جب امریکہ میں لوگ خلائی مخلوق کے حملے سے بچنے کے لیے گھروں سے بھاگ نکلے

بی بی سی اردو  |  Dec 03, 2025

Getty Imagesفلم ’وار آف دی ورلڈز‘ کا ایک منظر جو 1958 میں ریلیز ہوئی تھی

1938 میں ایک سائنس فکشن ناول پر مبنی ریڈیو کا پروگرام نشر ہوا تو اسے سچ مان کر لوگوں میں اتنا خوف پھیل گیا کہ اسے آج تک تاریخ میں ایک مشہور براڈ کاسٹ کے طور پر جانا جاتا ہے۔

اس پروگرام کے پیچھے 23 سالہ اورسن ویلز تھے جنھوں نے تین سال بعد ’سٹیزن کین‘ نامی فلم بنائی اور اس میں اداکاری بھی کی۔ اس فلم کو اب تک نہایت اہم تخلیق مانا جاتا ہے۔

یہ ہیلوئین سے ایک دن قبل رات کا وقت تھا اور حال ہی میں نازی جرمنی نے چیکوسلوویکیا پر حملہ کیا تھا۔ یہ فاشزم کے عروج اور جنگ کے خوف سے بھرپور دور تھا۔

ویلز نے ’مرکری تھیٹر‘ کے پلیٹ فارم سے ایچ جی ویلز کے شہرہ آفاق ناول ’دی وار آف دی ورلڈز‘ کو ریڈیو پروگرام کی شکل میں پیش کیا۔ اس ناول میں مریخ سے خلائی مخلوق زمین پر حملہ کر دیتی ہے۔

اندازہ کیا جاتا ہے کہ تقریبا 60 لاکھ لوگوں نے یہ پروگرام سنا۔ ان میں سے بہت سے اس بات سے لاعلم تھے کہ وہ جو کچھ سن رہے ہیں وہ سچ نہیں ہے بلکہ ایک کہانی ہے۔ اس کا نتیجہ صاف ظاہر تھا۔ بڑے پیمانے پر افراتفری مچ گئی۔

اورسن ویلز نے 1970 میں بی بی سی کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں بتایا کہ اچانک لوگوں نے 125 کلومیٹر کی رفتار سے گاڑیاں بھگانا شروع کر دیں۔ ان کو یاد ہے کہ لوگوں کو یہ لگا کہ واقعی خلائی مخلوق نے زمین پر حملہ کر دیا ہے اور کئی لوگ جان بچانے کے لیے پہاڑیوں کی جانب فرار ہو گئے۔

1897 میں شائع ہونے والے ناول کی کہانی کے مطابق مریخ سے دھاتی سلینڈر برطانیہ میں سرے کے مضافاتی علاقے میں گرتے ہیں تو برطانوی فوج کو طلب کرلیا جاتا ہے کہ خلائی مخلوق کا مقابلہ کریں جن کے پاس مہلک شعائیں پھینکنے والی مشینیں ہوتی ہیں۔

1938 میں ایک نوجوان مصنف، جن کا نام ہاورڈ کوچ تھا، اس کہانی کو ریڈیو پر پیش کرنے کے لیے تیار کر رہے تھے۔ کوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ناول سے مختلف کہانی بن چکی تھی جو صرف خلائی مخلوق، ان کے ہتھیاروں سمیت اس تصور کے گرد گھومتی تھی کہ زمین پر حملہ ہو چکا ہے۔‘

اسے مذید دلچسپ بنانے کے لیے ٹیم نے فیصلہ کیا کہ برطانیہ کے بجائے یہ حملہ امریکی کی سرزمین پر کروایا جائے۔

کوچ یاد کرتے ہیں کہ ان کو ’کسی جنرل کی طرح خلائی مخلوق اور انسانوں کے درمیان ہونے والی اس فرضی جنگ کی منصوبہ بندی کرنے میں لطف آیا۔ میرے پاس زیادہ وقت نہیں تھا، میں نے نقشہ کھولا، آنکھیں بند کیں اور پنسل ایک نشان پر رکھی تو یہ گروورز مل کا علاقہ تھا۔‘

یوں امریکی ریاست نیو جرسی کا یہ چھوٹا سا قصبہ کہانی میں خلائی مخلوق کے حملے کا نشانہ بنا گیا۔

خلائی مخلوق کی دنیا میں آمد سے جُڑے نظریات اور ان کی حقیقت کیا ہے؟خلائی مخلوق ہمیں اپنی مہمان نوازی کا موقع کب دے گی؟کائنات میں خلائی مخلوق کی تلاش جو اب ’کچھ ہی دیر کی بات رہ گئی ہے‘’پراسرار اڑن طشتریاں‘ نظر کا دھوکہ ہیں یا ذہین خلائی مخلوق کی موجودگی کا ثبوت؟

پروگرام کی رات تمام اداکار نیو یارک کے ریڈیو سٹوڈیو میں موجود ہیں جب اورسن ویلز کہانی سنانا شروع کرتے ہیں۔ چار منٹ اور ابتدائیہ گزر جانے کے بعد جن لوگوں نے پروگرام سننا شروع کیا۔ انھیں صرف موسیقی سننے کو ملی جس کے بیچ میں بار بار یہ خبر سنائی جا رہی ہے کہ کچھ ہو چکا ہے۔

جب اورسن سے سوال کیا گیا کہ ان کے خیال میں لوگ کس چیز سے خوف زدہ ہوئے تو انھوں نے کہا کہ وہ یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ’میں نہیں جانتا، بہت سی باتیں شاید۔‘

ان میں سے ایک اس وقت کے امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کی آواز بھی ہو سکتی ہے۔ ویلز نے بتایا کہ اس کہانی کے ایک کردار کی صلاحیت تھی کہ وہ امریکی صدر کی آواز میں بات کر سکتے تھے۔

پروگرام کے دوران ایک موقع پر یہ کردار قوم سے خطاب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ’میں ملک کو درپیش صورت حال کی سنجیدگی چھپانے کی کوشش نہیں کروں گا۔‘ ویلز کا ماننا ہے کہ شاید یہی موقع تھا جب افراتفری میں اضافہ ہوا۔ ’میرا خیال ہے شاید اسی موقع پر لوگ گلیوں میں نکلنا شروع ہوئے۔‘

پروگرام تیار کرنے والوں نے آوازوں کو حقیقی تاثر دینے کے لیے چالاکی سے کام لیا۔ پروگرام کے دوران ایک صحافی خلائی مخلوق کی آمد کی تفصیلات بتاتا ہے کہ ’جنگل میں شعلے بھڑک اٹھے ہیں جو ہر طرف پھیل رہے ہیں۔‘

اور پھر شاید وہ لمحہ آیا جو سب سے خوفناک تھا۔ اچانک خاموشی ہو گئی۔

ویلز کہتے ہیں کہ ’اصل چیز یہ تھی کہ اچانک خاموشی ہو گئی، کوئی آواز نہیں تھی۔ اور پھر ایک آواز آتی ہے: کیا کوئی ہے؟‘

ویلز قہقہ لگاتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس وقت لوگ بھاگ نکلے۔

یہ اتوار کی رات تھی اور ٹریفک پولیس پریشان ہو گئی کہ لوگ اتنی تیز رفتاری سے گاڑیاں کیوں چلا رہے ہیں۔ ویلز نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پولیس نے لوگوں کو روکنے کی کوشش کی تو انھوں نے انکار کر دیا کہ ہم پہاڑوں پر جا رہے ہیں۔‘

گروورز مل کے خوف زدہ باسیوں کے لیے اس وقت یہ کوئی مذاق نہیں تھا۔

1988 میں قصبے کے ایک رہائشی نے بی بی سی کو دیے جانے والے انٹرویو میں کہا کہ ’خلائی مخلوق کے نیچے اترنے کی بات ہو رہی تھی اور ہر گزرتے سیکنڈ کے ساتھ یہ خوفناک ہوتا جا رہا تھا تو ہم نے فیصلہ کیا کہ بہتر ہے کہ ہم نکل جائیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’ہم گاڑی میں بیٹھے اور مجھے یاد ہے کہ ایک لیمپ بھی تھا کیوں کہ بجلی نہیں تھی۔ میں نے ارد گرد دیکھا اور سوچا کہ کیا ہم کبھی یہاں واپس آ سکیں گے۔ میں نے یہ تک سوچا کہ شاید کبھی آثارقدیمہ کے لوگ آئیں اور کہیں گے کہ یہ لوگ مریخ کی مخلوق کی وجہ سے چلے گئے۔‘

ایک اور رہائشی نے بتایا کہ انھوں نے بندوقیں نکال لی تھیں کہ ان کا استعمال کرنا پڑ سکتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’ہم جھیل کی جانب گئے لیکن وہاں عام لوگوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ کوئی سو فٹ لمبی خلائی مخلوق نہیں تھی۔ اس وقت ہم نے پہلے تو سوچا کہ وہ کہاں گئے؟ میں نہیں جانتا ہم کتنی دیر وہاں رہے لیکن پھر ہم واپس آئے اور سب لوگ بہت غصے میں تھے۔‘

اس پروگرام کی وجہ سے چند لوگ زخمی بھی ہوئے لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ تاہم وفاقی حکام کو جرائم یا ایسی دیگر خبریں حقیقت کے طور پر نشر کرنے پر پابندی ضرور عائد کرنی پڑی۔

جہاں تک اس ٹیم کی بات ہے تو انھوں نے تاریخ رقم کی۔ اورسن سینیما کے عظیم ہدایت کاروں میں شمار ہوئے جبکہ کوچ کا نام ہالی وڈ کی مشہور فلم ’کاسابلانکا‘ کا سکرین پلے لکھنے کی وجہ سے امر ہو گیا۔

خلائی مخلوق کی دنیا میں آمد سے جُڑے نظریات اور ان کی حقیقت کیا ہے؟خلائی مخلوق ہمیں اپنی مہمان نوازی کا موقع کب دے گی؟کائنات میں خلائی مخلوق کی تلاش جو اب ’کچھ ہی دیر کی بات رہ گئی ہے‘’پراسرار اڑن طشتریاں‘ نظر کا دھوکہ ہیں یا ذہین خلائی مخلوق کی موجودگی کا ثبوت؟خلائی مخلوق سے رابطہ ہو بھی گیا تو ہم ان سے کہیں گے کیا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More