تنخواہ اور مراعات پر تنازعات ۔۔ فوجی افسران کو پلاٹس کیوں ملتے ہیں؟

ہماری ویب  |  Nov 24, 2022

پاکستان کی فوج دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر دشمن پاکستان کیخلاف اپنے ناپاک عزائم میں ناکام ہے تو اس کا سہرا افواج پاکستان کے سر ہی جاتا ہے۔

اپنی خوبصورت جوانیاں، ارمان اور خواب وطن کی خاطر قربان کرنے والے یہ سپوت اپنا آج قوم کے کل کیلئے قربان کردیتے ہیں اور بدلے میں انہیں کبھی شہادت، کبھی عمر بھر کی معذوری اور کبھی دشمنوں کے مظالم بھی سہنے پڑتے ہیں لیکن کہنے والے اکثر یہ کہتے ہیں کہ فوج سارا بجٹ کھاجاتی ہے، افسروں کو ریٹائرمنٹ کے بعد پلاٹس ملتے ہیں۔

پاکستان میں تمام سرکاری محکموں اور اداروں کے ملازمین کی مراعات سے متعلق قواعد و ضوابط موجود ہیں جس کے تحت پاکستانی فوج میں بھی سروس، رینک اور مدتِ ملازمت کو مدنظر رکھتے ہوئے افسران اور جوانوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد مختلف سہولیات دی جاتی ہیں۔

دوستو! خدمات کی بنیاد پر مراعات کا سلسلہ انگریز دور سے ہی جاری ہے لیکن قیام پاکستان کے بعد فوجی افسران کو مراعات دینے کا سلسلہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور سے دوبارہ شروع ہوا جس کوجنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں مزید تقویت ملی۔جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل راحیل شریف کے ادوار میں بھی عسکری حکام کو پلاٹس دینے کا سلسلہ جاری رہا۔

دوستو! یہاں اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ایک جرنیل کے پاس اتنا روپیہ آخر کہاں سے آیا تو اس کا جواب بھی آپ کو آگے چل کر بتاتے ہیں۔

اس سے پہلے کہ آپ کو فوجی افسران میں زمینوں کی تقسیم کے طریقہ کار کے بارے میں بتائیں، آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ مختلف سرکاری محکموں اور اداروں میں ملازمین کو پلاٹس دینے کی پالیسی موجود ہے لیکن اعتراض صرف فوج پر کیا جاتا ہے تو آیئے ابھی ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ آخر پلاٹس کی تقسیم کا طریقہ کار کیا ہوتا۔

تنقید کرنا بہت آسان کام ہے لیکن جیسا کہ کسی بھی چیز کے ہمیشہ دو پہلو ہوتے ہیں اسی طرح فوجیوں کو پلاٹس دینے کے پیچھے بھی دو اہم باتیں ہیں۔ پہلی بات آپ کو بتاتے چلیں کہ آخر ریٹائرمنٹ پر افسران کو زمینیں کیوں دی جاتی ہیں۔

آگے بڑھنے میں سے پہلے آپ کو بتاتے چلیں کہ پاکستان میں اعلیٰ فوجی افسران کے علاوہ کسی محکمے کے افسران کو زرعی زمین الاٹ نہیں کی جاتی اور چونکہ یہ مانا جاتا ہے کہ فوجی افسر سخت جان ہوتا ہے اور اس سے یہ توقع ہوتی ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر دوسری جگہ آباد ہو سکے گا اور بنجر زمین کو آباد کرے گا۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاک فوج کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل شعیب امجد کہتے ہیں کہ فوجی افسران کو جو زرعی زمین لیز پر ملتی ہے وہ بنجر ہوتی ہے اور اسے آباد کرنا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔

ریٹائرڈ جنرل شعیب امجد وہ کہتے ہیں کہ انھیں چولستان میں 50 ایکڑ زرعی زمین ملی جس پر وہ سات سال تک کام کراتے رہے۔ ریت زیادہ ہونے کی وجہ سے 25 ایکڑ سے ریت نکال کر دوسرے 25 ایکڑ پر ڈال دی گئی۔ مگر یہ زمین دور ہونے کی وجہ سے انھیں یہ 75 لاکھ میں بیچنی پڑی اور اس کے بعد انھوں نے اپنے خاندان کے لیے راولپنڈی میں ایک گھر خرید لیا۔

دوستو فوجی افسران کو ملنے والی زمین بیچنے کے لیے جی ایچ کیو سے اجازت ضروری ہوتی ہے اور اب آپ کو ایک مزید حیرت کی بات بتاتے ہیں کہ فوجی افسر کو ملنے والی مراعات مفت نہیں ہوتیں۔

جی ہاں !۔۔ آپ نے ٹھیک سنا۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ فوجیوں کو مفت میں زمینیں مل جاتی ہیں تو ان کی اطلاع کیلئے بتاتے چلیں کہ فوجی افسران کو ریٹائرمنٹ کے بعد جو پلاٹ، گھر اور دیگر مراعات ملتی ہیں اس کا تعلق فوج میں گزارے گئے وقت سے ہوتا ہے۔

دوسری بات تو عسکری حکام بتاتے ہیں کہ فوجی افسر کو ملازمت کے پہلے دن ہی ایک آپشنل فارم دیا جاتا ہے جو آرمی ہاؤسنگ کی رکنیت اختیار کرنے کا ہوتا ہے اور یہ رکنیت حاصل کرنے والے کو ایک لاکھ ڈاؤن پیمنٹ دینا ہوتی ہے اور پھر اس کی تنخواہ سے کٹوتی ہوتی رہتی ہے۔جی تو اب آپ کو سمجھ آیا کہ یہ پلاٹس کیسے ملتے ہیں۔؟

آخر میں آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ ایسا نہیں کہ ہر فوجی افسر کو پلاٹ مل جاتا ہے بلکہ ضابطہ کار کے تحت جب کوئی فوجی افسر 15 سال سروس کر لیتا ہے تو پھر وہ ایک پلاٹ کا حقدار ہو جاتا ہے یعنی جب تک سنگلاخ  چٹانوں اور برف پوش پہاڑوں اور دشوار جگہوں پر 15 سال تک سروس نہ کی تو پلاٹ کے حقدار نہیں بنیں ۔

اب اگر آپ سے کہا جائے کہ آپ کو 10 پلاٹس دیئے جائینگے لیکن آپ کو ایک مہینہ سیاچن کی پہاڑیوں پر گزارنا ہے یا آپ کو 5 پلاٹ دیئے جائینگے لیکن آپ کو بارڈر پر ایک ہفتہ کھڑا ہونا ہے تو یقیناً آپ نہ ہی کرینگے کیونکہ ہمیں اپنی زندگیاں بہت عزیز ہیں لیکن اپنی جوانیاں وطن عزیز کیلئے قربان کرکے اپنی سہاگنوں کو جیتے جیتے بیواؤں جیسی زندگی پر مجبور کرنے والے فوجیوں کو پلاٹس نہیں بلکہ وطن کی مٹی عزت، آن، بان اور شان زیادہ عزیز ہوتی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More