غلام کے طور پر ہندوستان لائے گئے ملک عنبر جنھوں نے نہر تعمیر کر کے 400 سال تک اورنگ آباد کو پانی فراہم کیا

بی بی سی اردو  |  Jun 29, 2024

گرمیوں کے دنوں میں پانی کی کمی انڈیا اور پاکستان کے بیشتر علاقوں میں محسوس کی جاتی ہے۔ ایسے علاقے بھی ہیں جہاں کسی کو آٹھ دن تک پانی کا انتظار کرنا پڑتا ہے تو کسی کو روزانہ دو بالٹی پانی کے لیے ٹینکروں کے پیچھے بھاگنا پڑتا ہے۔

انڈیا اور پاکستان میں بہت سے لوگوں کو پانی کے لیے ٹینکر منگوانے پڑتے ہیں جن کے عوض ہر خاندان ہزاروں روپے ادا کرتا ہے۔

اسی طرح انڈین ریاست مہاراشٹر کے چھترپتی سمبھاجی نگر (سابقہ اورنگ آباد) میں پانی کا بحران پیدا ہوا ہے۔ یہ کبھی ریاست میں سب سے سرسبز و شاداب شہر کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔

لیکن اب سمبھاجی نگر کے مکینوں کو تقریباً ہر سال پانی کے بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ پانی کی سکیموں میں تعطل، بارش کی کمی اور پانی کے لیے کسی ایک ذریعہ پر انحصار ہے۔

تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ آج سے قریب چار سو سال قبل جب اس شہر کو بسایا گيا تھا تو پانی کا بہت اچھا انتظام کیا گیا تھا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ بہت سی عظیم تہذیبوں کا آبی ذخائر سے گہرا تعلق رہا ہے۔ بہر حال سمبھاجی نگر یا اورنگ آباد کو جب بسایا گیا تو پانی کے انتظام کے لیے نہر کا جال بچھایا گيا تھا جسے ’نہر عنبری‘ کہتے ہیں۔

اس علاقے میں تقریباً 14 نہریں ہیں۔ ان میں نہر عنبری کے ساتھ مشہور واٹر مل نہر بھی شامل ہے۔ نہر عنبری ایک لمبی اور بہت اہم تاریخی نہر ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ قدرتی نہر نہیں لیکن شہر کا خاکہ بناتے وقت قدرتی اور جغرافیائی حالات کو استعمال کرتے ہوئے پانی کا ایک ایسا نظام بنایا گیا جو بعض ماہرین کے مطابق آج بھی کام کر سکتا ہے۔

اس نہر کے تصور اور اس کی انجینیئرنگ کے پیچھے تاریخ کا ایک بڑا نام ’ملک عنبر‘ ہے۔ نہر کے بارے میں جاننے سے پہلے آئیے ملک عنبر کے بارے میں مختصراً جانتے ہیں۔

Getty Imagesملک عنبر غلام کی حیثیت سے ہندوستان آئےغلامی سے سفر کا آغاز

ملک عنبر اصل میں کون تھے جنھوں نے نہر عنبری کا عظیم تاریخی ورثہ دیا؟ بی بی سی نے 'انکارنیشنز' کے نام سے ایک سیریز کی ہے اور مورخ سنیل کھلنانی نے ملک عنبر کے بارے میں تفصیل دی ہے۔

ملک عنبر سولہویں صدی کے وسط میں ابیسینیا (جو اب ایتھوپیا ہے) میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن کا نام چاپو تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کے والدین نے انھیں بچپن میں غلام کے طور پر بیچ دیا تھا۔

بعد میں ملک عنبر کو کئی بار غلام کے طور پر خریدا اور فروخت کیا گیا اور آخر کار وہ ہندوستان آ گئے۔ انھیں خطۂ عرب سے ایک بحری جہاز کے ذریعے ہندوستان کے علاقے کونکن لایا گیا تھا۔

ملک عنبر نظام شاہی کے سردار چنگیز خان کے غلام کے طور پر ہندوستان آئے۔ ان کی ذہانت کی وجہ سے چنگیز خان نے انھیں مالی امور سونپے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ انجینیئرنگ میں بھی قابل تعریف مہارت رکھتے تھے۔

ملک عنبر آہستہ آہستہ اپنے آقا چنگیز خان سے سیاسی حکمت عملی سیکھنے لگے اور چنگیز خان ہی ان کے آخری مالک ٹھہرے۔ چنگیز خان کی وفات کے وقت ملک عنبر جوان تھے۔

ملک عنبر نہ صرف انتہائی ذہین اور پرجوش تھے بلکہ اب وہ خود مختار بھی تھے۔ آزادی کے بعد ملک عنبر نے فوج بنانے میں 20 سال گزارے۔ اس کے لیے انھوں نے بہت محنت کی۔ چنانچہ وہ 1595 تک ایک بڑی فوج کھڑی کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

ان کی فوج کی بدولت ہی سلطان مرتضیٰ نظام شاہ ثانی کا سردار بنا۔ سلطان کی طرف سے لڑتے ہوئے ملک عنبر نے مغل فوج کے ساتھ زبردست جنگ کی اور مغلوں کو تھکا دیا۔

ملک عنبر کی فوج میں تقریباً 50 ہزار سپاہی تھے۔

1610 میں ملک عنبر نے دولت آباد کے ناقابل تسخیر قلعے پر بھی قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد انھوں نے گاؤں کھڑکی کو اپنا دارالحکومت بنایا اور اس کے ارد گرد فوجی کیمپ بنائے۔ یہ جگہ شہزادہ اورنگزیب کے زمانے میں اورنگ آباد کہلائی اور اب یہ چھترپتی سمبھاجی نگر ہے۔

نہر کی تعمیر کا پس منظر

اورنگ آباد سے تعلق رکھنے والی تاریخ کی سکالر دلاری قریشی چھترپتی فی الحال کینیڈا میں آباد ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ملک عنبر کو اس نہر کا خیال کیسے آیا۔

دلاری قریشی کے مطابق: 'ملک عنبر احمد نگر نظام شاہی کا وزیر اعظم تھا۔ اس وقت نظام شاہی مغلوں کے حملوں سے دوچار تھی۔ اسی وقت ملک عنبر نے نظام شاہی کے لیے مغلوں کے خلاف کئی لڑائیاں لڑیں۔ ملک عنبر کی فوج کو مغلوں کی طاقت کے خلاف خاصی جدوجہد کرنی پڑی۔

'لیکن تقریباً ایک سال بعد ملک عنبر نے اورنگ آباد کے علاقے چکلتھانہ (موجودہ ایئرپورٹ) میں مغلوں کے خلاف اپنی پہلی بڑی فتح حاصل کی۔'

ملک عنبر کا خیال تھا کہ اس فتح سے یہ پورا علاقہ ان کے لیے فائدہ مند ہو گیا ہے۔ چنانچہ انھوں نے یہاں ایک شہر بسانے اور اسے اپنا دارالحکومت بنانے کا فیصلہ کیا۔

دلاری قریشی نے کہا: 'لیکن اتنے بڑے شہر میں شہریوں اور فوج کی سب سے بنیادی ضرورت پانی تھی۔ اس وقت اس شہر کے لیے پانی کا واحد بنیادی ذریعہ دریائے کھام تھا۔ لیکن ملک عنبر نے محسوس کیا کہ یہ پانی شہر کے لیے کافی نہیں ہوگا۔'

ملک عنبر نے مکہ کے ایک قاضی سے انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ وہ ایک معمار بھی تھے۔ اس لیے انھوں نے ایران اور شام کی طرز پر یہاں پانی کا نظام بنانے کا فیصلہ کیا۔

ملک عنبر نے یہ تاریخی نہر عنبری 1618 میں نئے بنائے گئے دارالحکومت کے شہریوں کے لیے بنوائی تھی۔

سائفن ٹیکنالوجی کے مطابق نہر کا ڈیزائن

اورنگ آباد یا چھترپتی سمبھاجی نگر کی تاریخ پر نظر رکھنے والے تاریخ داں ڈاکٹر شیخ رمضان نے اس نہر کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب 'نہر عنبری: اورنگ آباد کو پانی فراہم کرنے والی 400 سالہ قنات آبی' میں اس بارے میں تفصیلی معلومات دی ہیں۔ خاکوں کے ذریعے انھوں نے ان نہروں کی ساخت کو تفصیل سے پیش کیا ہے۔

400 سال پہلے جدید ٹیکنالوجی یا دیگر سہولیات میسر نہیں تھیں۔ پھر بھی ملک عنبر نے یہ زیر زمین نہری نظام شہر کو پانی کی فراہمی کے لیے بنایا تھا۔ اس نے اس نہر کو بنانے کے لیے سائفن ٹیکنالوجی کا استعمال کیا۔

'سائفن ٹیکنالوجی کا مطلب کشش ثقل ہے۔ قدرتی طور پر پائے جانے والے ارضیاتی حالات کے ذریعے کشش ثقل کا استعمال کرتے ہوئے پانی کی بڑی مقدار کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے اس طریقے کو سائفن ٹیکنالوجی کہا جاتا ہے۔‘

یہ نہر 1618 عیسوی میں بنی تھی۔ ڈاکٹر رمضان نے کہا ہے کہ اتنے سالوں کے بعد بھی اس نہر میں صاف پانی کا زندہ چشمہ موجود ہے۔ رمضان شیخ نے بتایا کہ مکمل طور پر زیر زمین بنائی گئی اس نہر کی لمبائی تقریباً ڈھائی میل ہے۔

کھربوں روپے مالیت کا پانی ضائعپانی کے ڈیم رحمت ہیں یا خطرہشادی کرنی ہے تو پانی کا ٹینکر لاؤ!شہر میں پانی کا مسئلہ کیسے ختم کیا گیا؟

اس نہر کے پانی کا بہاؤ نیوٹن کے قوّت ثقل کے اصول پر پہاڑیوں سے نیچے کی طرف شہر تک لایا گیا۔ دلاری قریشی کے مطابق ملک عنبر نے شہر کے شمال میں واقع جوبن ہل نامی پہاڑی کا انتخاب کیا۔

'یہاں پہاڑی کی ڈھلوان پر 48 فٹ لمبی اور 5 سے 10 فٹ گہری نہر کھودی گئی جس میں بارش کا پانی ذخیرہ کیا جاتا تھا۔ اس پانی کو مٹی کی پائپ لائن کے ذریعےنیچے گاؤں تک لایا جاتا تھا۔'

قریشی کہتی ہیں: 'وہاں سے پانی کے پائپوں کا جال پورے شہر میں پھیلا ہوا تھا۔ ہوا کا دباؤ برقرار رکھنے کے لیے مختلف جگہوں پر ایئر ٹاورز لگائے گئے تھے۔ آج بھی یہ ٹاور شہر میں کئی جگہوں پر دیکھے جا سکتے ہیں۔'

آرکیٹیکٹ دھنشری میراجکر اس نہر کے تحفظ اور اسے بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس کی حالت جاننے کے لیے انھوں نے خود اس نہر کا سروے کیا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے تحقیقی مقالے کے ذریعے اس نہر کی ٹیکنالوجی کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔

میراجکر کے مطابق نہر کے شروع میں جمع ہونے والا پانی اس ڈھائی میل لمبی نہر سے بہتا ہوا شہر تک پہنچتا ہے۔ اس پوری نہر پر تقریباً 100 مین ہول بنائے گئے ہیں۔ اس مین ہول کو دہنشری میراجکر نے 'جلکوپک' کا نام دیا ہے۔ کئی مقامات پر اس مین ہول کے ذریعے نہر میں اترنے کے لیے جگہ بھی فراہم کی گئی ہے۔

نہروں کے ذریعے شہر میں لائے جانے والے اس پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے شہر بھر میں ٹینک بنائے گئے تھے۔ یہ پانی مٹی کی پائپ لائنوں کے ذریعے شہر کی بستیوں کے کنوؤں تک پہنچائے جاتے تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان سب میں کسی بھی قسم کے آلات کا استعمال نہیں ہوا۔ سب کچھ صرف کینال ڈیزائن کے ذریعے کیا گیا۔

دہنشری میراجکر کے مطابق شہر میں 691 کنویں بنائے گئے تھے اور پانی ٹینک کے بیچ میں لگے فوارے سے ٹینک میں گرتا۔ ان کنوؤں کے ذریعے 24 گھنٹے پانی فراہم کیا جاتا تھا۔

یہ اس وقت تقریبا دو لاکھ لوگوں کو روزانہ وافر پانی فراہم کرتا تھا اور اس زیر زمین نہر کو اینٹ اور چونے کے گاڑے سے بنایا گیا تھا اور اسی وجہ سے یہ اتنا مضبوط ہے۔

نہر کی تعمیر اور اس کی انجینئرنگ

چھترپتی سمبھاجی نگر کی جغرافیائی حیثیت کو دیکھتے ہوئے یہ شہر کئی جانب سے پہاڑیوں سے گھرا ہوا تھا۔ اگرچہ بڑھتی ہوئی شہرکاری کی وجہ سے پہاڑیوں کی تعداد میں کمی آئی ہے لیکن یہ تعداد اب بھی نمایاں ہے۔

اس لیے یہ شہر اس نہر کی تعمیر کے لیے بہت موزوں تھا۔ ان پہاڑیوں کی فراہم کردہ ڈھلوان نہر کے لیے بہت اہم بن گئی۔

اس نہر کی شکل تقریباً تین فٹ چوڑی اور سات فٹ اونچی تھی۔ نہر کے اوپر گنبد نما چھت ہے۔ جو نہر کو سلٹنگ سے بچاتا ہے۔ اسی طرح ایک نہر تقریباً ڈھائی میل لمبی جو کہ کسی قسم کی سرنگ لگتی ہے۔

چونکہ یہ دریا سے متصل ہے اس لیے خاص طور پر مون سون یا دیگر اوقات میں اینٹوں کی ان تعمیرات میں کچھ جگہوں پر دانستہ طور پر دراڑیں رکھی گئی ہیں تاکہ زیر زمین پانی وہاں سے نکل سکے۔

ڈھائی میل کی اس نہر پر 100 مین ہول بنائے گئے ہیں۔ ہر مین ہول 200 فٹ کے فاصلے پر ہیں۔ نہر چونکہ زیر زمین ہے اس لیے مختلف جگہوں پر مین ہول بنائے گئے ہیں تاکہ صفائی یا مرمت کا کام کیا جا سکے۔

اوور فلو سسٹم کو انتہائی موثر انداز میں ڈیزائن کیا گیا ہے تاکہ نہر اوور فلو نہ ہو اور مون سون کے دوران نہر کی مکمل بھرائی کی وجہ سے خطرناک صورتحال پیدا نہ ہو۔ ایک خاص اونچائی پر پانی کے نکلنے کے لیے جگہ فراہم کی گئی ہے۔ اس لیے ایک خاص سطح پر پہنچنے کے بعد پانی خود بخود نہر سے نکل جاتا ہے۔

یہ نہر شہر کے ساتھ بہنے والے دریائے خم یا کھام کے متوازی تھی۔ اس لیے ممکن ہے کہ اس نہر کو کبھی پانی کی کمی کا سامنا نہ ہوا ہو۔ ساتھ ہی پہاڑی کے دامن میں ایک ٹوکری کی شکل کا حصہ تھا جہاں سے نہر نکلتی تھی، اس لیے وہاں پانی بہت زیادہ رہتا تھا۔

میراجکر کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق شہر میں اس جگہ پر پانی جمع ہو جاتا تھا جہاں گائے کا مجسمہ تھا۔ وہاں سے شہر میں بنائے گئے کنوؤں تک 12 انچ قطر کی پائپ لائن کے ذریعے پانی پہنچایا جاتا تھا۔

کیا نہر کی بحالی ممکن ہے؟

ماہرین کا خیال ہے کہ ان نہروں کی بحالی ممکن ہے۔ کئی معماروں نے اس کے لیے تفصیلی نقشے اور دیگر تیاریاں بھی کی ہیں۔

کئی تنظیموں، انجمنوں، سماجی کارکنوں نے اس کے لیے اورنگ آباد میونسپل کارپوریشن سے رابطہ کیا۔ اس کے بعد انتظامیہ کی طرف سے دلچسپی دکھائی گئی۔ اس سلسلے میں پردیپ دیشپانڈے نے بھی مرمت کے لیے کچھ ڈرائنگ تیار کیے۔ لیکن یہ منصوبہ پھر سے تعطل کا شکار ہے۔

قدیم زمانے سے لوگ اس سے ملنے والے پانی کو استعمال کرتے آئے ہیں۔ آج بھی چھترپتی سمبھاج نگر میں نہر میں پانی ہے۔ کچھ لوگ آج بھی اسے بھی استعمال کرتے ہیں۔

آرکیٹیکٹ دھنشری میراجکر بھی اس نہر کے تحفظ اور اسے بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ میراجکر کے سروے کے مطابق نہر میں اب بھی تقریباً دو فٹ کی اونچائی تک پانی لے جانے کی صلاحیت موجود ہے۔

آج بھی کم از کم ایک سے دو لاکھ لوگ اس پانی سے اپنی پیاس بجھا سکتے ہیں۔ لیکن قوت ارادی کی کمی کے باعث اس تاریخی ورثے کو محفوظ نہیں کیا جا رہا ہے۔ میراجکر کا کہنا ہے کہ نہر میں پانی سال بھر دستیاب ہے اور آج بھی پینے کے قابل ہے۔ اگر نہیں تو اسے بہتر کرنے یا اسے کہیں اور استعمال کرنے کا آپشن دستیاب ہے۔

شادی کرنی ہے تو پانی کا ٹینکر لاؤ!لوبان: جو ایسپرین سے ویاگرا تک سب کچھ تھاکھربوں روپے مالیت کا پانی ضائعکیا دنیا میں پانی کی کمی نئی جنگوں اور تنازعات کو جنم دے رہی ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More