تابکاری کے اثرات یا موٹاپا، تھائیرائیڈ کینسر کے مریضوں کی تعداد تیزی سے کیوں بڑھ رہی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Nov 24, 2025

Getty Imagesعلامتی تصویر

امریکہ میں تھائیرائیڈ کینسر کی شرح کسی بھی دوسرے کینسر کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

اس کینسر میں اضافے کی اصل وجہ جاننے سے قبل یاد دلاتے چلیں کہ تھائیرائیڈ گلینڈ حلق کے نچلے حصے میں گردن کے قریب تتلی کی شکل کا ایک غدود ہوتا ہے۔ یہ غدود ایسے ہارمونز پیدا کرتا ہے جو دل کی دھڑکن، بلڈ پریشر، جسمانی درجہ حرارت اور وزن کو کنٹرول کرتے ہیں۔

تھائیرائیڈ کینسر اس وقت ہوتا ہے جب اس گلینڈ کے اندر پائے جانے والے خلیات بڑھنے لگتے ہیں اور بے قابو ہو کر تقسیم ہو جاتے ہیں جس سے ٹیومر بنتا ہے۔

یہ غیر معمولی خلیے اردگرد کے ٹشوز پر حملہ کر سکتے ہیں اور بعض اوقات جسم کے دوسرے حصوں میں پھیل جاتے ہیں۔

اگرچہ تھائیرائیڈ کینسر کے زیادہ تر کیسز مکمل طور پر قابل علاج ہیں تاہم ماہرین صحت اب بھی اس بیماری کے کیسز کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد پر تشویش کا شکار ہیں۔

امریکہ کی سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق 1980 اور 2016 کے درمیان امریکہ میں تھائیرائیڈ کینسر کے کیسز تین گنا سے زیادہ ہو گئے ہیں۔

یہ شرح مردوں میں ہرایک لاکھ میں سے 2.39 مردوں سے بڑھ کر 7.54 ہو گئی ہے اور خواتین میں یہ شرح ہر ایک لاکھ خواتین میں 6.15 سے بڑھ کر 21.28 ہو گئی ہے۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان فرانسسکو کی اینڈوکرائن سرجن سنزیانا رومن کہتی ہیں کہ ’طب میں تمام تر ترقی کے باوجود تھائیرائیڈ کینسر اب بھی ان چند کینسروں میں سے ایک ہے جن کے واقعات میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا رہتا ہے۔‘

تھائیرائیڈ کینسر میں اضافے کی اصل وجہ کیا ہے؟

ہمیں یہ بات ایک طویل عرصے سے معلوم ہے کہ بچپن میں تابکاری کا بڑی مقدار میں سامنا تھائیرائیڈ کینسر کا سبب بن سکتا ہے۔

1986 کے چرنوبل جوہری حادثے کے بعد سے بیلاروس، یوکرین اور روس کے بچوں میں اس بیماری کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جاپانی ایٹم بم کے حادثے سے بچ جانے والوں میں 1958 کے بعد تقریباً 36 فیصد تھائیرائیڈ کینسر کے کیسز بچپن میں تابکاری سے متاثر ہونے کے باعث تھے۔

اگرچہ 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں امریکہ میں یا کسی اور جگہ کوئی ایسا جوہری حادثہ نہیں ہوا جو کیسز میں اضافے کی وضاحت کر سکے اور یہی بات ماہرین کو ابتدائی طور پر حیران بھی کر رہی تھی تاہم آخر کار ایک وضاحت سامنے آئی کہ کیا بہتر تشخیص کو اس کینسر کے بڑھنے میں قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟

Getty Imagesطبی معائنے میں پیش رفت کی وجہ؟

ڈاکٹروں نے سب سے پہلے 1980 کی دہائی میں تھائیرائیڈ الٹرا سونوگرافی کا استعمال شروع کیا۔ یہ ایک امیجنگ تکنیک ہے جو جو تھائیرائیڈ گلینڈ (غدود) کی تصاویر بنانے کے لیے آواز کی لہروں کا استعمال کرتی ہے۔

اس سے ڈاکٹروں کو تھائیرائیڈ کے بہت چھوٹے کینسر کا پتہ لگانے میں مدد ملی جو پہلے مکمل طور پر ناقابل شناخت تھے۔

پھر 1990 کی دہائی میں ڈاکٹروں نے گانٹھوں میں موجود غدود کا معائنہ کرنا شروع کیا جن پر کینسر ہونے کا شبہ تھا۔اس تکنیک کو فائن سوئی ایسپریشن بائیوپسی کہا جاتا ہے۔

’ان کینسروں کی زیادہ تشخیص کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو غیر ضروری علاج اور سرجری سے گزرنا پڑا ہے۔‘

امریکہ کے میری لینڈ میں نیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ کی ماہر کیری کٹہارا کہتی ہیں کہ ’پہلے ڈاکٹر نوڈولز تلاش کرنے کے لیے تھائیرائیڈ گلینڈ کو تھپتھپا کر ڈھونڈتے تھے۔‘

’لیکن اب الٹرا سونوگرافی جیسی تکنیک کے ساتھ ڈاکٹر چھوٹے نوڈولس کا پتہ لگا سکتے تھے اور پھر ان کی بایوپسی کر سکتے تھے۔ اس سے وہ چھوٹے پیپلیری تھائیرائیڈ کینسر کا بھی پتہ لگا سکتے تھے جو پہلے ہاتھ سے معائنے سے بھی پکڑ میں نہیں اتا تھا۔‘

اور بھی چیزیں ہیں جو زیادہ تشخیص کے نظریہ کی حمایت کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر جب تھائیرائیڈ کینسر کے کیسز تیزی سے سامنے آ رہے تھے تب بھی اس سے ہونے والی اموات میں اضافہ نہیں ہوا۔‘

اسی طرح جنوبی کوریا میں جب حکومت نے پوری آبادی کی تھائیرائیڈ سکریننگ شروع کی تو کینسر کے کیسز میں اضافہ سامنے آیا اور جب یہ ٹیسٹنگ کم ہوئی تو کیسز دوبارہ کم ہوگئے۔

کٹہارا کے مطابق ’یہ تمام نمونے ایک ہی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس سب کی وجہ حد سے زیادہ تشخیص ہے یعنی زیادہ کینسر کے ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔ اور اگر ان کا پتا نہ چلتا تو شاید نہ کبھی علامات سامنے آتیں نہ موت کی وجہ یہ کینسر سمجھا جاتا۔‘

اب ہم جانتے ہیں کہ چھوٹے پیپلیری تھائیرائیڈ کینسر عام طور پر بہت آہستہ بڑھتے ہیں اور جن کا علاج عموما آسان رہتا ہے وہ شاذ و نادر ہی جان لیوا ہوتے ہیں۔

لیکن اس وقت ان کینسروں کی زیادہ تشخیص کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو غیر ضروری طبی علاج سے گزرنا پڑا جس میں پورے تھائیرائیڈ گلینڈ کو ہٹانا اور پھر کسی بھی باقی خلیات کو ہٹانے کے لیے تابکاری کے ذریعے اس کا علاج کرنا شامل تھا۔

سرجری بعض اوقات ووکل کورڈ (آواز کی نالی) کے فالج کا سبب بن سکتی ہے جب کہ تابکار آئوڈائن (radioactive iodine) دوسرے کینسر ہونے کا خطرہ بھی بڑھا دیتی ہے۔

تاہم اب امریکہ میں علاج کے اصول بدل گئے ہیں۔ تابکار آئوڈین صرف خطرناک کینسر کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس کی مقدار کم رکھی جاتی ہے تاکہ مضر اثرات کا خطرہ کم ہو جائے۔ پورے غدود کو ہٹانے کے بجائے ڈاکٹر اب اکثر آدھا ہی نکال دیتے ہیں۔

نتیجتاً تازہ ترین اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ میں تھائیرائیڈ کینسر کے نئے کیسز اب مزید تیزی سے نہیں بڑھ رہے۔

مثال کے طور پر 2010 میں فی ایک لاکھ افراد پر اوسطاً 13.9 نئے کیسز سامنے آئے جبکہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 2022 میں فی ایک لاکھ افراد پر اوسطاً 14.1 نئے کیسز رجسٹر ہوئے۔

دوسری جانب رومن سنزیانا نے خبردار کیا ہے کہ تھائیرائیڈ کینسر کے کیسز دنیا کے ان علاقوں میں بھی بڑھ رہے ہیں جہاں سکریننگ کے پروگرام بھی موجود نہیں۔

تھائیرائیڈ سے جڑے اہم سوالات جن کے جواب خواتین کے لیے جاننا ضروری ہیںجب ٹی وی ناظر نے رپورٹر کو دیکھ کر ان میں کینسر کی تنبیہ کیآٹو امیون ہائپو تھائی رائڈزم: ’یہ ایک خاموش مرض ہے لیکن آپ کا جسم چیخ رہا ہوتا ہے‘میں نے خواتین کے دماغ کا 20 سال مطالعہ کرنے کے بعد کیا سیکھا؟

اس کے باوجود پچھلے چند سالوں میں بہت سے سائنسدان یہ کہتے بھی پائے گئے کہ صرف زیادہ تشخیص ہی تمام اضافے کا سبب نہیں ہو سکتی۔

اٹلی کی کیٹینیا یونیورسٹی میں اینڈو کرائنولوجی کے ایمریٹس پروفیسر ریکارڈو وگنیری نے ایک تحقیق میں بتایا کہ اگر زیادہ تشخیص ہی واحد وجہ ہوتی تو تھائیرائیڈ کینسر کے کیسز امیر ممالک میں سب سے زیادہ پائے جاتے جہاں تشخیصی سہولیات بہت اچھی ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔ ان کے مطابق متوسط ​​آمدنی والے ممالک میں تھائیرائیڈ کینسر کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔

سانزیانا رومن کہتی ہیں کہ ’تھائیرائیڈ کینسر کے کیسز ان مقامات میں بھی بڑھ رہے ہیں جہاں سکریننگ کم پیمانے پر ہوتی ہے۔‘

ان کے مطابق ’اب بڑے اور زیادہ خطرناک ٹیومر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی جا رہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دونوں چیزوں کو ایک ساتھ دیکھ رہے ہیں یعنی زیادہ سکریننگ سے متعلق تعصب اور دوسرا بیماری کے اصل معاملات میں اضافہ۔‘

چونکہ تھائیرائیڈ کینسر کا ابتدائی مرحلے میں پتہ چل رہا ہے اور علاج کے نتائج میں بہتری آئی ہے، اس تناظر میں پروفیسر وگنیری کا کہنا ہے کہ اگرچہ تھائیرائیڈ کینسر سے ہونے والی اموات کی تعداد میں کمی ہونی چاہیے تھی لیکن شرح اموات تقریباً وہی رہی ہے۔ فی لاکھ آبادی میں تقریباً 0.5 کیسز جبکہ کچھ ممالک میں یہ شرح اور بھی بڑھ رہی ہے۔

مثال کے طور پر ایک تحقیق نے کیلیفورنیا میں 69,000 سے زیادہ تھائیرائیڈ کینسر کے مریضوں کا تجزیہ کیا جن کی 2000 اور 2017 کے درمیان تشخیص ہوئی تھی۔

محققین نے پایا کہ اس عرصے کے دوران مریضوں کی تعداد اور اموات کی شرح دونوں میں اضافہ ہوا ہے۔

یہ اضافہ براہ راست ٹیومر کے سائز یا کینسر کے مرحلے سے متعلق نہیں تھا جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹے ٹیومر کی بہتر تشخیص کے بجائے کچھ اور کی ضرورت ہے۔

2017 میں ماہرین کی ٹیم نے 1974-2013 کے درمیان تشخیص کیے گئے 77,000 سے زیادہ تھائیرائیڈ کینسر کے مریضوں کے میڈیکل ریکارڈ کا بھی جائزہ لیا۔

نتائج سے پتہ چلا کہ اگرچہ کیسوں میں بڑا اضافہ تھائیرائیڈ گلینڈ میں چھوٹے ٹیومر کی وجہ سے تھا لیکن ساتھ ہی میٹاسٹیٹک پیپلیری کینسر (جسم کے دوسرے حصوں میں پھیلنے والے کینسرز) میں بھی اضافہ ہوا تھا۔

اگرچہ تھائیرائیڈ کینسر سے ہونے والی اموات بہت کم ہوتی ہیں لیکن اس تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ اس کے واقعات میں سالانہ 1.1 فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔

کیری کٹہارا کے مطابق ’اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان زیادہ جارحانہ ٹیومر کے بڑھنے کے پیچھے ایک اور وجہ بھی ہو سکتی ہے۔‘

Getty Imagesموٹاپا اور تھائیرائیڈ کینسر کے درمیان تعلق

کئی تحقیقات میں اضافی وزن اور تھائیرائیڈ کینسر کے خطرے کے درمیان تعلق ظاہر ہوتا ہے۔

اس کا ایک اہم سبب موٹاپا ہو سکتا ہے جو کہ 1980 کی دہائی سے خاص طور پر امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بڑھ رہا ہے۔

کئی مطالعات میں وزن زیادہ ہونے اور تھائیرائیڈ کینسر کے خطرے کے درمیان تعلق ظاہر ہوتا ہے۔ صحت مند بی ایم آئی والے لوگوں کی نسبت زیادہ بی ایم آئی والے لوگوں میں تھائیرائیڈ کینسر ہونے کا امکان 50 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

زیادہ بی ایم آئی بڑے ٹیومر سے بھی منسلک ہوتا ہے جو آسانی سے پھیل جاتے ہیں۔

کیری کٹہارا کے مطابق ’ہماری تحقیق میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ زیادہ بی ایم آئی تھائیرائیڈ کینسر سے متعلق موت کے زیادہ خطرے کا سبب بن جاتا ہے۔‘

یہ واضح نہیں ہے کہ موٹاپا اسڈ کینسر کا سبب کیسے بن سکتا ہے۔ ایک چیز جو سامنے آئی وہ یہ ہے کہ موٹاپے کے شکار لوگوں میں تھائیرائیڈ کے خراب ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر جن لوگوں کے پاس تھائیرائیڈ محرک ہارمون (TSH) کی سطح بڑھی ہوتی ہے ان کا بی ایم آئی بھی زیادہ ہوتا ہے۔ ٹی ایچ ایس ایک ہارمون ہے جو تھائیرائیڈ گلینڈ کے کام کو منظم کرتا ہے۔

کیری کے مطابق ’موٹاپے کے بہت سے جسمانی اثرات ہوتے ہیں، اس لیے سوزش، انسولین کے خلاف مزاحمت، اور تھائیرائیڈ کے فنکشن میں تبدیلیاں سب کچھ تھائیرائیڈ کینسر کی نشوونما میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔‘

Getty Imagesکچھ قسم کے کیمیکل بھی ذمہ دار ہو سکتے ہیں

اسی طرح، بہت سے سائنسدانوں کو شبہ ہے کہ روزمرہ کی گھریلو اشیا اور نامیاتی کیڑے مار ادویات میں پائے جانے والے ’اینڈوکرائن ڈسپرٹنگ کیمیکلز‘ (EDCs) بھی اس کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ یہ وہ کیمیکل ہیں جو جسم کے ہارمونز میں مداخلت کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر سلفونک ایسڈ، جو کہ برتنوں، کاغذی کھانے کی پیکیجنگ، ذاتی نگہداشت کی مصنوعات اور آگ بجھانے والی جھاگ جیسی بہت سی اشیا میں پایا جاتا ہے، تھائیرائیڈ کینسر کا سبب سمجھاجاتا ہے۔ تاہم ان کیمیکلز کو تھائیرائیڈ کینسر سے جوڑنے والے ثبوت مستحکم ہیں۔

کچھ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ مائیکرو ایلیمنٹس بھی اس کینسر کے بننے میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مائیکرو ایلیمینٹس کیمیائی عناصر ہیں جن کی جانداروں کو بہت کم مقدار میں ضرورت ہوتی ہے، لیکن تھائیرائیڈ کے کام کے لیے ضروری ہیں۔

کیری کٹہارا کا کہنا ہے کہ ’آتش فشاں کے پھٹنے سے جڑے مائیکرو ایلیمنٹس کے بارے میں بہت سے مفروضے ہیں۔ اس لیے ان ماحول میں زنک، کیڈمیم اور وینیڈیم جیسے کچھ دوسرے کیمیکلز بھی پائے گئے ہیں اور وہاں تھائیرائیڈ کینسر کی شرح بھی بہت زیادہ ہے، لیکن دونوں کے درمیان براہ راست تعلق ثابت کرنے کے لیے اچھی طرح سے تحقیق نہیں کی جا سکی۔‘

Getty Imagesتابکاری سے تعلق

کٹہارا کے مطابق اس کی ایک اور وضاحت ہوسکتی ہے جو تشخیص کے لیے کیے جانے والے طبی سکینوں سے خارج ہونے والی آئنائزنگ تابکاری کے اثرات ہیں۔

1980 کی دہائی سے خاص طور پر امریکہ میں سی ٹی سکین اور ایکس رے سکین میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے، بشمول بچوں کے سی ٹی سکین۔ یہ سی ٹی سکین تھائیرائیڈ غدود میں تابکاری کی زیادہ مقدار خارج کرتے ہیں۔

تابکاری اور تھائیرائیڈ کینسر کے درمیان تعلق کے بارے میں جو کچھ ہم دوسرے مطالعات سے جانتے ہیں جیسا کہ جاپان میں ایٹم بم سے بچ جانے والے افراد پر مطالعہ، ہمیں اس طرح کی تابکاری کے اثرات کا پتا چلانے کی اجازت دیتا ہے۔

ایک حالیہ مطالعہ کا اندازہ لگایا گیا ہے کہ ہر سال امریکہ میں اضافی 3,500 تھائیرائیڈ کینسر کے کیسز کی وجہ سی ٹی سکین کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔

کٹہارا کہ مطابق ’بچوں کا تھائیرائیڈ غدود بالغوں کے غدود کے مقابلے میں تابکاری کے اثرات کے لیے بہت زیادہ حساس ہوتا ہے۔ لہذا یہ ممکن ہے کہ سی ٹی سکین کا بڑھتا ہوا استعمال، جزوی طور پر امریکہ اور دیگر جگہوں پر تھائیرائیڈ کینسر کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ بن رہا ہے۔‘

’اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ تمام عوامل مل کر کردار ادا کر رہے ہوں۔‘

تھائیرائیڈ سے جڑے اہم سوالات جن کے جواب خواتین کے لیے جاننا ضروری ہیںجب ٹی وی ناظر نے رپورٹر کو دیکھ کر ان میں کینسر کی تنبیہ کیآٹو امیون ہائپو تھائی رائڈزم: ’یہ ایک خاموش مرض ہے لیکن آپ کا جسم چیخ رہا ہوتا ہے‘میں نے خواتین کے دماغ کا 20 سال مطالعہ کرنے کے بعد کیا سیکھا؟مریم نواز کو لاحق بیماری کیا ہے اور کیا اس کا علاج امریکہ اور سوئٹزرلینڈ میں ہی ممکن ہے؟چرنوبل جوہری حادثہ: وہ جگہ جہاں 24 ہزار سال تک انسان آباد نہیں ہو سکتے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More