیق کر سکیں گے۔ ان کے مطابق اس نظام سے ایئرپورٹ پر غیر ضروری رکاوٹوں اور بدانتظامی میں کمی آنے کی توقع ہے۔
وزارتِ اوورسیز پاکستانی نے کہا ہے کہ بیرونِ ملک محنت کش ملک کا سرمایہ ہیں اور حکومت ان کے مسائل کے حل کے لیے تمام اقدامات اٹھائے گی۔
Getty Imagesفائل فوٹومسافروں کو کن شکایات کی بنا پر روکا گیا؟
کراچی ایئر پورٹ سے روکے گئے مسافروں کے حوالے سے ایف آئی اے نے بی بی سی کو بتایا کہ ان مسافروں کو مختلف شکایات کی بنا پر روکا گیا ہے۔
ایف آئی اے نے مجموعی طور پر روکے جانے والے مسافروں کی تعداد تو نہیں بتائی مگر یہ دعویٰ کیا کہ یہ روکے جانے والے مسافروں میں کچھ کو انسانی سمگلنگ کا شکار بننے کے شک میں روکا گیا ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق گذشتہ کچھ عرصے کے دوران مسافروں کو خلیجی ممالک سے افریقہ پہنچایا جاتا ہے جہاں سے انھیں کشتیوں کے ذریعے یورپی ممالک بھیجا جاتا ہے۔ ’کچھ مسافروں سے انٹرویو ہوا تو یہ شک ہوا کہ وہ ممکنہ طور پر انسانی سمگلنگ کا نشانہ بن سکتے ہیں۔‘
ایف آئی اےکے مطابق کچھ مسافر ایسے تھے جن کے کوائف میں بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔ ’کچھ کو مزید تفتیش کے لیے آف لوڈ کیا گیا اور اینٹی ہیومن سمگلنگ سرکل کے حوالے کر دیا گیا ہے جبکہ اکثریت کو جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔‘
حکام کے مطابق ایک مسافر جو سعودی عرب جارہا تھا اس کا نام امیگریشن کے انٹیگریٹڈ بارڈر مینجمنٹ سسٹم (IBMS) کی فہرست میں شامل نکلا۔
حکام کا کہنا ہے کہ ایک اور مسافر جو کہ سرکاری ملازم ہیں اور ملازمت کے ویزے پر خلیجی ملک جا رہے تھے اور ضروری این او سی (NOC) فراہم نہ کر سکے۔
حکام کے مطابق کچھ مسافروں وزٹ ویزے پر سفر کررہے تھے مگر وہ مالی وسائل، تصدیق شدہ ہوٹل بکنگ وغیرہ فراہم نہ کرسکے۔
سعودی عرب کے لیے ورک ویزا کے لوازمات
یاد رہے کہ پاکستانیوں کی زیادہ تعداد سعودی عرب ملازمت کے لیے جاتی ہے۔ نور الحسن گجر جدہ سعودی عرب میں مقیم صحافی ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ قوانین اور نئے متعارف کروائی گئی پالیسیوں کے تحت سعودی اور اب دیگر خلیجی ممالک جانے کے لیے صرف ویزا ہی درکار نہیں ہوتا بلکہ کچھ اور لوازمات بھی موجود ہوتے ہیں جن کو پورا کرنا لازم ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے مئی سے کچھ ممالک کے لیے بلاک ویزا کوٹے کو معطل کیا ہوا ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔
اس معطلی کا مقصد امیگریشن کو کنٹرول کرنا، غیر قانونی بھرتی اور حج سیزن کے دوران رش کو منظم کرنا بتایا گیا ہے۔ بعد میں کچھ سطح پر اس کو بحال کیا گیا مگرعارضیورک ویزا کی کیٹگری کے لیے قوانین سخت ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ویزا ملنے یا ویزا منظور ہونے کے بعد پاکستانیوں کو بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ (BEOE) سے’پروٹیکٹر سٹیمپ‘حاصل کرنا ہوتا ہے۔
یہ سٹیمپ قانونی تحفظ فراہم کرتی ہے اور بغیر اس کے بعض اوقات ایئرپورٹ پر روانگی کی اجازت نہیں ملتی۔ اس میں ملازمین کے تحفظ کے مختلف اقدامات ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جس شعبے میں ملازمت حاصل کی گئی ہے، اسمیں تجربہ یا تعلیم حاصل کرنے کے سرٹیفیکیٹ بھی لازمی ہیں اور ان کی جانچ پڑتال امیگریشن کے دوران پاکستانی حکام بھی کرسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ورک ویزا کے لیے لازم ہے کہ ویزا لائنس یافتہ اوورسیز ایمپلائمنٹ ایجنسیوں کے ذریعے حاصل کیے گئے ہوں یا براہِ راست سعودی کمپنی کے ساتھ معاہدہ ہوا ہو اور ان کی طرف سے ویزا کی پیشکش آئی ہو۔
نور الحسن گجر کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت نے تمام کمپنیوں کو اس بات کا پابند کیا ہوا ہے کہ وہ ویزا لگنے کے ساتھ ساتھ کمپنی سے کیا گیا معاہدہ بھی تیار کریں اور اس کو لازمی قانونی شکل دی جائے۔
ان کے مطابق ’سعودی سفارت خانہ اس معاہدے کو باقاعدہ منگوا کر چیک کرتا ہے۔ یہ سعودی حکومت کا اہم اقدام ہے جس میں ورکر کو ہر قسم کا قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
’ملازمت کے متلاشی یہ سمجھ لیں کہ سعودی عرب میں آزاد ویزا کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔‘
پاکستان نے ڈی پورٹ ہونے والے شہریوں پر سفری پابندی لگانے کا فیصلہ کیوں کیا؟’سٹیکر کی بجائے ای ویزا‘: کون سے پاکستانی برطانیہ کی نئی سہولت سے مستفید ہو سکیں گے؟خود امریکہ پہنچنے میں ناکامی پر ’انسانی سمگلنگ کا کاروبار چلانے والا‘ جوڑا گرفتارجب ہائی جیکروں کو دھوکہ دینے کے لیے پاکستان کا حیدرآباد انڈیا کا بھوج بن گیابارزان کمال مجید: بی بی سی نے یورپ کو انتہائی مطلوب انسانی سمگلر ’بچھو‘ کو کیسے تلاش کیا’یہ وہ جہاز ہے جو کبھی تباہ نہیں ہوتا‘: ترکی کا سی 130 طیارہ کیسے تباہ ہوا؟ قیاس آرائیاں اور سوالات