گلاس ورکر: پاکستان کی پہلی ٹو ڈی اینیمیٹڈ فلم جو بڑے فلم فیسٹیولز میں پاکستان کی نمائندگی کرے گی

بی بی سی اردو  |  Jun 21, 2024

’کسی نے مجھے کہا تھا کہ میں سی جی (CG) ماڈل کی ٹی شرٹ کو ماؤس کی ایک کلک سے ہرے سے نیلا بنا سکتا لیکن آپ کہتے ہیں کہ آپ اسے بیٹھ کر خود بنائیں گے؟۔۔۔ تب میں نے سوچا کہ اگر ایسا ہے تو ٹھیک ہے، ہم انھیں غلط ثابت کریں گے۔‘

عثمان ریاض کو یہ الفاظ 2015 میں اس وقت سننے کو ملے کہ جب وہ اپنی فلم ’گلاس ورکر‘ کے خیال اور ایک اس کے ایک خاکے کو پاکستانی فلم انڈسٹری کے نمایاں سٹوڈیوز میں پیش کر رہے تھے۔

کئی سال پہلے بعض لوگوں کو ناممکن لگنے والی اس فلم کی دھوم آج کل قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہے۔ دس سال کے ’طویل‘ عرصے کے بعد نہ صرف یہ فلم ریلیز کے لیے تیار ہے بلکہ اینیسی اور کانز جیسے فلم فیسٹیولز میں بھی پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہے۔

گلاس ورکر فلم کے ہدایتکار عثمان ریاض کے ساتھ بی بی سی کی یہ دوسری بیٹھک ہے۔ اس سے قبل 2022 میں انھوں نے بی بی سی سے اُس وقت بات کی تھی کہ جب یہ فلم پروڈکشن کے مراحل طے کر رہی تھی۔

اپنے اِس انٹرویو میں عثمان نے فلم کی ریلیز پر بات کی۔ فلم کی تکمیل اور ریلیز سے پہلے ہی اتنی کامیابی حاصل کرنے پر عثمان کا کہنا تھا کہ وہ خوش تو بہت ہیں مگر دس سال کا انتظار آسان نہیں تھا۔

اُن کا کہنا ہے کہ ’ایک طویل عرصے تک مجھے لگتا تھا کہ شاید یہ فلم کبھی مکمل نہیں ہو پائے گی۔ مگر اب اس بات کا سکون ہے کہ ہم آگے بڑھ سکتے ہیں اور اسے سب کے ساتھ شئیر کر سکتے ہیں۔‘

ٹوڈی اینیمیٹڈ فلم یا ہاتھ سے بنی فلم ہوتی کیا ہے اور یہ دوسری اینیمیٹڈ فلموں سے کیسے مختلف ہوتی ہے؟

عثمان ریاض کا کہنا ہے کہ ’میں اکثر لوگوں کو کہتا ہوں کہ یہ واقعی ہاتھ سے بنی ہوئی ہے، اس کی اینیمیشن ہاتھ سے کی گئی ہے۔۔۔ یہ ایک چلتی پھرتی پینٹنگ ہے۔‘

اس فلم کا تذکرہ کرتے ہوئے بہت سے لوگوں کو یہ سوال کرتے پایا گیا کہ ’ہینڈ ڈران‘ یا ہاتھ سے بنی فلم کا مطلب ہے کیا؟

عثمان کے مطابق ٹو ڈی اینیمیشن اور سی جی اینیمیشن میں کافی فرق ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ٹو ڈی اینیمیشن فلم میں ہرایک فریم کو ہاتھ سے بنایا جاتا ہے۔ بیک گراؤنڈز الگ سے پینٹ ہوتے ہیں اور پھر کرداروں کی تمام حرکات اور ایکٹنگ یا ہر چھوٹے سے چھوٹا سٹیپ ہاتھ سے ہی بنایا جاتا ہے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اسے فریم بائے فریم اینیمیشن کہتے ہیں۔ تو آپ کو ہر ایک پوزیشن کو خود ہاتھ سے بنانا ہوتا اور امید ہوتی ہے کہ یہ سب مل کر ایک ساتھ ایک اچھی شکل اختیار کر لے گا۔ یہ بہت محنت اور باریکی کا کام ہے۔‘

فلم کی اینیسی اور کانز جیسے فلم فیسٹیولز میں شمولیت

یہ فلم برصغیر کی پہلی فلم ہے جسے اینیسی انٹرنیشنل اینیمیشن فلم فیسٹیول 2024 میں مقابلے کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔

فلم کو کانز فلم فیسٹیول میں بھی پیش کیا گیا ہے۔

محبت، جنگ، سماج اور آزاد فکر پر مبنی یہ فلم دو کرداروں ونسنٹ اور الیس کے گرد گھومتی ہے۔

اس فلم کی کہانی میں ونسنٹ اپنے والد کے ساتھ شیشے کی ایک ورکشاپ چلاتے ہیں۔ ان کی زندگی اس وقت بدلتی ہے جب الیس کی اپنے والدین سمیت ان کے علاقے میں آمد ہوتی ہے۔ فوج کے ایک کرنل کی بیٹی الیس وائلن بجانے کا ہنر جانتی ہیں۔ ملک میں ہونے والی جنگ سب کی زندگیوں کو متاثر کرتی ہے۔ اسی دوران ونسنٹ اور ایلیز کے درمیان پیدا ہونے والی محبت کو ان کے باپ دادا کے مختلف خیالات سے مسلسل چیلنج کیا جاتا ہے۔ فلم میں ایک ایسا دور دکھایا گیا ہے جس میں حب الوطنی اور سماجی موقف کو آزاد فکر اور فنکارانہ مشاغل سے زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے اور جہاں محبت کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔

فلم کے کرداروں کی کہانیاں، ملبوسات، عمارتیں پاکستان سے متاثر

عثمان کے کہنا ہے کہ ’قصہ گو کے طور پر آپ اپنے تجربات سے کہانی اخذ کرتے ہیں۔۔۔ فلم میں بہت سی ایسی چھوٹی چھوٹی چیزیں اور بھی ہیں جنھیں کراچی میں رہنے والے دیکھ کر پہچان سکیں گے۔‘

فلم کے ٹریلر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فلم کے مرکزی کرداروں میں سے ایک کردار الیس کے والد فوج میں ہیں اور ننھی الیس ان کے سامنے وائلن بجاتی نظر آرہی ہیں۔

عثمان نے بتایا کہ الیس کا کردار ان کی والدہ کی حقیقی زندگی سے متاثر ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میرے دادا پاکستان فوج میں کرنل تھے اور امی جب چھوٹی تھیں وہ مجھے بہت ساری کہانیاں سناتی تھیں۔ وہ ہمیشہ ان کی سلامتی کے لیے گھبراتی تھیں۔‘

عثمان نے یہ بھی بتایا کہ فلم میں کرداروں کے ملبوسات، بازاروں اور سینز میں پاکستان کی جھلک ملتی ہے۔ فلم میں نظر آنے والے مقامات پاکستان میں موجود نوآبادیاتی تعمیرات سے متاثر ہیں۔

’فلم میں ایلس کا سکول ایمپریس مارکیٹ پر بنایا گیا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیےایمی ایوارڈز کے لیے نامزد پاکستان کی دستاویزی فلم: ’معذوری کا شکار بچوں کے والدین ظالم نہیں مجبور ہوتے ہیں‘لکس ایوارڈ بائیکاٹ: ’احتجاج ریکارڈ کروانا ان کا حق ہے‘بافٹا ایوارڈز میں بھی سیاہ رنگ کی گہری چھاپگلاس ورکر ایک ’جنگ مخالف فلم‘ کیسے ہے؟

عثمان نے بتایا کہ وہ ہمیشہ سے کہتے رہے ہیں کہ ان کی فلم ایک اینٹی وار یعنی جنگ مخالف فلم ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ ’جنگ ایک اچھی چیز نہیں۔‘

کراچی میں بڑے ہوتے ہوئے انھوں نے اپنے ارد گرد کے ماحول کو تبدیل ہوتے دیکھا۔ باالخصوص 11 ستمبر2001 کے واقعے کے بعد حالات میں کشیدگی آ گئی۔

عثمان نے کہا کہ ’ہم ہمیشہ تنازعات میں گھرے رہے۔۔۔ اپنے اردگرد تمام مشکل حالات ہونے کے باوجود ہم نے آگے بڑھنے اور زندہ رہنے کی وجوہات تلاش کیں اور فلم میں بھی اسی موضوع پر بات ہوئی ہے۔‘

پاکستان میں وسائل کی کمی نے فلم کی پروڈکشن کو کس قدر متاثر کیا؟

عثمان ریاض نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہاتھ سے ہینڈ میڈ اینیمیشن پاکستان میں بنانی تو بہت مشکل ہے۔ یہاں ہینڈ میڈ اینیمیشن کیا یہاں تو فلم بنانا بھی بہت مشکل ہے۔‘

سنہ 2014 میں فلم کا آئیڈیا یا خیال آنے کے بعد اس کو مکمل کرنے میں 10 سال ضرور لگے ’لیکن فلم کی اصل پروڈکشن میں 4 سال سے کچھ زیادہ وقت لگا۔‘

انھیں نے بتایا کہ شرمین عبید چنوئے کی اینیمیٹڈ سیریز ’تین بہارد‘ سے وہ متاثر تھے مگر فلم بنانے کے ابتدائی سالوں میں ان کا ارادہ تھا کہ فلم کو بیرون ملک بنایا جائے کیونکہ انڈیپنڈنٹ فلم اور اینیمیٹڈ فلم بنانے کے لیے پاکستان میں سہولیات کی کمی تھی۔

مگر جاپان کے کچھ نمایاں سٹوڈیوز کے دورے کے بعد انھوں نے پاکستان میں فلم بنانے کا ارادہ کر لیا۔

’انھوں (جاپان کے سٹوڈیوز) نے بھی یہ مشورہ دیا کہ آپ اپنا اینیمیشن سٹوڈیو کھولیں اور اسے پاکستان میں بنانے کی کوشش کریں۔‘

’میں اس کے بارے میں مذاق کرتا ہوں کہ شاید وہ اس وقت مجھ سے جان چھڑانے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن میں یہ مشورہ میرے دل کو لگا۔‘

عثمان نے پاکستان میں اپنے کزن خضر ریاض اور مریم پراچہ جو اب عثمان کی اہلیہ بھی ہیں، ان کے ساتھ مل کر اپنا ’مانو انیمیشن سٹوڈیو‘ کھولا۔

’بعض ٹیم ممبرز کے والدین اینیمیٹڈ فلم پر کام کرنے کے خلاف تھے‘

فلم کی پروڈکشن کے لیے مزید اینیمیٹرز اور ایک ٹیم کی ضرورت تھی۔ عثمان نے بتایا کہ بہت سے ٹیم ممبرز کو ٹیم میں شامل کرتے ہوئے ان کے گھر والوں کو راضی کرنا پڑ رہا تھا کہ وہ انھیں اس فلم پر کام کرنے کی اجازت دے دیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’زیادہ تر پاکستان میں اگر آپ ڈاکٹر یا انجینئر نہیں بن رہے تو آپ ایک ناکام انسان سمجھے جاتے ہیں۔۔۔ جو ہمارے اینیمیٹرز تھے، جو مانو سٹوڈیوز میں کام کرنا چاہتے تھے، وہ انٹرویو دیتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ہم راضی ہیں مگر آپ کو ہمارے والدین کو سمجھانا پڑے گا۔‘

عثمان نے ان کے والدین سے بات کی، اینیمیٹڈ فلم پر کام کرنے اہمیت اور ان کے بچوں کے شوق کو بیان کیا اور اس طرح انھیں راضی کر لیا۔

عثمان نے ہنستے ہوئے مزید کہا کہ ’میں انھیں بچے کہہ رہا ہوں مگر وہ بیس، اکیس سال کے نوجوان تھے لیکن پھر بھی۔۔۔ اُن کے والدین آخر کار مان ہی گئے۔‘

عثمان نے یہ بھی بتایا کہ ان کی ٹیم نے کام کے دوران بھی اپنے اینیمیشن کے ہنر کو مزید بہتر کیا۔

وہ پاکستان میں موجود اپنی ٹیم کے ساتھ ساتھ بیرون ملک میں موجود اپنی ٹیم کے کارکردگی اور تعاون پر بھی بہت خوش تھے۔

عثمان کا پاکستان میں اینیمیٹڈ فلم بنانے کے خیال کو ’بچگانہ‘ کہنے والوں کا اب فلم کے مکملاور بین الاقوامی فیسٹیولز میں شمولیت کے بعد کیا کہنا ہے؟

عثمان کے مطابق 2015 میں جب وہ پاکستان کے مختلف سٹوڈیوز میں اپنی فلم کے آئیڈیا لے کر گئے تو اس وقت پاکستان میں نہ صرف ہینڈ ڈران اینیمیٹڈ (ہاتھ سے بنی اینیمیشن) بنانے کے لیے ضروری وسائل کی کمی تھی بلکہ جو بڑے سٹوزیوز کام کر رہے تھے وہاں موجود لوگوں کے لیے بھی یہ تصور کرنا مشکل تھا کہ پاکستان میں ایسی فلم بن سکتی ہے۔

عثمان نے بتایا کہ ’ان لوگوں کا خیال تھا کہ اس وقت جب باقی دنیا اینیمیشن کے دوسری جدید طریقوں کو اپنا رہی تھی، اس میں ہاتھ سے بنی اتنی محنت طلب ٹو ڈی (2D) اینیمیشن کون دیکھے گا؟‘

’وہ سب سوچتے تھے کہ یہ ایک بچگانہ خیال ہے کہ آپ یہ ہاتھ سے اینیمیشن کیوں کر رہے ہیں؟ کیا آپ ہر ایک فریم کو بیٹھ کر بنائیں گے؟ مجھے ابھی تک یاد ہے کسی نے کہا تھا کہ میں سی جی ماڈل کی ٹی شرٹ کو ہرے سے نیلا ماؤس کی ایک کلک سے کر سکتا ہوں اور آپ اسے بیٹھ کر خود بنائیں گے؟‘

عثمان نے مزید کہا کہ ’میں (ان سٹوڈیوز سے) کافی غصے میں نکلا لیکن پھر میں نے سوچا کہ ٹھیک ہے، ہم انھیں غلط ثابت کریں گے۔‘

عثمان نے بتایا کے یہ کام بالکل آسان نہیں تھا اور ان کے لیے صبر آزما تھا۔ مگر وہ اپنے ارادے میں کامیاب ہو گئے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’بالآخر سب کچھ ٹھیک سے مکمل ہو گیا۔ لیکن انھوں نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا کہ جنھوں نے کہا تھا کہ تم پاگل ہو۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں تب کم عمر تھا، نا سمجھ تھا اور بہت پرجوش بھی۔‘

اس فلم کی ریلیز جولائی 2024 میں پاکستانی سینما گھروں میں انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں متوقع ہے۔

اسی بارے میںشیشہ گھر: ’چاہتا ہوں لوگوں کو اینیمیشن بنانے کے لیے امریکہ نہ جانا پڑے‘باربی کی نمائش پر پنجاب میں تنازع: فلم میں ایسا کیا ہے جس پر اس کا ’جائزہ‘ لیا جا رہا ہے؟نوے دن میں مکمل ہونے والی پاکستان کی پہلی فلم ’تیری یاد‘ جو بُری طرح فلاپ ہوئی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More